مشترکہ مفادات کونسل سے مردم شماری کی منظوری کے بعد نئی حلقہ بندیاں آئینی تقاضا ہیں، سینیٹر اسحاق ڈار

142
senator ishaq Dar

اسلام آباد۔3نومبر (اے پی پی):سینیٹ میں قائد ایوان سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ مشترکہ مفادات کونسل سے مردم شماری کی منظوری کے بعد نئی حلقہ بندیاں آئینی تقاضا ہیں، آئین کے تحت 90 دن میں الیکشن ہونے چاہئیں لیکن آئین کی باقی شقوں کو بھی سامنے رکھنا چاہیے، الیکشن کمیشن انتخابات کے لئے 54 ارب روپے مانگ رہا تھا 46 ارب روپے پر اتفاق ہوا، ہماری مخالف قوتیں چاہتی تھیں کہ پاکستان دیوالیہ ہو جائے، عام انتخابات منصفانہ اور شفاف ہوں سب کے لئے لیول پلیئنگ فیلڈ ہونے چاہیے

انتخابات کا جو نتیجہ بھی آئے اسے سب کو ایمانداری سے تسلیم کرنا چاہیے۔ جمعہ کو ایوان بالا کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے قائد ایوان سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا کہ جب ایک مرتبہ مشترکہ مفادات کونسل مردم شماری کی منظوری دیدے تو پھر الیکشن کمیشن کو حلقہ بندیاں کرنا پڑتی ہیں، 2 اگست کو مشترکہ مفادات کونسل نے مردم شماری کے اعداد و شمار کی منظوری دی تھی۔ انہوں نے کہا کہ 90 دن میں انتخابات کی بات یہاں کی گئی ہے لیکن اس کے لئے مالیاتی نظم و ضبط کو بھی دیکھنا ہوتا ہے

اگر اسمبلیاں تحلیل ہوتی ہیں تو 90 دن میں الیکشن ہو جانے چاہئیں، یہ ایک آئینی تقاضا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ آئین کی باقی شقیں بھی ہیں، انہیں بھی سامنے رکھنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات پہلے کرانے کے لئے اضافی فنڈز کی ضرورت تھی، ہم آئی ایم ایف کے پروگرام میں بھی چل رہے ہیں اس کو بھی مد نظر رکھنا پڑتا ہے۔ میری کوشش تھی کہ 24-2023 کے بجٹ میں الیکشن کمیشن کے لئے فنڈز کی فراہمی کو یقینی بنایا گیا، ہم نے الیکشن کمیشن کے ساتھ جن چیزوں پر اتفاق کیا تھا انہیں پورا کرنا ضروری تھا۔

انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام طے کر کے پیچھے ہٹ جائیں اور معیشت 24 ویں نمبر سے 47 ویں نمبر پر چلی جائے اور یہ کہا جائے کہ پاکستان دیوالیہ ہو اور سری لنکا بنے تو جب ہماری حکومت بنی تو یہی اس وقت کی اپوزیشن کے خیالات تھے، حکومت اور اپوزیشن کو ملکی مفاد کے لئے افہام و تفہیم کے لئے آگے بڑھنا چاہیے، ہماری مخالف قوتیں چاہتیں تھیں کہ پاکستان دیوالیہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے 2013 کے انتخابات کے سوا لیول پلیئنگ فیلڈ کبھی نہیں ملی، لیول پلیئنگ فیلڈ اور آزادانہ اور منصفانہ انتخابات سے متعلق سوچ کی حمایت کرتے ہیں، بین الاقوامی مبصرین کو بھی انتخابات کے مشاہدے کے لئے آنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ انتخابات کا جو نتیجہ بھی آئے اسے سب کو ایمانداری سے تسلیم کرنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ جب بجٹ پیش کیا تو الیکشن کمیشن کے لئے صرف 5 ارب روپے تھے جبکہ الیکشن کمیشن انتخابات کے لئے 54 ارب روپے مانگ رہا تھا، بات چیت کے ذریعے 46 ارب روپے پر اتفاق ہوا لیکن اس کے باوجود 16 ارب روپے کم تھے۔