اسلام آباد۔9مارچ (اے پی پی):وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات چوہدری فواد حسین نے کہا ہے کہ ماضی میں عدم اعتماد کی تحریک میں نوٹوں کی بوریاں متعاررف کرانے اور ضمیر کی منڈیاں لگانے والے نواز شریف اور زرداری نے ہارس ٹریڈنگ کو بام عروج پر پہنچایا اورمشہور اصطلاح چھانگا مانگا کی سیاست متعارف کرائی، اب جو عدم اعتماد لائی گئی ہے اس کا مقصد ہی یہ ہے کہ بولی لگائو، ممبر اٹھائو اور چھانگا مانگا لے جائو لیکن اب ان کے پاس نہ ہی چھانگا مانگا ہے اور نہ ہی ارکان کے ضمیر بکنے کو تیار ہیں، اس بار اپوزیشن کی کوششیں ناکام ہوں گی، ان بیوپاریوں کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ وزیراعظم عمران خان ہیں، مولانا فضل الرحمان کی سیاست سیاسی مفاد کے لئے ہے، ننھے منے سیاستدان جو ہماری بولی نہیں بول سکتے وہ ہمارے جذبات اور بات کیا سمجھیں گے، سپیکر قومی اسمبلی سے گزارش ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک کو جلد از جلد ایوان میں لایا جائے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے وفاقی وزیر توانائی حماد اظہر کے ہمراہ اسلام آباد میں ملکی سیاسی صورتحال پر اہم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات نے کہا کہ 1989ء میں پہلی مرتبہ جب عدم اعتماد تحریک لائی گئی اس وقت نواز شریف کی آئی جے آئی تھی اور جے یو آئی اس کا حصہ تھی، اس وقت جو نوٹوں کی بوریاں کھولی گئیں اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت الٹنے کیلئے جو منڈیاں اور بولیاں لگائی گئیں اسی سے ہی ’’چھانگا مانگا کی سیاست ‘‘کی مشہور اصطلاح وجود میں آئی، پھر زرداری میدان میں اترے اور انہوں نے اپنی مارکیٹ کھول لی اور لوگوں کو مری لے گئے، خرید و فروخت اور ممبران کے ضمیروں کی خریداری کا آغاز پاکستان میں جن دو لوگوں نے بام عروج پر پہنچایا وہ نواز شریف اور زرداری تھے، اب ان دونوں نے مل کر فیصلہ کیا کہ خرید و فروخت کی اپنی ہی سٹاک مارکیٹ کھول لیں۔انہوں نے کہا کہ اب جو عدم اعتماد وزیراعظم کے خلاف لائی گئی ہے اس کا مقصد ہی یہ ہے کہ بولی لگائو ممبر اٹھائو اور چھانگا مانگا لے جائو،لیکن اب ان کے پاس نہ ہی چھانگا مانگا ہے اور نہ ہی ممبر اپنے ضمیر بیچنے کیلئے تیار ہیں۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ 1989ء کی اس مشق نے جتنا نقصان پاکستان کی اسمبلی اور جمہوریت کو پہنچایا ہم اس کا مداوا ابھی تک نہیں کر سکے ، اسی منڈی کے دوسرخیل دوبارہ یہ سٹاک مارکیٹ لے آئے ہیں اور اس بار ان کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہو گی۔ ان پیسوں کے بیوپاریوں کی راہ میں کوئی رکاوٹ ہے تو وہ ہے عمران خان۔ 1989ء سے لے کر یا جب سے انہوں نے سیاست شروع کی زرداری ہو یا نواز شریف دونوں کا ایک ہی ماڈل رہا ہے کہ پیسے لگائو لوگوں کو خریدو اور حکومت میں آئو اور پھر ملک کو لوٹو اور جو پیسے لگائے تھے اس سے ڈبل کمائو اور ملک سے باہر چلے جائو۔
انہوں نے کہا کہ یہ سیاست کا وہ ماڈل ہے جس کا آغاز نواز شریف اور زرداری نے شروع کیا اور پھر اس میں مولانا فضل الرحمان کی انٹری ہوئی جنہوں نے پہلے 1993ء میں بے نظیر بھٹو سے مفادات لئے ، اس سے پہلے ڈیزل کے پرمٹ کا کسی کو علم نہیں تھا کہ یہ پرمٹ بھی ہوتے ہیں، فضل الرحمان نے ڈیزل پرمٹ لینا شروع کئے ۔ اس کے بعد انہوں نے اس وقت کی طاقتور بیرونی قوتوں سے پیسے براہ راست لینا شروع کردیئے اور مولانا فضل الرحمان کا ہیڈ آفس دیکھیں گے تو آپ کو معلوم پڑ جائے گا کہ کس ملک کی امداد سے یہ بنایا گیا۔
وزیر اطلاعات و نشریات نے کہا کہ اسی دوران ایک ننھا منا لیڈر ننھا منا مارچ لے کر اسلام آباد کے اوپر چڑھ گیا اور اس سے ہماری کانپیں ٹانگ گئیں، ان پر حیرانگی ہے جو بنیادی بات نہیں سمجھ سکتے اور جو ہماری زبان بولنا نہیں جانتے وہ ہمارے جذبات اور گفتگو کو کیا سمجھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ یہ تو ان کی غلط فہمی تھی ، وہ جب پنجاب میں داخل ہوئے اور پنجاب نے ان کے منہ پر تھپڑ رسید کرنے شروع کئے۔ ندیم افضل چن پیپلز پارٹی میں شمولیت کیلئے گئے تو ایک دن قبل میرے پاس آئے ، میں نے کہا کہ پیپلز پارٹی میں کیوں جا رہے ہو، اگر کوئی سیاسی فیصلہ کرنا ہے تو پیپلز پارٹی قطعی طور پر بہتر چوائس نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے جو حالات ہیں جن لوگوں کا ذاتی ووٹ بینک بھی ہے، جب اس پر زرداری کا ٹھپہ لگتا ہے تو 10 ہزار ووٹ کم ہو جاتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کا کوئی ٹکٹ لینے کیلئے تیار نہیں ہے۔
وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ سندھ کا این ایف سی کا پیسہ ننھے منے مارچ کو کامیاب کرانے کیلئے پانی کی طرح بہایا گیا، سرکاری گاڑیوں پر بینرز اور جھنڈے لگ رہے تھے اور ایمبولینس پر بانس لدے تھے۔ انہوں نے کہا کہ 18ویں ترامیم کے نام پر عجیب تماشا لگا ہے کہ صوبوں کو آپ پوچھ نہیں سکتے اور صوبوں میں اس طرح پیسہ ضائع ہورہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب دنیا ایک سنگین مالی بحران کا شکار ہے ، امریکی صدر جوبائیڈن نے اعلان کیا ہے کہ وہ روس سے تیل اور گیس بھی نہیں خریدیں گے، اس کے بعد یہ عالمی مالیاتی بحران مزید پیچیدہ ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس وقت ایک سیاسی استحکام کی ضرورت ہے اور سپیکر قومی اسمبلی سے گزارش کر رہے ہیں کہ عدم اعتماد کی تحریک کو لمبا نہ لٹکایا جائے، اس کو جلد از جلد ایوان میں لے کر آئیں کیونکہ ملک ایک لمبے بحران کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
چوہدری فواد حسین نے کہا کہ اپوزیشن نے 172 لوگ شو کرنے ہیں، ہمارے 179 لوگ وزیراعظم عمران خان کی حمایت کرتے ہیں اور امید ہے کہ 5 سے زیادہ مزید اراکین کی حمایت مل جائے گی جس کے بعد 184 سے زیادہ لوگ حمایت میں ہوں گے، اپوزیشن 172 لوگ لے کر آئے اور ہمت اور جرأت کا مظاہرہ کرے ، میڈیا کے سامنے ہی لے آئے تاکہ پتہ چل جائے کہ کون کدھر کھڑا ہے، جو ووٹ آپ عوام سے لیتے ہیں وہ کسی پارٹی ٹکٹ یا پارٹی لیڈر کی وجہ سے لیتے ہیں لہذا وہ ٹکٹ پارٹی کی امانت ہے اگر اپوزیشن کے پاس 172 لوگ ہیں تو میڈیا پر لآئیں اور دیر نہ کریں۔
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات نے کہا کہ جو دکانیں لگانے کی کوشش کی گئی 3 اراکین جن میں دو خواتین بھی شامل ہیں ، نے وزیراعظم کو صورتحال سے آگاہ کیا کہ انہیں دس،دس کروڑ کی آفر ہوئی ہے۔ گزشتہ روز بھی ایک رکن قومی اسمبلی نے بتایا کہ اسے پیسوں کی پیشکش کی گئی لیکن اس نے انکار کر دیا، وفاقی وزیر نے کہا کہ جو بیوپاری اس قسم کی سیاست کر رہے ہیں ہم اسے مسترد کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اب ہم اپوزیشن سے بات چیت کی کوشش نہیں کر رہے کیونکہ ہم نے پہلے بہت سی کوششیں کیں اور انہیں انتخابی اصلاحات اور دیگر معاملات پر بات چیت کی پیشکش کی لیکن کوئی بات سننے کو تیار نہیں، جب انہیں عزت راس نہیں تو ان سے بات کرنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ سپیکر قومی اسمبلی سے درخواست ہے کہ فوری اجلاس بلائیں اور اس معاملے کو نمٹائیں۔ اس موقع پر وفاقی وزیر برائے توانائی حماد اظہر نے بھی معاشی صورتحال پر روشنی ڈالی۔