مشکوک انسانی حقوق گروپ سے ایوارڈ ملنے پر گلالئی اسماعیل کی اہلیت اور گروپ کی ساکھ کو تنقید کا سامنا

186

اسلام آباد۔22مئی (اے پی پی):پاکستان کی خود ساختہ جلا وطن سماجی کارکن گلا لئی اسماعیل کو مشکوک انسانی حقوق تنظیم کی طرف سے ” بین الاقوامی ویمنز رائٹس ایوارڈ 2021 “کے لئے نامزد ہونے کے بعد شدید تنقید کا سامنا ہے، گلا لئی کے لئے یہ ایوارڈ اسلامی تعلیمات اور اقدار کو پامال کرنے والے لوگوں کو نوازنے میں مشہور جنیوا سمٹ فار ہیومن رائٹس اینڈ ڈیموکریسی کے سالانہ اجتماع کے موقع پر دیا گیا ہے۔ جنیوا سمٹ فار ہیومن رائٹس اینڈ ڈیموکریسی ، جو ایک غیر معروف گروپ ہے اور خود کو اقوام متحدہ کے یورپی ہیڈ کوارٹر میں انسانی حقوق کا علمبردار، نقاد کہلاتا ہے نے گلالئی اسماعیل کو ایوارڈ کےلئے نامزد کیا ہے جو 7 جون کو دیا جائے گا۔

گلا لئی جو پاکستان میں اسلامی اقدار کے خلاف منفی بیانات کے حوالے سے منفی شہرت رکھتی ہیں نے 2019 میں خود ساختہ جلا وطنی اختیار کرتے ہوئے امریکہ میں سیاسی پناہ حاصل کی، وہ پشتون تحفظ موومنٹ کی سرگرم رکن بھی رہیں اور ان کے خلاف توہین رسالت اور دہشت گردی سمیت مختلف الزامات کی بنیاد پربھی مقدمہ درج کیا گیا تھا لیکن بعد ازاں وہ پاکستان سے فرار ہوگئیں اور بیرون ملک مقیم ہوگئی۔ تاہم ایوارڈ کے لئے ان کی نامزدگی کے بعد ، انٹر نیٹ صارفین کی اکثریت ایوارڈ کے لئے ان کی اہلیت پر سوال اٹھانے لگی ہے۔

گلالئی اسماعیل کی سرگرمیوں پر تنقیدی تبصروں سے سوشل میڈیا سائٹیں بھر گئی ہیں جو ایوارڈ کا اعلان کرنے والے گروپ کی ساکھ پر بھی سوالات اٹھارہے ہیں۔ ایک ٹویٹرصارف زیڈ اے وڑائچ نے کہا ، "جو کوئی بھی پاکستان کے خلاف ہے ، وہ اسے ایوارڈ دیتے ہیں (کیونکہ) وہ جانتے ہیں کہ وہ صرف غداروں کے ذریعے ہی پاکستان کو کمزور کرسکتے ہیں لڑائی کے ذریعے نہیں ،”۔ ایک اور انٹر نیٹ صارف عاقب خان نے بتایا کہ گلالئی اسماعیل پاکستان کے توہین رسالت کے قوانین کو منسوخ کرنے کے لئے بھی مہم چلا رہی ہے۔ اور بدقسمتی سے موصوفہ نے مذہب کے ساتھ بھی کھلواڑ شروع کررکھا ہے۔

اس کے علاوہ دیگر انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا صارفین نے بھی ایک ایسی خاتون کے لئے انسانی حقوق کے ایوارڈ پر سوال اٹھانا شروع کر دیئے ہیں جس کا پاکستان میں خواتین کے حقوق کے لئے کوئی بھی قابل ذکرکام نہیں ہے اور اس اقدام نے ایوارڈ کی ساکھ کو بھی مجروح کیا ہے۔ معاشرے میں توڑ پھوڑ اور انتشار پیدا کرنے کے مقصد کے ساتھ معاشرے میں قومیت مخالف ایجنڈے کو ہوا دینے پر گلالئی اسماعیل کو پختون برادری پہلے ہی مسترد کر چکی ہے۔ وطن پل کے صارف کے نام سے ایک نیٹ صارف نے کہا کہ میں خیبر پختونخوا سے ہوں ، اور مجھے شرم ہے کہ گلا لئی کا ایک پشتون گھرانے سے ہیں۔

 

شاہ زیب نامی ایک صارف نے کہا کہ میر جعفر کی حیثیت سے اداکاری کرنے پر زبردست بدنام زمانہ ایوارڈ جبکہ ایک اور ٹویٹر صارف نے گروپ کو ایک اور ہندوستانی سپانسر این جی او قرار دیا ۔ ایک اور ٹویٹر صارف نے اس گروپ کو یورپی یونین کے ڈس انفولیب کے جعلی قرار دیئے گئے 750 جعلی میڈیا آئوٹ لیٹس کے نیٹ ورک کا حصہ قرار دیا، جسکے بارے میں بھارت کی طرف سے بنائے جانے کا انکشاف ہوچکا ہے ۔ ایک اور نیٹ صارف نے تبصرہ کیاکہ ”جنیوا سمٹ جس کے صرف 3000 فالورز ہیں اور یہ غیر تصدیق شدہ اکاونٹ ہیں۔ جوصرف ”بھارتی زبان“استعمال کررہا ہے ، واقعی یہ ایک اچھا مذاق ہے۔ ٹویٹر استعمال کرنے والوں کا خیال ہے کہ یہ ایوارڈ اس حمایت اور خدمت کا عکاس ہے جو غیر ملکی ایجنڈا کو آگے بڑھانے والے لوگوں کو پیش کیا جاتا ہے جس سے پاکستان کے خلاف کام کرنے والے دوسرے لوگوں کو رغبت ملتی ہے ایسا کرنے پر انکا خیال رکھا جائے گا۔اس ہتھکنڈے سے غیر ملکی فنڈنگ سے چلنے والی این جی اوز اور مغربی ممالک میں ان کے آقائوں کے درمیان گٹھ جوڑ بھی ظاہر ہوتا ہے۔

ایک اور ٹویٹر صارف نے کہا کہ گلالئی اسماعیل غنی،حمداللہ محب اور امراللہ صالح جیسے افغان رہنمائوں کے اشاروں پر چلتی ہے۔ گلالئی گینگ اور نیٹ ورک بین الاقوامی طور پر بے نقاب ہو چکا ہے۔ ٹویٹر صارف نے کہا کہ افراسیاب خٹک بشری گوہر اور منظور پشتیں جیسے ان کے ہم خیال سب لوگوں کو پاکستان کے عوام پہلے ہی مسترد کر چکے ہیں۔ گلالئی کو ایوارڈ دینے والے گروپ نے 2015 میں سعودی بلاگر رائف بداوی کو ” جرات ایوارڈ” دیا تھا جسے اپنے بلاگ پر اسلام کی توہین کرنے پر 2012 میں گرفتار کر کے 7 سال قید اور600 کوڑوں کی سزا سنائی گئی تھی اور پھر 2014 میں 10 سال قید اور 1000 کوڑوں کی دوبارہ سزا سنائی گئی۔ اسی گروپ نے ایرانی صحافی مسیح علی نجاد کو ہیومن رائٹس ایوارڈ سے نوازا تھا جس نے فیس بک بنا کر ایران میں خواتین کو قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے حجاب کے بغیر اپنی تصاویر پوسٹ کرنے کی دعوت دی تھی۔