نیب ترامیم کس طرح بنیادی انسانی حقوق سے متصادم ہیں؟ عدالت صرف بنیادی حقوق اور آئین کی خلاف ورزی کو دیکھے گی، چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کے ریمارکس

68
Supreme Court
Supreme Court

اسلام آباد۔4اکتوبر (اے پی پی):سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست کی سماعت کے موقع پر چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ درخواست گزار کو ثابت کرنا پڑے گا کہ حالیہ ترامیم سے نیب قانون کیسے بے اثر ہوا؟ یہ بھی بتانا ہو گا کہ حالیہ ترامیم کیسے بنیادی انسانی حقوق سے متصادم ہیں، عدالت نے صرف بنیادی حقوق اور آئین کی خلاف ورزی کو دیکھنا ہے۔

منگل کو یہاں درخواست کی سماعت چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی۔ دوران سماعت عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل میں موقف اپنایا کہ نیب قانون میں مختلف شقوں کے ذریعے عوامی عہدیداروں کو ڈیل کیا گیا۔ اسفند یار ولی کیس میں تمام شقوں کا جائزہ لیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ احتساب کے قانون کی تاریخ 1947 سے شروع ہوتی ہے جب نیب آرڈیننس آیا تو وہ احتساب آرڈیننس کی ہی ایکسٹینشن تھی۔

گزشتہ سماعت پر وفاق نے جواب جمع کروانے کا کہا تھا لیکن ابھی تک تو نیب کا موقف بھی آن ریکارڈ نہیں آیا ہے۔ معلوم ہونا چاہئے کیا نیب علیحدہ موقف اپنائے گا۔ چیف جسٹس نے اس موقع پر ریمارکس میں کہا کہ ہمارے پاس ابھی تک وفاق کا جواب نہیں آیا۔ اٹارنی جنرل بھی موجود نہیں ہیں۔ نیب نے کہا تھا وہ اٹارنی جنرل کے دلائل کو اپنائیں گے۔

دوران سماعت جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ نیب نے زبانی کہا تھا لیکن ابھی تک تحریری طور پر کچھ نہیں آیا۔ درخواست گزار کے کونسل کے دلائل سے اخذ کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان بننے سے آج تک کے احتساب کے قانون میں وقتی ضرورت کے مطابق ترامیم کی جاتی رہیں۔ بعد ازاں عدالت عظمی نے معاملے کی سماعت بدھ 5 اکتوبر تک کے لئے ملتوی کر دی۔