مجوزہ سٹیٹ بینک ایکٹ میں سٹیٹ بینک کواحتساب سے مبرا قراردینے کا دعویٰ گمراہ کن ہے، ترجمان وزارت خزانہ

51
نگراں حکومت کاروباری اعتماد میں اضافہ اور معیشت کو استحکام و ترقی کی طرف لے جانے کے لیے ضروری پالیسی اقدامات شروع کرنے میں پرعزم ہے، وزارت خزانہ
نگراں حکومت کاروباری اعتماد میں اضافہ اور معیشت کو استحکام و ترقی کی طرف لے جانے کے لیے ضروری پالیسی اقدامات شروع کرنے میں پرعزم ہے، وزارت خزانہ

اسلام آباد۔18مارچ (اے پی پی):وزارت خزانہ کے ترجمان نے کہاہے کہ سٹیٹ بینک ترمیمی ایکٹ 2021 کے کے تحت وفاقی حکومت کی پیشگی منظوری کے بعد ہی سٹیٹ بینک کو ملکی اور بین الاقوامی نگران حکام کے ساتھ ایم اویوز کرنیکی اجازت دی گئی ہے، مجوزہ سٹیٹ بینک ایکٹ میں سٹیٹ بینک کواحتساب سے مبرا قراردینے کا دعویٰ گمراہ کن ہے۔

یہاں جاری بیان میں وزارت خزانہ کے ترجمان نے سٹیٹ بینک ترمیمی ایکٹ 2021 کے بارے میں میڈیا رپورٹس کے حوالہ سے وضاحتی بیان میں کہاہے کہ یہ تاثردرست نہیں کہ مجوزہ ایکٹ کے ذریعے سٹیٹ بینک کو کسی بھی ادارے، خاص طور پر ملک سے باہر، مالی یا غیر مالی نجی معلومات کا تبادلہ کرنے کے لئے لامحدود طورپر بااختیاربنایا جارہاہے ۔

انہوں نے کہاکہ معلومات کے تبادلے کے لئے بعض پروٹوکول کی پیروی کی جاتی ہے۔ترجمان نے بتایا کہ باہمی یادداشتوں (ایم او یوز) کے ذریعے معلومات کا تبادلہ ایک عام بین الاقوامی طریقہ کارہے اور سٹیٹ بینکس ملکی اور غیر ملکی ریگولیٹری اداروں کے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرنے کے لئے مفاہمت کی دستاویزات پراتفاق کرتے ہیں ۔اس طرح کی معلومات کاتبادلہ مالیاتی اداروں کے ماتحت اداروں اوران کے سمندرپارآپریشنز کی موٖثرنگرانی کیلئے ضروری ہے۔

ترجمان نے کہاکہ یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ مجوزہ ترامیم کے تحت وفاقی حکومت کی پیشگی منظوری کے بعد ہی سٹیٹ بینک کو ملکی اور بین الاقوامی نگران حکام کے ساتھ ایم اویوز کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سٹیٹ بینک نے پہلے سے ہی وفاقی حکومت کی منظوری کے بعد متعدد بین الاقوامی ریگولیٹری اداروں / مرکزی بینکوں کے ساتھ طویل المعیاد ایم او یوز اوراسی نوعیت کے انتظامات کئے ہیں۔وزارت خزانہ کے ترجمان نے بتایا کہ سٹیٹ بینکس کے عہدیداروں اور عملے کے ارکان کو نیک نیتی کے ساتھ کیے جانے والے اقدامات پر قانونی چیلنجوں سے خسارہ جیسے نقصان یا دیگر مالی بوجھ کے خلاف تحفظ کی فراہمی مرکزی بینک کے قوانین میں عام بات ہے اور اسے بین الاقوامی طورپربہترین عمل سمجھا جاتا ہے کیونکہ اسی طرح سینٹرل بینک کے عہدیداروں اور عملے کی خودمختاری کو یقینی بنایا جاتا ہے ۔ اس طرح کی دفعات دیگرملکی قوانین میں بھی موجود ہیں۔

مزیدبرآں متعدد مرکزی بینکوں کے قوانین میں اس کی وضاحت کی گئی ہے کہ مرکزی بینک کے جائزے یا منسوخی کے مقصد کے لئے اقدامات پرکسی عدالت میں کارروائی کا آغاز نہیں کیا جاسکتا۔ترجمان نے بتایا کہ بھارت، بنگلہ دیش، سری لنکا، بھوٹان، نیپال،مالدیپ سمیت سارک ممالک اوردنیا بھر میں 20سنٹرل بینکس کے قوانین کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ نیک نیتی کے ساتھ کیے جانے والے اقدامات پرسینٹرل بینکس کے سینئر عہدیداروں اور عملے کو قانونی تحفظ مسلمہ بین الاقوامی معیار وطریقہ کار ہے۔ترجمان نے کہاکہ یہ کہنا درست نہیں کہ اسٹیٹ بینک کے عہدیداروں کے معاملے میں نیب اور ایف آئی اے جیسے اداروں کا دائرہ اختیار نہیں ہوگا۔جوتبدیلی کی گئی ہے وہ صرف اتنی ہے کہ کارروائی شروع کرنے کے لئے سٹیٹ بینک کے بورڈ کی منظوری درکارہوگی

۔ترجمان نے بتایا کہ سینٹرل بینک سے متعلق 14 قوانین واضح طورپرحکومت کو سینٹرل بینک کوہدایات دینے کی ممانعت کرتے ہیں اس کامقصد طے شدہ مقاصد کے حصول کیلئے ایک خودمختار قانونی فریم ورک کی فراہمی ہے۔ لہذا، یہ دعوٰی گمراہ کن ہے کہ مجوزہ سٹیٹ بینک ایکٹ میں سٹیٹ بینک کواحتساب سے مبرا قراردیا گیاہے ۔ترجمان نے کہاکہ یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ کہ مجوزہ اسٹیٹ بینک ترمیمی ایکٹ 2021 سٹیٹ بینک کے مقاصد کو واضح اور ان مقاصد کے حصول کے لئے ا ب بنک کو زیادہ جوابدہ بھی بناتا ہے۔ مجوزہ ترامیم میں احتساب سے متعلق ایک نئی شق شامل کی گئی ہے، جس سے سٹیٹ بینک کوپارلیمان کے سامنے جوابدہ بنایا گیاہے۔ اس شق کے تحت گورنر سٹیٹ بینک، بینک کے مقاصد واہداف کی کامیابیوں، مالیاتی پالیسی ، معیشت کی حالت اور مالی استحکام سے متعلق سالانہ رپورٹ پارلیمنٹ کے سامنے پیش کرنے کاپابند ہے ۔

مزید برآں، احتساب کے عمل کے ایک حصے کے طور پر، ضرورت پڑنے پر پارلیمنٹ سٹیٹ بینک کے کسی سینئر عہدیدار کومدعوکرسکتی ہے۔ ترجمان نے بتایاکہ متعدد دوسرے سینٹرل بینکس نے بھی احتساب کے اسی طریقہ کار کو اپنایا ہے جس میں معیشت کی صورتحال کی رپورٹ پیش کرنے اور گورنر یا بینک کے دیگر اعلیٰ عہدیداروں کا پارلیمنٹ کے سامنے پیش ہونا شامل ہے۔