مصالحتی نظام میں فیس کم اور لوگوں کے مسائل زیادہ حل ہوں گے،جسٹس سید منصور علی شاہ کا مصالحتی نظام بارے کانفرنس سے خطاب

109

لاہور۔25جنوری (اے پی پی):سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس سید منصور علی شاہ نے کہاہے کہ سائلین کے بیس بیس سال طویل عرصہ کیس چلانے سے تنگ آچکے ہیں لہذا مصالحتی نظام اپنانا اب لازم ہو چکا ہے، مصالحتی نظام میں فیس کم اور لوگوں کے مسائل زیادہ حل ہوں گے۔ وہ ہفتہ کے روز لاہورہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام مصالحتی نظام سے متعلق منعقدہ کانفرنس سے وڈیو لنک کے ذریعے خطاب کر رہے تھے ۔

جسٹس سید منصور علی شاہ نے کہاکہ مصالحت کے نئے قانون کے بعد اب لوگوں کو بتائیں کہ مصالحتی نظام ان کے مسائل کا حل ہے،2023 ءمیں پورے پاکستان میں 17 لاکھ کیسز کا فیصلہ کیا گیا جبکہ ہمارے کیسز آج بھی ویسے ہی پڑے ہیں ، ہمیں سائلین کے لیے راستہ نکالنا پڑے گا اور لوگوں کے مسائل حل کرنے کے لیے متبادل طریقے اپنانے ہوں گے۔

انہوں نے کہاکہ اس وقت ججز کی تعداد کم اور عدالتی نظام کے اپنے مسائل ہیں، زیادہ تر مسائل وکلا اور ہماری وجہ سے بھی ہیں ، ہمارے ہاں ہڑتال سمیت دیگر مسائل کی وجہ سے مقدمات لٹک جاتے ہیں ،مصالحتی نظام ہمارے کلچر کے مطابق ہے جو مسائل کو اچھے طریقے سے حل کر سکتا ہے، اس نظام سے معاشرتی مسائل بھی پیدا نہیں ہوں گے اور اس کے لیے قانون سازی کی بھی ضرورت نہیں۔

انہوں نے کہاکہ ہم لوگوں کو ٹریننگ کروارہے ہیں جو احسن طریقے سے مصالحت کروائیں گے ،ہمیں پرانا کلچر چھوڑنا پڑے گا ، اہم مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر ہوتی ہے کیونکہ دیگر کیسز کی بھرمار ہے ، ثالثی اور مصالحتی نظام کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے، سائل کے پاس حق ہو کہ پہلے مصالحتی طریقہ اپنائے ، عدالتی اور مصالحتی نظام میں بہت بڑا فرق ہے ، اس نظام سے وکلا کے لیے معاشی مسائل پیدا نہیں ہوں گے اور اس نظام کے تحت ایک ہی دن میں کیسز کے فیصلے ہو سکتے ہیں۔

لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس جواد حسن نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ اب ہمیں وکلا کی ذہنیت تبدیل کرنے کی ضرورت ہے،مصالحت 2 گھنٹوں یا 2 دنوں میں ہو سکتی ہے، سپریم کورٹ نے ایک ٹاسک فورس بنائی کہ ہمیں کیسز کا بیک لاگ ختم کرنے کی ضرورت ہے، ہر قانون کہہ رہا ہے کہ پارٹیوں کو مصالحت کی جانب جانا چاہیے مگر اس میں لازمی مصالحت کا لفظ نہیں ہے ،پاکستان میں مصالحت کے قوانین موجود ہیں مگر لوگوں کے اختیار کے باعث ان پر عملدرآمد نہیں ہو سکا، سپریم کورٹ نے 5 فیصلے جاری کیے کہ ہر شخص کو مصالحت کی جانب جانا چاہیے ، ہم واحد ملک رہ گئے ہیں جو پرانے 1940 کے مصالحتی ایکٹ کو لے کر چل رہے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ بھارت نے 1996 میں اپنا نیا مصالحتی ایکٹ بنا لیا تھا، گزشتہ 84 سالوں میں 1940 کے مصالحتی ایکٹ کے حوالے سے صرف 56 فیصلے آئے، صرف لاہور ہائیکورٹ میں گزشتہ سال 20 فیصلے مصالحت کے حوالے سے جاری ہوئے۔

جسٹس عاصم حفیظ نے کہاکہ وکلا کے پاس مصالحت کروانے کی طاقت موجود ہے اور وہ اس کے ذریعے مستقبل بنا سکتے ہیں ،کمرشل کیسز کے علاوہ بڑی تعداد میں سول کیس زیر سماعت ہیں ،سائلین کو مصالحت کی بات اس وقت سمجھ آئے گی جب ہمارے پاس مصالحت کا مناسب انتظام موجود ہوگا۔

جسٹس سلطان تنویر احمد نے کہاکہ یہ وکلا کی ذمہ داری ہے کہ سائلین مصالحت کی جانب جائیں، وکلا کو اس ڈر سے باہر آنا ہوگا کہ مصالحتی سنٹرز سے ان کے مالی معاملات متاثر ہوں گے، آپ مصالحتی سنٹرز کے ذریعے پیسے کما سکتے ہیں۔ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دیگر مقررین نے بھی مصالحتی نظام کی افادیت سے متعلق زور دیا ۔