اسلام آباد۔17اکتوبر (اے پی پی):وفاقی وزیر برائے فوڈ سیکورٹی اینڈ ریسرچ سید فخر امام نے کہا ہے کہ زرعی شعبے بشمول انسانی زندگی پر ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات ملک میں پائیدار ماحولیاتی ترقی کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔انہوں نے کہا کہ پائیدار ماحولیاتی ترقی زرعی شعبے کی بہتری کی کنجی ہے جس پر انسانی زندگی کا انحصار ہے۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے اسلام آباد میں سویڈن کے سفارت خانے اور ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف) کے اشتراک سے منعقدہ ”پائیدار طرز زندگی کے معیارات اور بہتر زندگی گزارنے کے لیے کھائیں ، منتقل کریں اور زندہ رہنے کے لیے سات روزہ آگاہی مہم“ کے افتتاح کے موقع پر بطور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے کیا۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ معیشت زرعی شعبے پر مرکوز ہے جس میں فصلیں ، لائیو سٹاک ، ماہی گیری اور جنگلات شامل ہیں۔ ان تمام عوامل کی موجودگی میں معیشت کو پائیدار کہا جا سکتا ہے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ آب و ہوا کی تبدیلی نے ہمارے زرعی شعبے بشمول کپاس اور گندم جیسی بڑی فصلوںکو بھی متاثر کیا ہے ، جنہیں موسم کی انتہائی حفاظت کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ہمارے پاس 200 ملین لائیو سٹاک ہے جو کہ انتہائی کم ہے۔
فخر امام نے کہا کہ حالیہ پاکستان قدرتی خوبصورتی اور قدرتی وسائل سے مالا مال ملک ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہمارے پاس دنیا کی چھ بڑی پہاڑی چوٹیاں ہیں، گلیشیئرز ہونےکے باوجود آج ہمیں زراعت کے لیے پانی کی کمی کا سامنا ہے جو کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں پاکستان میں جنگلات کو بے دریغ کاٹا گیا ہے جبکہ اب درخت دوبارہ لگانے کی کوششیں جا ری ہیں۔
اسی طرح ، ہمارے شمالی علاقوں میں کچھ نایاب جانور پائے جاتے ہیں جن کی حفاظت کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں اپنی نوجوان نسل کو آب و ہوا کی تبدیلی سے آگاہ کرنا ہوگا تاکہ ہم مستقبل میں پائیدار ترقی حاصل کر سکیں۔ اس موقع پر پاکستان میں سویڈن کے سفیر ہینرک پارسن نے کہا کہ انسانی زندگی کے لیے بڑے ماحولیاتی خطرے کو کم کرنے کے لیے پائیدار ماحولیاتی نمو ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنی زندگی میں ماحول کے مطابق اچھی تبدیلیاں لانا ہوں گی اور ایسی چیزوں کو تبدیل کرنا ہو گی جو ماحول سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ سفیر نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی پائیدار ترقی کے زندگی کے اہداف پر اپنے اثرات مرتب کرتی ہے اور یہ زندگی کے مختلف اہم پہلووں کو بھی متاثر کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ زراعت ، معیاری خوراک ، پانی کی کمی اور موسمیاتی تبدیلی کے دیگر جان لیوا عوامل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔
ہینرک پارسنز نے کہا کہ پلاسٹک کے تھیلوں اور دیگر ماحولیاتی منفی اشیا کے استعمال کو روکنے سے ہم ماحول سے کاربن کے اخراج کو روک سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت پاکستان نے موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات سے نمٹنے اور ملک میں معیار زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے اہم اقدامات کیے ہیں۔”بلین ٹری سونامی اور گرین پاکستان“ اقدام سب سے اہم منصوبے ہیں جو یقینی طور پر پائیدار اور ماحول دوست زندگی کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اور سویڈن میں ماحولیات اور پائیدار زندگی کے شعبوں میں کام کرنے کے بہت زیادہ مواقع ہیں۔اس موقع پر سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے موسمیاتی تبدیلی کی چیئرپرسن سینیٹر سیمی ایزدی نے کہا کہ پائیدار ماحولیاتی ترقی معاشرے میں ترقی کا واحد راستہ ہے۔یہ ایک کوشش ہے کہ اس مسئلے کے بارے میں شعور اجاگر کیا جائے اور لوگوں کو ماحول دوست عوامل اختیار کرنے کی ترغیب اور حوصلہ افزائی کے ذریعے ان مسائل کو حل کیا جاسکے۔