اقوام متحدہ۔30اپریل (اے پی پی):اقوام متحدہ کی اقتصادی و سماجی کونسل (ای سی او ایس او سی) کے صدر و اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے مطالبہ کیا ہے کہ کورونا بحران سے صحت کے نظاموں کی بحالی ، پائیدار ترقی کے حصول اور اشیا کی سرحدوں سے منتقلی کے لئے فنڈکے لیے ٹیکس معاملات میں بین الاقوامی مدد کی ضرورت ہے۔
انہوں نے گزشتہ روز بین الاقوامی ٹیکس تعاون 2021 پر ای سی او ایس او سی کے خصوصی اجلاس میں اپنے ریمارکس میں زور دیا کہ رکن ریاستوں کو پائیدار ترقی کے حصول کے لئے غیر قانونی مالی بہاؤ کے باعث وسائل کے ضیاع کارپوریٹ اور ذاتی ٹیکس سے اجتناب اور چوری کو روکنے کے لیے مل کر کام کرنے کی ضرروت ہے اور اس سلسلے میں ٹیکس کی بہت ہی کم شرح کو روکنا ہو گا جو بڑی ملٹی نیشنل کارپوریشنز کی جانب سے منافع کی منتقلی جیسے اقدامات کا باعث بنتی ہے اور کم سے کم کارپوریٹ ٹیکس میں آگے بڑھنے میں مدد کر سکتی ہے۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ ٹیکس کی شفافیت کو بہتر بنانے کے لیے ملٹی نیشنل کمپنیاں ملک بہ ملک بنیادوں پر اکائونٹنگ اور فنانشل معلومات جاری کریں ۔
انہوں نے کہا کہ ہم ٹیکنالوجی میں ترقی کے ساتھ تیزی سے باہم مربوط عالمی مالیاتی نظام میں رہتے ہیں جس سے اشیا اور مالی بہاؤ میں بعض رکاوٹوں میں مسلسل کمی ہوتی ہے ۔
انہوں نے کہا کہ ڈیجیٹل معیشت پر ٹیکس لگانے سے ترقی پذیر ممالک کو ان کا منصفانہ حصہ فراہم کرکے بے حد فائدہ ہوسکتا ہے کیونکہ بلاشبہ ٹیکس دینے چاہیئں جہاں معاشی سرگرمیاں ہیں اور محصولات وصول ہوتے ہیں
۔ پاکستانی مندوب نے کہا کہعالمی سطح پر شرکت کے ساتھ ایک کھلا جامع قانونی آلہ کار کے زریعے اس وقت کی ضرورت بین الاقوامی ٹیکس اصلاحات اور ٹیکس میں شفافیت کے معیارات ہیں اور اس مقصد کے لیے انہوں نے اقوام متحدہ کے ٹیکس کنونشن سے متعلق معاہدے کے لیے ے اقوام متحدہ کے مالی شفافیت ، احتساب اور سالمیت (ایف اے سی ٹی آئی) پینل کی سفارش پر بحث کی تائید کی۔
انہوں نے کہا کہ یہاں بین الاقوامی ٹیسک تعاون کے لیے بین الحکومتی سطح پر ایک بھی گلوبل جامع فورم نہیں ہے اس بحث کے لیے اقوام متحدہ میں عالمی بین الحکومتی ٹیکس باڈی کا قیام بھی ہونا چاہیے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ اقتصادی و سماجی کونسل نے متعدد اقدامات شروع کیے ہیں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ وبائی امراض سے مستقل بحالی میں مدد کے لئے کوئی ملک محصولات کو متحرک کرنے میں پیچھے نہ رہے۔
پاکستانی مندوب منیر اکرم نے کہا کہ اس طرح کی کوششوں میں وسائل سے مالا مال ترقی پذیر ممالک کو پائیدار ترقیاتی اہداف (ایس ڈی جی) کے حصول کے لئےترقی میں مالی اعانت کے لئے مناسب سطح پر محصولات وصول کرنے اور سرمایہ کاری کرنے جیسے اقدامات شامل ہیں ۔
اجلاس میں اس بات پر خصوصی توجہ دی گئی کہ ممالک اور انتظامیہ کورونا وائرس کی وبا کے تناظر اور بڑھتی ہوئی ڈیجیٹل معیشت کے دور میں سماجی، اقتصادی، ماحولیاتی اور دیگر چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ٹیکس پالیسی کا استعمال کر سکتے ہیں ۔
اجلاس میں ٹیکس پالیسی اور انتظامیہ کے ٹیکس اور عدم مساوات کے بڑھتے ہوئے مسائل ، ماحولیاتی ٹیکس اور ٹیکسیشن اور صحت کے نظام کے لیے مالی اعانت پر بات کی گئی۔