نرسریوں کے ذریعے بلین ٹری منصوبہ اور منافع بخش غیر روایتی زراعت کا فروغ

نرسریوں کے ذریعے بلین ٹری منصوبہ اور منافع بخش غیر روایتی زراعت کا فروغ
نرسریوں کے ذریعے بلین ٹری منصوبہ اور منافع بخش غیر روایتی زراعت کا فروغ

تحریر ۔۔امتیاز احمد

پاکستان کو ماحولیات کے منظر نامے پر ماحولیاتی آلودگی، آبی قلت، موسمیاتی تبدیلی، عالمی حدت جیسے گھمبیرمسائل کا سامنا ہے۔ تازہ ترین عالمی ماحولیاتی کارکردگی انڈیکس (ای پی آئی) کے مطابق پاکستان ان ممالک کی فہرست میں شامل ہے جو خراب ایئر کوالٹی معیار سے دوچار ہیں۔ ان ماحولیاتی مسائل کی بڑی وجوہات کاربن کا اخراج، بڑھتی آبادی اور جنگلات کی کٹائی ہیں۔عالمی ماحولیاتی اداروں کی تحقیق کے مطابق کسی بھی ملک کے خشک رقبے کا 25فیصد جنگلات پہ مشتمل ہونا نہایت مناسب اورانسانی زندگی کیلئے انتہائی ضروری تصور کیا جاتا ہے۔2017ء کے ورلڈ بینک کے ترقیاتی اعدادوشمارکے مطابق پاکستان میں جنگلات 1.9فیصد رہ گئے ہیں۔جنگلات کی اتنی اہمیت ہونے کے باوجود ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود پاکستان میں درختوں اور جنگلات کی اتنی شدید کمی ہمارے لیے باعث تعجب ہے اور افسوس کا مقام یہ ہے کہ یہ تعداد دن بدن مزید کم ہوتی جا رہی ہے۔وزیراعظم عمران خان ملک کو درپیش ماحولیاتی چیلنجز کا ادراک رکھتے ہوئے متعدد مواقع پر اس امر کواجاگر کرچکے ہیں کہ ہمیں ماحولیاتی آلودگی سمیت کئی مسائل کا سامنا ہے،ملک کے مستقبل کیلئے ہمیں طویل المدتی منصوبہ بندی کرنا ہو گی۔

وزیراعظم عمران خان نے لاہور میں جیلانی پارک میں اربن فاریسٹ منصوبے کی حالیہ افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ہاں چھانگامانگا، کندیاں، چیچہ وطنی دیپالپور جیسے جنگل ختم ہوگئے ہیں کسی نے یہ نہ سوچا ان جنگلات کے خاتمے کے کتنے خطرناک نتائج برآمد ہوں گے‘ گزشتہ12 سالوں میں لاہورکے 70 فیصد درختوں کا خاتمہ ہو چکا ہے ۔انہوں نے واضح کیا کہ آنے والی نسل کو صاف ماحول کی فراہمی یقینی بنانا ہو گی۔50 مختلف جگہوں پر میاواکی جنگلات لگائے جائیں گے۔جن کے قلیل عرصے میں دوررس اثرات مرتب ہوں گے۔پارکس اینڈ ہارٹیکلچر اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل جواد احمد قریشی نے کہا کہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب کے وژن کے مطابق پی ایچ اے لاہور میں میا واکی اربن فاریسٹ لگانے کا سلسلہ چند ماہ پہلے شروع کیا، یہ جنگلات مخصوص انداز میں لگائے جاتے ہیں جس میں امرود، انار، جامن جیسے پھلدار درخت اور موتیا، مروا کے پھولوں کے پودے لگائے جاتے ہیں اور اس سے ایک دلکش فضا پیدا ہوتی ہے جس میں شہد کی مکھیاں، تتلیاں واپس آتی ہیں ۔

وزیراعظم کے وژن کے تحت موجودہ حکومت کا عزم ہے کہ ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے کیلئے تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں اور درخت لگا کر جنگلات کے رقبہ میں اضافہ کیا جائے، اس سلسلے میں حکومتِ نے بلین ٹری منصوبہ شروع کیا ہوا ہے ، شجر کاری مہم کے علاوہ نئے جنگلات لگانے کے منصوبہ کا آغازکیا گیا ہے ۔ مختلف نوعیت کے ان اقدامات سے یقینا ماحولیاتی آلودگی میں کمی آئے گی جبکہ اس وژن کی تکمیل کے لئے پودوں کی نرسریاں بھی خصوصی اہمیت کا درجہ رکھتی ہیں کیونکہ سرسبز پاکستان کے خواب کو پورا کرنے کیلئے درختوں کی ضرورت ہوگی اور یہ درخت زیادہ تر ان نرسریوں میں ہی پیدا کیے جاتے ہیں۔شجرکاری مہم میں بالخصوص کافی تعداد میں پودوں کی ضرورت ہوتی ہے اور نرسریوں کے بغیر بڑھے پیمانے پر پودوں کی پیداوار ممکن نہیں ہو سکتی ہے۔

نرسریاں سستے اور معیاری پھلدار، سجاوٹی، پھولدار پودوں کے حصول اہم ذریعہ ہیں، یہ غیر روایتی زراعت کو بھی فروغ دے رہی ہیں جو ایک منافع بخش کاروبار ہے۔ پھولوں اور دیگر سجاوٹی پودوں کی صنعت بنیادی طور پر بڑے شہروں میں مرکوز ہے جن میں کراچی،حیدرآباد، لاہور، راولپنڈی، اسلام آباد، ملتان، فیصل آباد، کوئٹہ‘ لاہور کے قریب پتوکی ( ضلع قصور)، ضلع سرگودھا میں ساہیوال اور حیدرآباد میں آس پاس کے مقامات شامل ہیں‘لیکن پنجاب کے شہر پتوکی ایشین برصغیر میں نرسری فارموں کا مرکز ہے جہاں تقریبا 8508 چھوٹے پیمانے پر اور بڑے پیمانے پر نرسری فارم موجود ہیں۔ پتوکی ضلع قصور کا ایک شہر ہے جو ”پھولوں کا شہر” کے نام سے جانا جاتا ہے۔ لاہور، قصور اور پتوکی کے درجنوں دیہات خاص طور پر گلاب کی کاشت کرتے ہیں اور یہاں سب سے زیادہ نرسریاں موجود اور پھولوں کی کاشت 40 سے50 فیصد مقامی خاندانوں کی آمدنی کا بنیادی ذریعہ ہے۔

‘لاہور ملتان روڈ پر نرسریاں 5 کلومیٹر بیلٹ پر مشتمل ہے۔ ان نرسریوں کی تعداد کم و بیش 186 ہے۔ ان نرسریوں میں پودوں کوزرعی ماحولیاتی حالات میں ڈھالنے والے موسم گرما کے پودوں سے لے کر موسم سرما اور ہر قسم کے موسم اور نسل کے پودوں تیار کئے جاتے ہیں۔پتوکی میں اب اس کا دائرہ کار وسیع ہوگیا ہے اور پودوں کو دوسرے شہروں کے ساتھ دوسرے ممالک جیسے دبئی اور سعودی عرب وغیرہ میں بھی برآمد کیا جاتا ہے‘اس کے علاوہ اعلی معیار کے پودے چین، ملاشیا، ہالینڈ، امریکہ اور کچھ یورپی ممالک سے درآمد بھی کیے جاتے ہیں‘ان غیر ملکی پلانٹ کی بھی بڑی مانگ ہے۔پتوکی مٹی میں بھی ایک خاص جز سینڈی لوم ہے جو پودے لگانے کے لئے بہت موزوں ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ نرسریوں میں اگنے والے پھول‘روایتی اور سجاوٹی پودے نہ صرف خوبصورت لگتے ہیں بلکہ ماحول کو بھی خوبصورت بناتے ہیں‘کئی پودوں کی ادویاتی اہمیت بھی ہوتی ہے‘ہارٹیکلچر تھراپی کی بدولت کئی ممالک میں علاج معالجہ کیا جاتا ہے‘ان سے بہت مہنگی مصنوعات تیار کی جاتی ہیں‘آرائش ارضی اور کٹ فلاورز کا کاروبار کاشتکار کی آمدنی میں اضافہ کرتا ہے‘ان کے بیج اور پھول برآمد کر کے زرمبادلہ کمایا جا سکتا ہے۔

پودوں اور باغبانی سے دلچسپی رکھنے والے مقامی صارفین نے بتایا کہ شہری اور دیہی علاقوں میں آرائشی پودوں‘پھولدار اور پھلدار پودوں کی بہت طلب ہے لیکن مقامی طور پر زیادہ تر نجی نرسریاں موجود ہیں جو پودوں کی مہنگی داموں فروخت کرتی ہیں اس لئے لوگوں میں شجر کاری کارجحان زیادہ نہیں ہے‘سرکاری سطح پر لوگوں کے لئے آرائشی پودوں کی ضروریات اور سجاوٹی پودوں کی نرسری لگانے پر غور نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے نجی نرسریوں کے مالکان ایسے پودوں کی مانگ میں اضافے کی وجہ سے پودوں کی فروخت پر بہت زیادہ منافع کما رہے ہیں۔ ایک خریدار عبدالمعز نے کہا کہ پودوں اور پھولوں سے نہ صرف گھروں کی خوبصورتی میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ یہ ماحول پر بھی خوشگوار اثر ڈالتے ہیں۔ حسن علی نے کہا کہ شجرکاری سے آنے والی نسلیں سکھی رہیں گی، سموگ سے بھی ہماری جان چھوٹ جائے گی، موسم کی حدت اور آلودگی میں کمی آئے گی۔ایک خاتون خریدار نے کہا کہ نرسریاں شہر میں آکسیجن کی فیکٹریاں سمجھی جاتی ہیں اور یہ پھیپھڑوں کی طرح کام کرتی ہیں۔

نرسری کے کاروبار کے بارے لاہور کے نواح میں واقع ایک مقامی نرسری کے مالک توصیف چیمہ نے کہا کہ حکومت کی جانب سے بلین ٹری منصو بہ شروع کرنے کے بعد سے مقامی سطح پر قائم نرسریوں میں پودوں کی فروخت میں اضافہ ہوا ہے۔انہوں نے کہا کہ لوگ نہ صرف اپنے شوق کی وجہ سے گھروں میں بلکہ شجرکاری کے لئے مختلف پارکوں‘روڈ سائیڈز اور گھروں میں پودے لگارہے ہیں۔نرسری ورکر مستقیم نے کہا کہ لوگوں کا پودے خریدنے کا کافی زیادہ رجحان ہے اور یہ روزبروز بڑھ رہا ہے۔

منظور احمد نے کہا کہ نرسریوں میں پودوں کی فروخت بالخصوص موسم بہار میں زیادہ ہو جاتی ہے، سڑکوں اور گلی محلوں میں پودے لگائے جانے چاہئیں جس سے ماحول بہتر ہو گا۔مقامی کاشتکار سید افضل حسین نے بتایا کہ پاکستان میں کبھی بھی باغبانی کو منافع بخش صنعت نہیں سمجھا گیا ہے‘ اگر آس پاس نظر ڈالیں اور دیکھیں کہ اس چھوٹے سے کاروبار سے کتنے ممالک پیسہ کما رہے ہیں تو، احساس ہوگا کہ یہ کاروبار کتنا منافع بخش ہے۔ ہالینڈ کی معیشت میں باغبانی کی برآمدات ایک اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ مشرق بعید سمیت دیگرممالک پودوں کی برآمدت اضافہ ہو رہا ہے۔

لیکن پاکستانی میں اسے انڈسٹری نہیں سمجھا جاتا ہے۔انہوں نے کہاکہ پھولوں کی کاشت کے شعبے میں جدت لانے اور اور تحقیق کی اشد ضرورت ہے‘ پتوکی جو پاکستان میں پھولوں کی کاشت کا سب سے بڑا مرکز ہے‘ وہاں پھولوں کو محفوظ رکھنے کے لئے نہ تو کوئی تحقیقی مرکز ہے اور نہ ہی کوئی کولڈ اسٹوریج ہے۔ا نہوں نے کہاکہ پھولوں کی عمر صرف دو گھنٹے ہے جس کی وجہ سے بہت سارے پھول نقل و حمل کے دوران خراب ہوجاتے ہیں‘ اس نقصان کو کولڈ اسٹوریج سے روکا جاسکتا ہے۔محکمہ جنگلات کے حکام نے بتایا کہ نرسری پروگرام کے تحت سجاوٹی پودوں کی فروخت پر برائے نام منافع وصول کیا جائے گا جس کا مقصد عام لوگوں میں آرائشی پودے لگانے کے رجحان کو فروغ دینا ہے۔

سجاوٹی پلانٹ کی نرسری مختلف اضلاع کی سطح پر کم سے کم لاگت کے ساتھ قائم کی گئی ہیں۔ اگرچہ پاکستان میں صاف ستھرے ماحول کے فروغ اور منافع بخش کاروبار کے لیے اس شعبہ پر زیادہ زور نہیں دیا گیا ہے تاہم حال ہی میں پاکستان ہارٹیکلچر ڈویلپمنٹ اینڈ ایکسپورٹ کمپنی (پی ایچ ڈی ای سی) نے اس سلسلے میں بعض عملی اقدامات اٹھائے ہیں ۔یہ ادارہ عالمی مارکیٹ میں پاکستان کی باغبانی کی مصنوعات کو فروغ دینے کے لئے تشکیل دیا گیا ہے کیونکہ اس شعبہ میں ملکی برآمدات حوصلہ افزا نہیں ۔

اس کے لئے حکومتی اور نجی سطح پر ملکرتوجہ دینی ہو گی‘پودے لگانے والے مواد اور سامان پر درآمدی ڈیوٹی میں کمی‘ ایئر لائنز میں کارگو کے لئے مناسب جگہ اور موزوں کرایہ‘زیادہ سے زیادہ ماڈل نرسریوں کا قیام‘ تربیتی مراکز کا قیام‘ برآمدات کے لئے اسٹوریج سمیت انفراسٹرکچر کی سہولیات کو مستحکم کر نے‘ نئی منڈیوں کی تلاش سمیت متعدد اقدامات اٹھانا ہوں گےتب جا کر آلودگی سے پاک سرسبزپاکستان کی منزل حاصل ہوسکے گی۔