ملک کے اہم معاشی اشاریے بہتری کی عکاسی کر رہے ہیں، آئی ایم ایف کے ساتھ سٹاف سطح کا معاہدہ رواں ماہ میں ہونے کا امکان ہے، وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کو بریفنگ

99

اسلام آباد۔11جولائی (اے پی پی):وفاقی وزیر خزانہ ومحصولات سینیٹر محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ ملک کے اہم معاشی اشاریے بہتری کی عکاسی کررہے ہیں، ترقیاتی بجٹ کے لیے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کو فروغ دیا جا رہا ہے ، نئے ملازمین کو رضاکارانہ پنشن سکیم دی جائے گی،آئی ایم ایف کے ساتھ سٹاف سطح کا معاہدہ رواں ماہ میں ہونے کا امکان ہے ۔انہوں نے یہ بات جمعرات کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ ومحصولات کو بریفنگ دیتے ہوئے کہی۔ اجلاس کی صدارت چیئرمین کمیٹی سید نوید قمر نے کی، وزیر مملکت برائے خزانہ علی پرویزملک، سیکرٹری خزانہ، کمیٹی کے اراکین اورمتعلقہ اداروں کے سینئر حکام بھی اجلاس میں شریک تھے۔

وزیر خزانہ نے کمیٹی کو بتایا کہ گزشتہ مالی سال کے دوران تمام معاشی اشاریے مثبت رہے ہیں،سٹیٹ بینک کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر 9 ارب ڈالر سے تجاوز کرگئے ہیں، مہنگائی کی شرح میں بتدریج کمی ہوئی ہے، گزشتہ برس مہنگائی کی شرح 38 فیصد تھی جواب کم ہو کر 12 فیصد کے قریب ہوگئی ہے۔انہوں نے کہاکہ 2023 میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ پروگرام میں تاخیرکی وجہ سے کرنسی غیر مستحکم ہوئی تاہم اب معاشی حالات بہترہورہے ہیں اور غیر ملکی کمپنیوں کے منافع اور ڈیویڈنڈز ادا کیے جا رہے ہیں۔

وزیر خزانہ نے کہاکہ عالمی ادارے پاکستان کی معیشت پراعتمادکااظہارکررہے ہیں، آئی ایم ایف پروگرام کی وجہ سے پاکستان کو دیگر اداروں سے بھی فنڈز ملنا شروع ہوگئے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ملک چلانے کیلئے ٹیکس ضروری ہے، پاکستان میں جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکسوں کی شرح کم ہے جس میں اضافہ ضروری ہے، اس وقت جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکسوں کی شرح 9 فیصد کے قریب ہے، آنیوالے برسوں میں جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ کیا جائیگا اوراسے 13 سے لیکر14 فیصد کی سطح پرلے جایا جائیگا۔ وزیر خزانہ نے کہاکہ کہ زرعی انکم ٹیکس کے حوالہ سے صوبوں کا کردارکلیدی ہے۔

سیدنوید قمر کے سوال پروزیر خزانہ نے کہاکہ آئی ایم ایف اصل آمدن پر ٹیکس چاہتا ہے جو درست ہے، ہم اصل آمدن پر ٹیکس حاصل کرنے کی کو شش کر رہے ہیں، حکومت کے اخراجات میں قرض اور سود کی ادائیگی کا تناسب بہت زیادہ ہے ، ترقیاتی بجٹ کے لیے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کو فروغ دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ پنشن پر ہر سال ایک ہزار ارب روپے سے زائد کے اخراجات ہیں ، پنشن کے نظام میں اصلاحات کی گئی ہیں، نئے ملازمین کو رضاکارانہ پنشن سکیم دی جائے گی۔ انہوں نے کہاکہ نئی پنشن سکیم کیلئے مسلح افواج کو ایک سال کا وقت دیا گیاہے کیونکہ عسکری اداروں کا سروس سٹرکچر مختلف ہے۔ حکومتی اخراجات میں کمی کے لیے وزارتوں کو ختم یا انضمام کی پالیسی اپنائی گئی ہے ، پی ڈبلیو ڈی کو نقصانات کے باعث ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

وزیر خزانہ نے کمیٹی کو بتایا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات مثبت انداز میں آگے بڑھ رہے ہیں، آئی ایم ایف کے ساتھ سٹاف سطح کا معاہدہ رواں ماہ میں ہونے کا امکان ہے۔وزیر خزانہ نے کہاکہ برآمدی شعبہ کو سہولیات کی فراہمی حکومت کی ترجیحات میں شامل ہیں، برآمدکنندگان کے ٹیکس ریفنڈز فوری جاری کرنے کا حکم دیا گیا ہے اوراب تک 260 ارب روپے کے ٹیکس ریفنڈز جاری کر دیے گئے ہیں۔ سیکرٹری خزانہ امداد اللّٰہ بوسال نے کمیٹی کو بریفنگ میں بتایا کہ عالمی بینک، آئی ایل اواور آئی ایم ایف نے پاکستان میں بے روزگاری کے حوالہ سے اپنے اندازے دئیے ہیں ۔

سیکرٹری خزانہ کا کہنا تھا کہ پالیسی ریٹ میں اضافے کی وجہ سے شرح سود کی ادائیگی میں اضافہ ہوا ہے۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ پالیسی ریٹ میں اضافے کی وجہ سے حکومت کو بھی مشکلات ہیں اور صنعت کا ر بھی کم کرنے کا کہہ رہے ہیں جس پر وزیر خزانہ نے کہا کہ رواں مالی سال پالیسی ریٹ میں بتدریج کمی کا امکان ہے۔ سیکرٹری خزانہ نے بتایا کہ رواں مالی سال 1777 ارب روپے کی گرانٹس ہیں جس میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لئے 590 ارب روپے مختص ہے۔