وزیراعظم جلد شمسی توانائی پالیسی کا اعلان کریں گے، 1980 میگاواٹ اضافی بجلی اگلے موسم گرما میں دستیاب ہوگی، وفاقی وزیر برائے توانائی

53

حیدرآباد۔27اگست (اے پی پی):وفاقی وزیر برائے توانائی (پاور ڈویژن) انجنیئر خرم دستگیر خان نے کہا ہے کہ وزیراعظم محمد شہباز شریف جلد شمسی توانائی پالیسی کا اعلان کریں گے، ملک میں تقریباً 1980 میگاواٹ اضافی بجلی اگلے موسم گرما میں دستیاب ہوگی اور بجلی کی نئی پیداواری صلاحیت درآمدی تیل پر نہیں ہوگی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ہفتہ کو حیدرآباد میں حیسکو پاور ونگ کالونی کے کانفرنس ہال میں ایک اہم پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ پورے ملک میں 200 یا اس سے کم یونٹ استعمال کرنے والے صارفین کو بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی جانب سے تصحیح شدہ نئے بل جاری کئے جائیں گے، گھریلو صارفین کے لئے بجلی کے بل جمع کرانے کی آخری تاریخ کی میعاد 06 ستمبر تک بڑھا دی گئی ہے۔ میری یہاں موجودگی کا مقصد حیسکو اور سیپکو ریجنز میں سیلاب زدگان کے حوالے سے درپیش مسائل کو حل کرنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سندھ میں انتہائی غیر معمولی بارشیں ہوئی ہیں کہیں اوسط سے چار گنا اور بعض مقامات پر سات گنا زیادہ بارشیں ہوئی ہیں، اس کا اثر ہماری بجلی کی سپلائی کرنے والی کمپنیوں پر بھی پڑا ہے، گرڈ اسٹیشنز ڈوبے ہوئے ہیں، کہیں کھمبے پانی میں گر گئے ہیں، کچھ مقامات پر حفاظتی اقدامات کے طور پر بھی بجلی کی سپلائی منقطع کی جاتی ہے۔

وفاقی وزیر نے حیسکو اور سیپکو کے چیفس کو ہدایات دیں کہ جہاں بھی نکاسی آب کے مسائل درپیش ہیں وہاں کسی قسم کی لوڈشیڈنگ نہ کی جائے اور 24 گھنٹے بجلی فراہم کی جائے تاکہ نکاسی آب کا مسئلہ ترجیحی طور پر حل ہوسکے۔انہوں نے کہا کہ پورے ملک میں بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کو ہدایت کردی گئی تھی کہ بارشوں کے دوران حتی الامکان بجلی کی فراہمی جاری رہنی چاہیئے اس حوالے سے حیسکو اور سیپکو نے محنت کی اور لوگوں نے بھی محسوس کیا ہوگا کیونکہ پہلے بارش کی پہلی بوند پڑتے ہی بجلی غائب ہوجاتی تھی، لیکن اس مرتبہ ایسا نہیں ہوا۔

انہوں نے کہا کہ ابھی بھی چیلینجز درپیش ہیں، صوبے کے تمام اضلاع سے تفصیلی رپورٹ حاصل کر رہا ہوں۔ انہوں نے بتایا کہ حیسکو کے تین اہم گرڈ اسٹیشنز بارش کی وجہ سے بند ہوگئے تھے جن میں نوابشاہ ون، دوڑاور جھرک گرڈ اسٹیشن شامل ہیں، نوابشاہ کے چار فیڈرز کو متبادل گرڈ اسٹیشنز سے منسلک کرکے چلادیا گیا ہے، جھرک گرڈ اسٹیشن کو بھی لو لوڈ پر چلادیا گیا ہے، بحالی کا کام جاری ہے، جن گرڈ اسٹیشنز میں پانی جمع ہوا ہے وہاں سے پانی کی نکاسی کا کام بھی کیا جارہا ہے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ پورے ملک میں بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے کارکنان ہمارے اور آپ کے لئے بارش میں اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر کام کرتے ہیں ان کو سلام پیش کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سیلاب کا چیلنج ابھی ختم نہیں ہوا، شمال سے ایک نیا ریلا دریائے کابل اور کنہار سے آرہا ہے جو کے پی سے گذرتا ہوا ملک کے جنوبی علاقوں میں بھی آئے گا، آنے والے چند ہفتے ایمرجنسی کے ہیں جس میں پوری کوشش کی جارہی ہے کہ بجلی کے محکمے کے سربراہان، سینئر افسران اور عملہ پوری ذمہ داری سے خدمات انجام دیں اور کسی قسم کی کوئی کوتاہی نہ ہو۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا اصل مقصد ان کمپنیوں کی کارکردگی کو بہتر بنانا ہے لیکن فی الحال سیلاب کی صورتحال اور بلوں کی تصحیح کے معاملے پر ہماری پوری توجہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ کوئی ایک پارٹی نہیں بلکہ وسیع البنیاد جمہوری حکومت میں شامل دس کی دس پارٹیاں ریلیف کے کام میں مصروف عمل ہیں، ہم سب اکٹھے ہیں اور بلا تفریق سیلاب متاثرین کو ریسکیو کریں گے، ان کو ریلیف بھی پہنچائیں گے اور بحالی کا کام بھی جاری رہے گا۔ صحافیوں کے سوالوں کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بجلی کے بلوں میں ریلیف کے معاملے میں ملکی سطح پر غور و فکر کیا جارہا ہے، دس روز میں تفصیلی بحث کے بعد ریلیف کے سلسلے میں جو فیصلہ کیا جائے گا وزیراعظم اس کا اعلان کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ متاثرین کو دوسرے طریقے سے بھی ریلیف دیا جارہا ہے اور بی آئی ایس پی کے تحت ہر خاندان کو 25 ہزار روپے کی مالی امداد کی فراہمی کی جارہی ہے، سیلاب کے دوران جو افراد جاں بحق ہوئے ہیں ان کے ورثا کے لئے فی کس 10 لاکھ روپے امدادی چیکس دینے کا عمل بھی شروع ہوگیا ہے۔ حیسکو کی کارکردگی ایک علیحدہ سوال ہے، خراب ٹرانسفارمرز کی تبدیلی کا معاملہ بھی ایک چیلنج ہے ان مسائل کو بھی حل کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی سابقہ حکومت کے دور میں لوڈشیڈنگ کافی حد تک کم ہوگئی تھی۔ بجلی کے حوالے سے ملک میں دو قسم کی صورتحال ہے، ایک تو وہ فیڈرز ہیں جہاں بلوں کی ریکوری 80 فیصد سے زیادہ ہے اور لائن لاسز 20 فیصد سے کم ہیں ، جہاں ریکوری اچھی ہے وہاں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ کم ہوتا ہے جبکہ زیادہ لائن لاسز والے علاقوں میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ زیادہ ہوجاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ موسم گرما کے دوران ملک میں بجلی کی طلب 25 ہزار میگاواٹ کے قریب متوقع تھی لیکن یہ طلب 30 ہزار میگاواٹ سے زیادہ ہوگئی۔ پچھلے چار سال یہ پروپیگنڈہ کیا گیا کہ ملک میں بجلی وافر مقدار میں دستیاب ہے مگر ملک کے اندر بجلی وافر مقدار میں موجود نہیں۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ فرنیس آئل پر پرانی ٹیکنالوجی کے ذریعے جو بجلی تیار کی جاتی ہے وہ اس طرح ہے جیسے حکومت اور عوام اپنا خون جلا رہی ہے، ہمارے پاس بجلی پیدا کرنے کی موثر صلاحیت 25 ہزار میگاواٹ تک کی ہے اس سے زائد بجلی بناتے ہیں تو ہمیں تیل سے بنانی پڑتی ہے جس سے پھر فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ جیسے معاملات پیدا ہوتے ہیں۔

ہماری کوشش ہے کہ اگلے موسم گرما سے قبل جو زیر تکمیل پلانٹس جن میں تھر میں 1320 میگاواٹ کا شنگھائی الیکٹرک اور 330 میگاواٹ کے دو منصوبے وہاں موجود ہیں، سے تقریباً 1980 میگاواٹ اضافی بجلی اگلے موسم گرما میں دستیاب ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم محمد شہباز شریف جلد شمسی توانائی پالیسی کا بھی اعلان کریں گے، اگلے موسم گرما میں ہمارے پاس ان ذرائع سے ہزاروں میگاواٹ بجلی دستیاب ہوگی اس سے یہ فائدہ ہوگا کہ سولر سے سستی بجلی بنانے کے دوران دن کے وقت ہم ایندھن پر پلانٹس کو کم سے کم چلائیں تاکہ بجلی کی لاگت کم کرکے عوام کے بجلی کے بل بھی کم کئے جاسکیں۔

انہوں نے کہا کہ بجلی کی نئی پیداواری صلاحیت درآمدی تیل پر نہیں ہوگی اور مستقبل میں جتنی بھی بجلی کی پیداواری صلاحیت ہوگی وہ تھر کول، ہائیڈل ذرائع، پن بجلی، شمسی اور نیوکلیئر ذرائع سے حاصل کی جائے گی جس سے ملک کے صارفین کو بجلی کی لگاتار اور سستی فراہمی یقینی ہوسکے گی۔

حیسکو اور سیپکو کو حکومت سندھ کے حوالے کرنے کے بارے میں ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے حکومت سندھ سے بات چیت چل رہی ہے۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبائی حکومتیں بھی بجلی کی ڈسٹری بیوشن کے عمل میں شامل ہوسکتی ہیں۔ اس موقع پر چیف ایگزیکیوٹو آفیسر حیسکو نور احمد سومرو، مسلم لیگ (ن) کی سینئر رہنما شاہ محمد شاہ، سابقہ سینیٹر نہال ہاشمی اور دیگر بھی ان کے ہمراہ تھے۔