مستحکم پاکستان کیلئے خواتین کی شمولیت ضروری ہے،چوہدری سالک حسین

46

اسلام آباد۔27جون (اے پی پی):وفاقی وزیر و چیئرمین انویسٹمنٹ بورڈ چوہدری سالک حسین نے کہا ہے کہ خواتین کو اپنے حقوق کے لیے خود کھڑا ہونا ہوگا، مستحکم پاکستان کیلئے خواتین کی شمولیت ضروری ہے۔ ملک میں سرمایہ کاری میں اضافے کیلئے خواتین چیمبرز آف کامرس کا جلد دورہ کروں گا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیر کو یہاں سسٹین ایبل سوشل ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن (ایس ایس ڈی او ) کے زیراہتمام منعقدہ ویمن ورکرز الائنس (ڈبلیو ڈبلیو اے) کے ضلعی کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔

انہوں نے کہا کہ ویمن ورکرز کنونشن میں شرکت ایک اعزاز ہے اور اس تقریب میں مجھے ورکنگ خواتین کے مسائل بارے مزید جاننے کا موقع ملا۔ انھوں نے اپنا ذاتی تجربہ شیئر کرتے ہوئے بتایا کہ 2018 سے پہلے ایک کمپنی کا سربراہ تھا جس میں 15 فیصد خواتین کام کر رہی تھیں، میں نے خواتین کی تعداد کو دوگنا کرنے کا فیصلہ کیا اور مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ آج اس کمپنی میں 35 فیصد خواتین کام کر رہی ہیں۔انھوں نے کہا کہ حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے خواتین کا پر اعتماد ہونا بے حد ضروری ہے۔

انھوں نے کہا کہ وہ وقت ضرور آئے گا کہ خواتین ناصرف کام کی جگہوں بلکہ ہر جگہ خود کو محفوظ تصور کریں گی۔ سینیٹر سیمی ایزدی نے کہا کہ خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے قانون ساز وں نے کافی کام کیاہے ۔ جنرل نشستوں کے 5فیصد ٹکٹ خواتین کے لیے مختص ہیں، اور انتخابی عمل کے دوران، خواتین ووٹرز کے 10% سے کم ٹرن آؤٹ والے پولنگ اسٹیشن پر انتخاب کو مسترد کر دیا جاتا ہے۔ انہوں نے گھریلو کام سمیت خواتین پر بلا معاوضہ مزدوری کےحوالے سے بھی تبادلہ خیال کیا ۔

سینیٹر فوزیہ ارشد نے کہا کہ خواتین میں خود کو بااختیار بنانے کی زبردست صلاحیت ہے اور زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والی خواتین کامیاب ہونے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ انہوں نے خواتین پر زور دیا کہ وہ خود کو اتنا مضبوط بنائیں کہ وہ مسائل کے لیے آواز اٹھا سکیں۔ فرحت اللہ بابر نے کہا کہ یہ ارکان پارلیمنٹ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ہم سب سے پہلے پارلیمنٹ اور ملک میں ایک محفوظ ماحول پیدا کریں جس کے بعد قدرتی طور پر خواتین کے لیے کام کرنے کے لیے محفوظ ماحول پیدا ہوگا۔

انہوں نے ان خواتین کی ان کاوشوں کو سراہا جو انھوں نے گزشتہ دہائیوں میں اپنے حقوق کو فروغ دینے کے لیے کیں ۔ انہوں نےخاص طور پر اس بات پر روشنی ڈالی کہ خواتین سیاست دان کتنی محنت کرتی ہیں اور یہ کہ ہر سیاسی پارٹی نے کتنی عظیم خواتین رہنما پیدا کی ہیں۔کنونشن میں مختلف شعبوں کے ماہرین نے کام کی جگہ پر خواتین کو درپیش مسائل، اور کام کرنے کی بہتر حالت کے مطالبات کے ساتھ ساتھ خواتین کے لیے محفوظ کام کرنے کے ماحول کے لیے پالیسی سازی کے کردار پر پینل ڈسکشن کی ۔

نیشنل پریس کلب کی نائب صدر مائرہ عمران نے کہا کہ انہوں نے خواتین صحافیوں کو مرد صحافیوں کے مقابلے میں زیادہ پرعزم اور محنتی پایا۔ انہوں نے کہا کہ نیشنل پریس کلب میں اب ایک کمرہ خصوصی طور پر خواتین صحافیوں کیلئے مختص ہے جہاں انھیں کام سے متعلق تمام سہولیات میسر ہیں ۔ فاطمہ جناح ویمن یونیورسٹی میں شعبہ جینڈر اسٹڈیز کی سربراہ ڈاکٹر شہلا تبسم نے خواتین کے لیے نہ صرف کام کرنے کے لیے سازگار ماحول بلکہ خواتین کے لیے سازگار تعلیمی ماحول کی ضرورت پر زور دیا۔

انہوں نے کہا کہ ایف جے ڈبلیو یو طالب علموں کے لیے عمر کی پابندی کو ہٹانے والی پہلی یونیورسٹی تھی تاکہ وہ خواتین جو اپنے چھوٹے بچوں کی پرورش کے باعث تعلیم جاری نہ رکھ سکیں انہیں اب اپنی تعلیم جاری رکھنے کا موقع مل سکے۔ ہیلتھ ایکٹیوسٹ ڈاکٹر طاہرہ شاہد نے بتایا کہ بہت سی خواتین اس وقت اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں جب وہ احسان ماننے کو تیار نہیں ہوتیں اور یہ بھی کہ بہت سی کام کرنے والی خواتین کی ذہنی صحت بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ویمن ورکرز الائنس کی ارکان نے اپنی مالی آزادی اور معاشی خوشحالی کے لیے کام کی جگہ پر خواتین کی مساوی شرکت کی اہمیت کو اجاگر کیا ۔

ڈبلیو ڈبلیو اے کی رکن زاہدہ پروین نے کہا کہ آئی ایل او کی C-190 کی توثیق کے لیے کوششیں کرنے کی ضرورت ہے، مسرت جبین نے کہا کہ تیزی سے بڑھتی ہوئی مہنگائی اور پٹرول اور دیگر اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ اجرتوں میں بھی بیک وقت اضافہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ڈبلیو ڈبلیو اے کی مہر نگار نے کہا کہ فیصلہ سازی کے اداروں میں خواتین کی نمائندگی مردوں کے مقابلے میں بہت کم ہے اور اس میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔

ایس ایس ڈی او کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر سید کوثر عباس نے کہا کہ اس طرح کی تقریبات کے انعقادکا مقصد خواتین کو اپنے تحفظات کے اظہار اور مجموعی طور پر ایک محفوظ معاشرے کی آگاہی کیلئے ایک پلیٹ فارم مہیا کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی تنظیم خواتین مزدوروں کے حقوق کی وکالت کرنے کے لیے کام کر رہی ہے اور یہ جدوجہد خواتین کے اشتراک سے جاری رہے گی۔