اسلام آباد۔19جولائی (اے پی پی):چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے نیب ترامیم کیخلاف درخواست کی سماعت کے موقع پر ریمارکس دئیےکہ نیب قانون کا تعلق صرف پبلک آفس ہولڈرز سے نہیں،مخصوص فرد کیلئے بنے قانون کو عدالت کالعدم کر سکتی ہے،نیب قانون کی وجہ سے سرکاری افسران فیصلہ کرنے سے ڈرتے ہیں، جو ترامیم بنیادی حقوق کیخلاف نہیں انہیں الگ رکھنا ہوگا،
ماضی میں مخصوص افراد کیلئے ہونے والی قانون سازی عدالت کالعدم قرار دے چکی،کرپشن کرنے والے کو سزا ہونی چاہیے نا کہ اس کا کیا گیا کوئی ضروری فیصلہ ہی واپس ہوجائے،ہمیں احساس ہے کہ ان مقدمات کی وجہ سےعدالت میں آنے والا عام آدمی متاثر ہوتا ہے،پارلیمنٹ سےبغیر کسی رکاوٹ کے یہ بل منظور ہوئے ۔
منگل کے روز معاملہ کی سماعت چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی۔ دوران سماعت پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیئے کہ نیب میں زیادہ کیسز اختیارات کے ناجائز استعمال اور آمدن سے زائد اثاثوں کے ہوتے ہیں،ترمیم کے بعد کسی کو فائدہ پہنچانے پر کیس نہیں بنے گا،جب تک اختیار استعمال کرنے والا خود فائدہ نہ لے کیس نہیں بن سکے گا،
پارلیمان کل قرار دے کہ قتل جرم نہیں ہے تو کیا ایسا ہونے دیا جائے؟جسٹس منصور علی شاہ نے اس موقع پر نقطہ اٹھایا کہ کیا قانون سازوں کو ان کا استحقاق استعمال کرنے نہیں دینا چاہیے؟پارلیمان اگر سزائے موت ختم کرتی ہے تو کیا عدالت اسے بحال کر سکتی ہے؟ جس پر خواجہ حارث نے موقف اپنایا کہ سزائے موت ختم کرنے کا معاملہ مختلف ہے، جہاں کرپشن اور قومی خزانے کا معاملہ ہو وہاں بات بنیادی حقوق کی آتی ہے،
امیر آدمی دولت جہاں چاہتا ہے منتقل کر لیتا ہے،پٹواری فرد کے پیسے لیتا پکڑا جائے تو اسکے خلاف کارروائی ہوتی ہے،کیا بڑے آدمی کیخلاف کارروائی نہیں ہونی چاہیے؟ پارلیمان بھی آئین کے ماتحت ہے،نیب ترامیم سپریم کورٹ کے فیصلوں سے متصادم ہیں انکے مطابق نہیں۔ ایک موقع پرکمرہ عدالت میں موجود وائس چیئر مین پی ٹی آئی مخدوم شاہ محمود قریشی کومخاطب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ جب نیب ترامیم ہو رہی تھیں تو آپ کہاں تھے،
آپ کے پاس لوگوں کا ٹرسٹ ہے،اس ملک قوم اور آئین کے بارے میں سوچیں، آپ کے وکیل نے بڑے اچھے نکات اٹھائیں ہیں،ہم ان نکات پر فریقین کو نوٹس جاری کرینگے،آپ آئندہ سماعت پر تیاری کرکے آئیں،اس معاملہ پر پارلیمنٹ میں کیوں بحث نہ ہو،پارلیمنٹ میں پی ٹی آئی کی کتنی تعداد ہے،ملک ، قوم ،آئین کی خاطر سوچیں ،ہمیں احساس ہے کہ ان مقدمات کی وجہ عدالت میں آنے والا عام آدمی متاثر ہوتا ہے ۔
شاہ محمود قریشی نے عدالت کے روبرو موقف اپنایا کہ کئی گھنٹے تک پارلیمان کی کمیٹی میں نیب ترامیم پر بات ہوئی، نیب قانون بنتے وقت میں کمیٹی کا ممبر تھا ،کمیٹی میں نیب کا قانون تفصیلی طور پر زیر بحث آیا ۔جسٹس اعجاز الاحسن نے اس موقع پر سوال اٹھائے کہ کیا پارلیمان کے قانون سازی کے اختیارات کا عدالتی جائزہ نہیں لیا جا سکتا؟ کیا مخصوص افراد کو فائدہ پہنچانے کا قانون چیلنج نہیں ہو سکتا؟سال 1985 سے ترامیم کے اطلاق کا مطلب ہے زیر التوا تمام مقدمات بیک جنبش قلم ختم ہوگئے،
بات صرف یہاں نہیں رکتی، پیسہ بیرون ملک منتقلی بھی جرم نہیں رہا،منتقل شدہ پیسے سے اثاثے بنانا ثابت کرنے پر ہی جرم ہوگا، انہوں نے شاہ محمود قریشی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ عوام منتخب نمائندوں کی حیثیت سے یہ معاملہ پارلیمنٹ میں اٹھائیں، فائدہ ملنے کے بعد واپس ہونے سے قانونی چارہ جوئی شروع ہوجائے گی۔جسٹس منصور علی شاہ نے ایک موقع پر ریمارکس دیئے کہ یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ ترامیم پارلیمان نے کی ہیں، فیصلہ ساز ملکی مفاد میں فیصلے کرنے سے اس لیے ڈرتے تھے کہ نیب نا پکڑ لے،نیب قانون نے ہمیں پیچھے بھی دھکیلا ہے،
یہی وقت ہے کہ ہم ان سب قوانین کو بغور دیکھیں،کیا نیب نے آج تک ملکی ترقی میں کردار ادا کیا ہے یا فیصلہ سازی کو روکا ہے؟اس بات کا بھی جائزہ لینا ہوگا کہ نیب سیاسی انجینئرنگ کیلئے استعمال ہوتا ہے یا نہیں،ہر حکومت اپنی اپوزیشن کیخلاف نیب استعمال کرتی ہے،انہوں نے شاہ محمود قریشی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ عوام نے بطور ممبر اسمبلی آپ پر جو اعتماد کیا تھا وہ پورا نہیں ہو رہا،درخواست گزار پارلیمنٹ سے واک آئوٹ کر گئے، درخواست گزار کے پاس عوام کا ایک ٹرسٹ ہے،
پارلیمنٹ میں اتنی سیریس ترامیم ہوئیں، کیا اس صورتحال میں درخواست گزار کا حق دعوی ہے،اگر ترامیم کالعدم ہوئیں تو ملنے والا فائدہ واپس ہو جائے گا۔ خواجہ حارث نے اس موقع پر موقف اپنایا کہ عدالت نے اقوام متحدہ کے اینٹی کرپشن کنونشن کو بھی مدنظر رکھنا ہے،لوگوں کا حق ہے کہ انکے نمائندے اختیارات کا غلط استعمال نہ کریں، اختیارات کا غلط استعمال اب جرم تو ہے لیکن اسے ثابت کرنا ناممکن بنا دیا گیا ہے،
احتساب عدالتیں اب بیرون ملک سے آنے والی معلومات بطور شواہد قبول نہیں کر سکتی،نئی ترامیم کیساتھ جعلی اکائونٹس کے تمام کیسز ختم ہوجائیں گے، کئی مقدمات میں ٹرائل کورٹس میں ریلیف کی درخواستیں آ چکی ہیں،
انہوں نے اس موقع پر نیب ترامیم کا ملزمان کو فائدہ پہنچانے کو عدالتی فیصلے سے مشروط کرنے کی استدعا بھی کی۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی جانب سے پی ٹی آئی کی استدعا کی مخالفت کرتے ہوئے موقف اپنایا گیا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں ترامیم چیلنج ہوچکی ہیں۔بعد ازاں عدالت عظمیٰ نےاٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کرتے ہوئے معاملہ کی سماعت29 جولائی بروزجمعہ تک کیلئے ملتوی کر دی ہے۔