ماضی کی حکومتوں کے قرضوں کی مد میں سالانہ 2 ہزار ارب روپے واپس کر رہے ہیں، اپوزیشن کے ساتھ مل کر مسائل کا حل چاہتے ہیں، وزیراعظم عمران خان آئندہ پانچ برس بھی حکومت کریں گے، چوہدری فواد حسین

اسلام آباد۔22جون (اے پی پی):وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات چوہدری فواد حسین نے کہا ہے کہ گزشتہ حکومتوں کی جانب سے لئے گئے قرضوں کی مد میں ہم سالانہ 2 ہزار ارب روپے واپس کر رہے ہیں، ماضی کی حکومتوں کی وجہ سے ملکی آمدن کم اور اخراجات زیادہ ہیں، اپوزیشن سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق نہیں دینا چاہتی، 2023ءمیں 1500 ارب روپے بجلی گھروں کی مد میں دینا ہوں گے، بجلی کے پلانٹ لگاتے ہوئے ماحولیاتی تبدیلی کے منفی اثرات کو نظر انداز کیا گیا، سندھ میں 13 سال برسراقتدار پیپلز پارٹی نے صوبے کو برباد کیا، سندھ کے انفراسٹرکچر پر پیسہ خرچ نہیں کیا گیا

، سندھ حکومت کو جانے والا پیسہ بیرون ممالک منتقل ہوتا ہے، اپوزیشن کے ساتھ مل کر مسائل کا حل چاہتے ہیں، وزیراعظم عمران خان آئند پانچ برس بھی حکومت کریں گے، اگر اپوزیشن کو آئندہ انتخابات میں دھاندلی کے خدشات ہیں تو وہ ترامیم سامنے لائے، حزب اختلاف انتخابی اصلاحات سے کنارہ کشی اختیار کر رہی ہے، اپوزیشن کو نظام انصاف اور انتخابی اصلاحات پر گفتگو کرنی چاہئے، اپوزیشن جان لے وہ جتنا وزیراعظم عمران خان پر تنقید کرے گی، اتنا وہ عوام میں مقبول ہوں گے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے منگل کو قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے کیا۔ وفاقی وزیر اطلاعات چوہدری فواد حسین نے کہا کہ بجٹ میں ہمیں 5700 ارب روپے ریونیو حاصل ہونے کی توقع ہے، گزشتہ سال 4600 سے 4700 ارب روپے ریونیو حاصل ہوا تھا، اس سال ہمیں 5700 ارب روپے ریونیو کے حصول کے بعد خسارہ تین ہزار ارب روپے کا ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ 5700 ارب روپے میں سے 57 فیصد حصہ صوبوں کو چلا جائے گا۔ مسلسل تیسرے سال ہم دفاع کے بجٹ میں اس طرح اضافہ نہیں کر رہے ہیں جس طرح ہمارے ہمسایہ نے کیا۔ ہمیں 2 ہزار ارب روپے سے زائد رقم ان قرضوں کی مد میں ادا کرنا پڑ رہا ہے

جو سابقہ حکومتوں نے لئے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری آمدن کم اور اخراجات زیادہ ہیں۔ 1947ءسے لے کر 2008ءتک پاکستان نے کل 6 ہزار ارب روپے کا قرضہ حاصل کیا تھا اور اس رقم سے ہم نے اسلام آباد شہر بنایا، گوادر کو ایک نئی مارکیٹ بنایا، نیوی کی بیسز بنائیں، موٹر وے بنائی اور پاکستان کے انفراسٹرکچر کو ترقی دی۔ انہوں نے کہا کہ 2008ءکے بعد آصف زرداری کی حکومت آئی اور قرض اچانک 6 ہزار ارب روپے سے بڑھنا شروع ہو گیا۔ اگلے دس سالوں میں یہ قرضہ 26 ہزار ارب روپے تک پہنچ گیا۔

اسحاق ڈار نے معیشت کا بیڑہ غرق کیا، ہمیں ہر سال دو ہزار ارب روپے ان قرضوں پر سود کی مد میں دینا پڑتے ہیں جو پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے لیا۔ انہوں نے کہا کہ ن لیگ نے ساہیوال کے اندر کوئلہ کا پلانٹ لگایا جبکہ ساہیوال میں کوئلہ نہیں ہوتا، کوئلہ پہلے کراچی آتا ہے، وہاں سے ٹرین کے ذریعے ساہیوال لایا جاتا ہے، اس منصوبے کی وجہ سے ماحولیات کے مسائل پیدا ہوئے، ن لیگ کے لگژری منصوبوں کی وجہ سے بجلی کمپنیوں کو 900 ارب روپے دینا پڑتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت 30 ہزار میگاواٹ بجلی بنانے کی صلاحیت ہے لیکن 24 ہزار میگاواٹ سے زیادہ ترسیل نہیں کر سکتے، اس کا کون ذمہ دار ہے۔ انہوں نے کہا کہ چاہے ہم بجلی استعمال کریں یا نہ کریں،

ہمیں یہ ادائیگی کرنی ہے۔ 2023ءمیں بجلی کے ان منصوبوں کی وجہ سے ہمیں 1500 ارب روپے دینا پڑیں گے۔ انہوں نے کہا کہ 18 ویں آئینی ترمیم کے بعد وسائل کا بڑا حصہ صوبوں کو جاتا ہے، گیس کی فراہمی، ہسپتالوں کی صورتحال کو بہتر بنانا، پولیس اور سکولوں کی صورتحال کو بہتر بنانا صوبوں کی ذمہ داری ہے، اس وقت کراچی اور لاڑکانہ کی صورتحال سب کے سامنے ہے، وہاں کے لوگ کہہ رہے ہیں کہ ہمیں سہولیات نہیں مل رہیں۔ اس سال کے بجٹ میں تقریباً 700 ارب سے 750 ارب روپے سندھ حکومت کو ملیں گے، اس سے پہلے 1600 سے 1800 ارب روپے مراد علی شاہ کی انتظامیہ کو دیئے گئے۔

یہ پیسہ کہاں گیا، کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے لیکن اس کی اپنی پولیس ہی نہیں ہے۔ 1990ءسے سندھ رینجرز کراچی میں موجود ہے، سندھ حکومت میں اتنی صلاحیت نہیں کہ وہ اپنی پولیس کو اپ گریڈ کر سکے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت بدین اور گھوٹکی کے نام پر اربوں روپے وصول کئے جاتے ہیں، اگر اس پیسہ کا موازنہ ان شہروں کی حالت سے کیا جائے تو آج ان شہروں کو پیرس ہونا چاہئے تھا۔ انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت کو جانے والا پیسہ بیرون ملک جاتا ہے، دو سال میں سولہ سے سترہ سو ارب روپے سندھ حکومت کو صرف این ایف سی کی مد میں دیئے گئے، گرانٹس کی مد میں علیحدہ رقم دی گئی،

سندھ حکومت نے یہ پیسہ کہاں استعمال کیا۔ انہوں نے کہا کہ دو خاندان ہیں ایک یہاں سے اور ایک سندھ سے پیسہ باہر بھیجتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج ہمیں جو مشکلات درپیش ہیں اس کے ذمہ دار ایوان میں دوسری جانب بیٹھے لوگ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر بجٹ برا ہے تو اپوزیشن اپنی تجاویز سامنے لائے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کی حکومت نے پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا ہے، گزشتہ برس 26 فروری کو پہلا کووڈ۔19 کیس پاکستان میں آیا، اس وقت ہم کووڈ۔19 سے متعلق مٹیریل خود تیار نہیں کر رہے تھے،

چار سے پانچ ماہ کے اندر ہم نے یہ سامان خود بنانا شروع کر دیا، آج پاکستان اس خطے کو کووڈ۔19 مٹیریل فراہم کرنا والا سب سے بڑا ایکسپورٹر ہے جس پر پاکستان کے نوجوانوں، انجینئرز اور سائنسدانوں کو سلام پیش کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کی تقریروں سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا، یہ جتنی تقریریں کریں گے اتنا لوگوں کی عمران خان سے وابستگی بڑھے گی، آج قوم کی امیدیں عمران خان سے ہیں، ملک کی ترقی کی رفتار بڑھ رہی ہے جبکہ اپوزیشن کی رفتار کو بریکیں لگ رہی ہیں،

ابھی تک ان کو خود سمجھ نہیں آ رہی کہ ان کا لیڈر کون ہے، یہ ایک بکھرا ہوا گروہ ہے جس کو ہم اپوزیشن کہتے ہیں لیکن اس کے باوجود ہم اپوزیشن کے ساتھ بڑے مسائل پر بیٹھنا چاہتے ہیں۔ گذشتہ سال اکتوبر سے الیکٹورل ریفارمز بل ایوان میں موجود ہے، اس وقت اپوزیشن الیکٹورل ریفارمز سے کنارہ کشی اختیار کر رہی ہے کیونکہ اسے یقین ہے کہ اگلے الیکشن میں بھی وہ ناکام ہوں گے، عمران خان آئندہ پانچ سال بھی وزیراعظم رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن آئے، الیکشن ریفامز سمیت دیگر بڑے امور پر بیٹھے، الیکشن ریفارمز پر ہم 49 ترامیم لائے ہیں، اگر ان کے پاس کوئی بہتر تجاویز ہیں تو وہ سامنے لائے۔ انہوں نے کہا کہ ہم الیکشن کمیشن کو مضبوط کرنا چاہتے ہین،

الیکٹرانک ووٹنگ مشین لانا چاہتے ہیں تاکہ رات کا رزلٹ صبح تک تاخیر کا شکار نہ ہو۔ ہم انتخابی مسائل کے حل کے لئے الیکٹرانک ووٹنگ مشین لانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن ابھی سے واویلا کر رہی ہے کہ اگلے الیکشن میں دھاندلی ہوگی، انہیں پتہ ہے کہ اگلے پانچ سال بھی عمران خان کے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے عوام نے ہمیں اپنے مسائل کے حل کے لئے اس ایوان میں بھیجا ہے، جمہوریت میں ہر ایک کا نکتہ نظر مختلف ہوتا ہے لیکن کچھ بڑے معاملات پر ہمیں مل بیٹھنے کی ضرورت ہے۔ چوہدری فواد حسین نے کہا کہ اپوزیشن لیڈر نے بھی اپنی تقریر میں کہا کہ ہمیں مل بیٹھنا چاہئے، انہوں نے تیسری مرتبہ یہ بات کی لیکن یوں لگ رہا ہے کہ اپوزیشن لیڈر کی پارٹی کے اندر اپوزیشن لیڈر کا کنٹرول نہیں،

وہ یہاں تو بات کر لیتے ہیں لیکن جب سپیکر انہیں بات کرنے کا کہتے ہیں تو ان کی طرف سے جواب نہیں آتا۔ اس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اسمبلی کے اندر اپوزیشن لیڈر شہباز شریف ہیں لیکن فیصلے کوئی اور کرتا ہے۔ پہلے یہ آپس میں بیٹھیں اور فیصلہ کریں کہ پارٹی میں فیصلہ کس نے کرنا ہے، پھر وہ آئے اور ہمارے ساتھ بیٹھ کر بات کرے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں الیکٹورل ریفارمز اور جوڈیشل ریفارمز پر بات کرنی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن بجٹ کے حوالے سے سنجیدہ رویہ اختیار کرے،

یہاں آ کر روایتی باتیں کر دی جاتی ہیں، یہ اپنی تجاویز دے۔ اپوزیشن کو یہ غلط فہمی ہے کہ وہ عمران خان کی ذات کو نشانہ بنائیں گے، ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، جتنا عمران خان کو نشانہ بنائیں گے اتنا ہی وہ عوام میں مقبول ہوں گے۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ اپوزیشن کو تنقید کا حق حاصل ہے، ضرور تنقید کرے لیکن کچھ مثبت کردار بھی ادا کرے، اپنی تجاویز سامنے لائے، ہم اس پر بیٹھنے کو تیار ہیں۔ گزشتہ دنوں پارلیمان میں جو ماحول پیدا ہوا، ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا،

ہائوس سے لوگوں کو پیغام جانا چاہئے کہ یہاں ان کے مسائل زیر بحث آتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان 22 کروڑ عوام کا ملک ہے، ہم دنیا کی سات ایٹمی طاقتوں میں شامل ہیں، ہمیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا چاہئے، وہ کام کرنے چاہئیں جس سے عام آدمی کو فائدہ ہو، اپوزیشن تنقید کرے، حکومت پر اپنا غصہ نکالے لیکن کچھ مثبت بھی سوچے، ہم اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں، اپوزیشن منفی سیاست ختم کر کے مثبت سیاست کی طرف آئے، ہمیں مل کر پاکستان کو ترقی کی جانب لے کر جانا چاہئے۔