موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لئے موثر کوششوں کی ضرورت ہے،رپورٹ

پشاور۔ 30 اگست (اے پی پی):موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لئے موثر کوششوں کی ضرورت ہے، جنگلات کی بے دریغ کٹائی سے ہر سال سیلاب کے خطرات بڑھتے جا رہے ہیں، گرین ہا ئوس گیسز کے اخراج میں کمی اور فضائی آلودگی پر قابو پانے کی ضرورت ہے ، چھوٹے چھوٹے ڈیمز کی تعمیرسے بارشوں کے پانی کو محفوظ کیا جاسکتا ہے اور زیر زمین پانی کی سطح کو بھی کم ہونے سے روکا جاسکتا ہے۔

انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل محمد انور خان کا کہنا ہے کہ کلائمیٹ چینج ایک ایسا موضوع ہے جس پر سنجیدگی سے کام کرنے کی ضرورت ہے ،کمیونٹی انوارمنیٹل ایکٹوسٹ کے مطابق چترال کے 380 دیہات قدرتی آفات کے اعتبار سے ریڈ زون میں شامل ہیں، ان میں سے 90 دیہات اپر چترال کے ہیں جن میں سے 33 ہائی رسک دیہات میں گلیشئرز پگھلنے کا خطرہ موجود رہتا ہے۔2007 میں تورکھو سانحہ میں گلیشئر گرنے سے 42 افراد جاں بحق ہوگئے تھے جس کے دس سال بعد شیرشل گائوں میں بھی 9 افراد تودہ گرنے سے جاں بحق ہو ئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لئے بنیادی طور پر تین کام کرنے چا ہیئں ،ہائی رسک علاقوں کی میپنگ کی جائے تاکہ ممکنہ سیلاب کے خطرات سے دوچار علاقوں کی نشاندہی ہو سکے۔ دوسرا چترال میں کنکریٹ کے گھربراہ راست تپش چھوڑنے کا باعث بن رہے ہیں ، جن میں لوہے اورسریا کا استعمال ہو رہا ہے،تیسرا اپر اور لوئر چترال میں جنگلات کی بے دریغ کٹائی بڑا چیلنج ہے جس سے ہر سال سیلاب کے خطرات اور درجہ حرارت بھی بڑھتا جارہا ہے۔

ڈپٹی ڈائریکٹر کلائمیٹ چینج اینڈ انوائرمینٹل پروٹیکشن افسر خان کا کہنا ہے کہ کلائمیٹ چینج ایک حقیقت ہے اور اس کے اثرات پر قابو پانے کیلئے بروقت تیاری کی ضرورت ہے خواہ وہ زیرو کاربن ہا ئوسز کی صورت میں ہو یا کلائمیٹ ریز یلئنٹ گھروں کی شکل میں، گرین ہائوس گیسز صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں پروڈیوس ہوتی ہیں جن کی کوئی سرحد نہیں ہوتی ، اس کے اثرات سے ہم تب ہی بچیں گے جب ہم پیشگی منصوبہ بندی کریں گے، جواین ڈی سیز(نیشنل ڈٹرمنٹ کنٹری بیوشنز) کی صورت میں ہے اس سلسلہ میں پاکستان کے اپنے اہداف ہیں، 2030 تک ہم گرین ہا ئوس گیسز کو بڑی حد تک کم کریں گے، پاکستان نے واضح کیا ہے کہ 2030 تک ہم 50 فیصد گیسز کو کم کریں گے، ان میں 15 فیصد جو گیسز ہیں وہ رضاکارانہ طور پر کم کریں گے اور 35 فیصدٹیکنالوجی ٹرانسفر، مالی معاونت اور استعداد کار میں اضافہ کے حوالہ سے ترقی یافتہ ممالک کی سپورٹ کے ساتھ کم کریں گے ۔

افسر خان کے مطابق مستقبل میں ایسے گھر بنانے چاہئیں جن کی توانائی کی ضرورت شمسی یا وِنڈ انرجی سے پوری ہو سکے، کوشش ہونی چاہئے کہ کسی نہ کسی طرح سے گرین ہا ئوس گیسز کے اخراج میں کمی لائی جا سکے، زیرو کاربن ایمشن سٹریٹجی کے تحت عمارات کی سولرائزیشن کی جائے اور دوسرا ان عمارات کے اردگرد پلانٹیشن کی جائے یہ پودے سورج کی روشنی کو جذب کرتے ہیں، تو روشنی گھر میں داخل نہیں ہو گی گھر ایک طرح سے ٹھنڈا رہے گا۔

کلائمیٹ چینج کے ماہر اور چیئرمین جغرافیہ ڈپارٹمنٹ جامعہ پشاور ڈاکٹر عطا الرحمان کا کہنا ہے کہ دنیا کی طرح خیبرپختونخوا بھی موسمیاتی تبدیلی کا شکار ہے، کلائمیٹ چینج کے اثرات موسم میں شدت لانے لگے ہیں، جو موسم گرما میں درجہ حرارت کے انتہا تک جانے یا پھر چند گھنٹوں کی بارش سے شہر کے پانی پانی ہوجانے کی صورت میں دکھائی دیتے ہیں۔ڈاکٹر عطا الرحمان نے بتایا کہ زرعی اراضی پر ہا ئوسنگ سوسائٹیز بنانے سے پشاور شہر میں سالانہ 3 فٹ زیر زمین پانی کی سطح کم ہورہی ہے۔میڈیاسے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ کلائمیٹ چینج سنگین مسئلہ ہے لیکن حکومت اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لے رہی،

ڈاکٹر عطا الرحمان کا کہنا تھا کہ صوبے میں کلائمیٹ چینج پر مختلف محکمے جیسے کہ ایریگشن ڈیپارٹمنٹ، محکمہ زراعت، انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی، پروونشل ڈیزاسٹر منجمنٹ اتھارٹی اور دیگر کام کر تو رہے ہیں، لیکن کوآرڈینیشن کے فقدان کے باعث کئی مسائل موثر انداز میں حل نہیں ہو پا رہےجبکہ وسائل کی بھی اوورلیپنگ ہورہی ہے۔ڈاکٹر عطا الرحمان نے کہا کہ پانی صاف ہو یا بارانی، ہر جگہ اس کا بے دریغ استعمال جاری ہے، جنگلات کی کٹائی اور زرعی اراضی بھی ختم ہورہی، جس سے آنے والے چند سالوں میں مسائل سنگین نوعیت اختیار کرجائیں گے۔ان کے مطابق اس کے لیے ضروری ہے کہ ہائوسنگ سوسائٹیز کے لیے صوبائی حکومت فوری لینڈ ریگولیشن بنانے کے ساتھ ساتھ نالوں کے اوپر قائم تجاوزات کو ہٹائے اور یہ مزید نہ بننے دیے جائیں۔

انہوں نے کہا کہ تھوڑی دیر کی بارش سے پیدا ہونے والی سیلابی صورتحال سے بچنے کے لیے چھوٹے چھوٹے ڈیمز کی تعمیر کی جائے، جس سے بارشوں کے پانی کو بھی محفوظ کیا جاسکتا ہے اور زیر زمین پانی کی سطح کو بھی کم ہونے سے روکا جاسکتا ہے۔انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل محمد انور خان کا کہنا ہے کہ کلائمیٹ چینج ایک ایسا موضوع ہے جس پر سنجیدگی سے کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ سبز احاطہ محض ایک فیصد بھی نہیں ہے ، اب وقت آ گیا ہے کہ کلائمیٹ چینج اور اس کے محرکات پر ہمیں مل کر کام کرنا ہوگا ۔انہوں نے کہا کہ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے گلیشیئر تیزی سے پگھل رہے ہیں اور ان کا صاف شفاف پانی نمکین پانیوں میں شامل ہو رہا ہے ، جس سے نہ صرف ہمارے پینے کے پانی کے ذخیرے ختم ہو رہے ہیں بلکہ سمندر کی سطح بھی بڑھ رہی ہے جبکہ ہم نے اپنے سمندروں کو بھی آلودہ کر دیا ہے جس سے سمندری حیات بھی تیزی سے ختم ہو رہی ہے اور ہماری سمندری خوراک کا معیار بھی شدید متاثر ہو رہا ہے ، آلودہ پانی میں پرورش پانے کی وجہ سے اب یہ خوراک انسانوں کے لئے ناقابل استعمال ہوتی جارہی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ وہ ممالک جہاں درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ان ممالک میں پاکستان چھٹے نمبر پر آ چکا ہے ، جوکہ ایک الارمنگ صورتحال ہے ، شہروں میں بڑھتی ہوئی دھواں چھوڑتی بے ہنگم ٹریفک ، سارا دن ہیوی وہیکل گاڑیوں کی آمد و رفت اور گھروں اور دفاتر میں بہت بڑی تعداد میں چلتے ہوئے ائیر کنڈیشنڈ ، برقی پنکھوں اور دیگر مشینریز نے بھی شہر کا درجہ حرارت بڑھایا ہے ۔انہوں نے کہا کہ اگر ہم اپنے گھروںاور اپنے قرب و جوار میں پودے اور لگا دیں تو شہروں میں بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کو کسی حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کے مختلف اثرات ہیں، جس کا سامنا ملک بھر سمیت خیبرپختونخوا کو ہے، اسی لیے پانی کے بچا ئو کے لیے سروس اسٹیشنز پر میٹر نصب کرنے کا پلان تیار ہے،ہا ئوسنگ سوسائٹیز کو پابند کیا جارہا ہے کہ زرعی زمین پر سوسائٹی نہیں بنائی جائے

۔انہوں نے کہا کہ صوبے میں پلاسٹک کی مینوفیکچرنگ پر مکمل پابندی عائد کی ہے، فیکٹریز پلوشن کنٹرول سسٹم نصب کرنا اور نئے یونٹس بننے پر درخت لگانا لازمی قرار دیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اسپتالوں کے آلودہ پانی کے لیے ٹریٹمنٹ پلانٹس لگوائے ہیں، ہمیں اب موسمیاتی تبدیلیوں کے ساتھ چلنا ہوگا۔ا یئر کوالٹی انڈیکس کے مطابق فضائی آلودگی پاکستان میں صحت کے لیے دوسرا بڑا مسئلہ ہے، تاہم بنیادی طور پر دل کی بیماریاں سب سے زیادہ خطرے کی علامت ہیں۔رپورٹ میں پیش گوئی کی گئی ہے کہ آلودگی میں اضافے سے دماغی صحت کے کئی امراض بھی لاحق ہوسکتے ہیں جن میں انزائٹی اور ڈیپریشن شامل ہیں ،عالمی سطح پر جنوبی ایشیا کو موسمیاتی تبدیلی کے سب سے زیادہ سنگین نتائج کا سامنا ہے ، صورتحال سے نمٹنے کے لئے سنجیدہ کوششوں کی ضرورت ہے ۔