اسلام آباد۔22فروری (اے پی پی):وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کفایت شعاری اقدامات کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ وفاقی کابینہ کے تمام ارکان نے رضاکارانہ طور پر تنخواہیں اور مراعات نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے، موجودہ صورتحال کے تناظر میں آئندہ دو سال کے دوران کوئی انتظامی یونٹ، ڈویژن، ضلع یا تحصیل قائم نہیں کی جائے گی، جون 2024ء تک پرتعیش اشیا، سرکاری گاڑیوں کی خریداری پر پابندی ہو گی، بجلی کی بچت کیلئے سرکاری دفاتر ساڑھے سات بجے کھلیں گے، بڑے سرکاری گھروں کی فروخت کیلئے وزیر قانون کی سربراہی میں کمیٹی قائم کی گئی ہے، توشہ خانہ سے 300 ڈالر مالیت تک کا تحفہ خریدنے کی اجازت ہو گی، ان اقدامات سے 200 ارب روپے سالانہ بچت ہو گی، انتخابات کرانا الیکشن کمیشن سمیت متعلقہ اداروں کی ذمہ داری ہے، ہم آئین و قانون کے پابند ہیں، سیاسی حکومتیں اور ادارے اپنی آئینی حدود میں رہ کر اور مل کر قدم اٹھائیں گے تو ملک ترقی کرے گا۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے بدھ کو وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد وفاقی وزراء کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا کہ گزشتہ 75 سال کے دوران حکومتوں کے شاہی اخراجات غریب طبقہ کو برداشت کرنا پڑے، اس عرصہ کے دوران حکومت اور اشرافیہ نے اپنا فرض ادا نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف نے 40 ارب روپے غریبوں پر خرچ کرنے پر اتفاق کیا ہے، غریبوں کو ریلیف فراہم کرنے کیلئے بی آئی ایس پی کے بجٹ میں اضافہ کیا گیا ہے، آئی ایم ایف کی تمام شرائط پوری کی جا چکی ہیں، آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات آخری مراحل میں ہیں، عوام کے تعاون سے ملک کو بحران سے نکالیں گے، ضمنی فنانس بل میں بڑی کارپوریشنز پر ٹیکس لگائے گئے ہیں، زیادہ تر ٹیکس پرتعیش اشیاء پر لگائے گئے ہیں،
آئی ایم ایف کے پاس جانا مجبوری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کو غربت اور بے روزگاری سے نکالنے اور خوشحالی لانے کیلئے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے، سیاسی حکومتیں اور ادارے اپنی آئینی حدود میں رہ کر اور مل کر قدم اٹھائیں گے تو ملک ترقی کرے گا، اپنی کاوشوں سے ملک کو مشکلات سے نکالنے میں کامیاب ہوں گے۔ وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا کہ تمام کابینہ ارکان نے رضاکارانہ طور پر تنخواہیں اور مراعات نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے، ان سے لگژری گاڑیاں واپس لی جا رہی ہیں، تمام کابینہ اراکین ملک و بیرون ملک اکانومی میں سفر کریں گے، تمام کابینہ ارکان اپنے یوٹیلٹی بلز خود ادا کریں گے،
کابینہ ارکان بیرونی دوروں کے دوران فائیو سٹار ہوٹلوں میں قیام نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ جون 2024ء تک لگژری گاڑیوں کی خریداری پر پابندی ہو گی، کابینہ کا رکن، عوامی نمائندہ یا سرکاری افسر لگژری گاڑی پر سفر نہیں کرے گا، جون 2024ء تک پرتعیش اشیاء پر پابندی ہو گی، سرکاری افسران کے پاس موجود سکیورٹی گاڑیاں واپس لی جا رہی ہیں، بیرون ملک سفری اخراجات اور قیام میں کمی لائی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ دو سال تک کوئی انتظامی یونٹ، ڈویژن، ضلع اور تحصیل قائم نہیں کی جائے گی، سنگل ٹریژری اکائونٹ قائم کیا جا رہا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ بجلی اور گیس کی بچت کیلئے گرمیوں میں دفاتر صبح ساڑھے سات بجے کھولنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، سرکاری دفاتر میں کم بجلی استعمال کرنے والے آلات کا استعمال کیا جائے گا، سرکاری ملازمین اور حکومتی اہلکاروں کو ایک سے زائد پلاٹ الاٹ نہیں کیا جائے گا، وفاق اور صوبوں میں انگریز دور کے سرکاری گھر میں جو کئی ایکڑ پر مشتمل ہیں ، کی فروخت کیلئے وزیر قانون کی سربراہی میں کمیٹی قائم کی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ تمام وزارتی اور ادارہ جاتی اخراجات پر 15 فیصد کمی کی جائے گی، سرکاری تقریبات میں ون ڈش کی پابندی ہو گی، وفاقی وزارتوں، اداروں میں ون ڈش کی پابندی ہو گی، غیر ملکی مہمانوں پر یہ پابندی نہیں ہو گی تاہم کفایت شعاری اقدامات کو مدنظر رکھا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ان پر فوری عملدرآمد کیا جا رہا ہے، آئندہ بجٹ میں اصلاحات اور سرکاری اداروں میں اخراجات میں کمی کیلئے اقدامات کئے جائیں گے۔
وزیراعظم نے کہا کہ سرکاری افسران کے پاس موجود سکیورٹی گاڑیاں واپس لی جا رہی ہیں، صرف خطرے کی صورت میں سرکاری افسران کو سکیورٹی دی جائے گی۔ انہوں نے صوبائی حکومتوں، عدلیہ سے درخواست کی کہ کفایت شعاری اور سادگی پر عمل کریں۔ انہوں نے کہا کہ پاک فوج نے غیر جنگی اخراجات میں کمی کیلئے مثبت ردعمل ظاہر کیا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ توشہ خانہ کے حوالہ سے کابینہ نے فیصلہ کیا ہے کہ آج کے بعد 300 ڈالر تک تحفہ رکھا جا سکے گا، قانون کے مطابق اس سے زیادہ قیمت کا تحفہ جمع ہو جائے گا، اپنے پاس نہیں رکھا جا سکے گا،
توشہ خانہ کا ریکارڈ پبلک کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ عوام اس کی تفصیل سے آگاہ ہو سکیں، کفایت شعاری کے ان اقدامات سے 200 ارب روپے کی بچت ہو گی، ان اقدامات کے کفایت شعاری کے حوالہ سے دور رس نتائج ہوں گے، توشہ خانہ میں صدر، وزیراعظم، وفاقی وزرا، گورنرز اور سرکاری افسران کے تحائف آتے ہیں، ان پر پابندی لاگو ہو گی، کفایت شعاری کے ان تمام اقدامات کا نفاذ ایوان صدر، وزیراعظم ہائوس سمیت تمام اداروں اور دفاتر پر ہو گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ توشہ خانہ کے تحائف کا آزادانہ تھرڈ پارٹی آڈٹ کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں پاسکو نے اربوں ڈالر کی گندم درآمد کی ہے اور ملک میں گندم کی کوئی کمی نہیں، اب آٹے کی لائنیں ختم ہونی چاہئیں، فلور ملوں نے سخت اقدامات کے تناظر میں احتجاج کی کال واپس لی، صوبوں کو ضرورت کے مطابق گندم فراہم کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میڈیکل، ہیلتھ اور ایجوکیشن الائونسز کو قانونی تحفظ حاصل ہے، مہنگائی اور روپے کی قدر میں کمی کے تناظر میں سرکاری ملازمین کی تنخواہ بہت کم ہے، ان پر مزید بوجھ نہیں ڈالنا چاہتے،
ان اقدامات پر کامیابی سے عملدرآمد کے بعد اشرافیہ پر مزید بوجھ ڈالیں گے، ان فیصلوں پر پوری طرح عمل کیا جائے گا، صوبوں کو بھی اس میں شامل کرنے کی کوشش کریں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ پہلے بھی ایک شخص کہا کرتا تھا کہ بیرون ملک بڑی دولت موجود ہے، 90 دن میں واپس لائوں گا، ان سے ان کے چار سالہ دور حکومت میں پوچھا جاتا، ایک رفاہی ادارے کیلئے پیسے اکٹھے کرکے اپنی جیبوں میں ڈال لئے، وہ 90 دن میں 300 ارب ڈالر لانے اور کرپشن کے خاتمہ کی بات کرتے تھے، اس نے برادر ملک کے حکمرانوں کی طرف سے دی گئی خانہ کعبہ ماڈل والی گھڑی بازار میں بیچ دی، ایمانداری کا دعویدار شخص کرپشن میں رنگے ہاتھوں پکڑا گیا، وزیراعظم ہوتے ہوئے وہ جعلی رسید پر گھڑی بیچ رہا تھا۔
انہوں نے کہا کہ گوادر میں بجلی کی فراہمی کا منصوبہ 8 سال مؤخر رہا ہے، دن رات کام کرکے بجلی فراہم کر دی گئی ہے، گوادر بندرگاہ پرکام ٹھپ ہو چکا تھا، اب وہاں سے گندم اور کھاد کی ترسیل ہو رہی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ گوادر میں بڑے جہازوں کے قیام کیلئے اقدامات کر رہے ہیں، کابینہ اجلاس میں ایک وفاقی وزیر نے بتایا کہ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری اپنے اخراجات خود برداشت کرتے ہیں، بروقت انتخابات آئینی ضرورت ہے، وفاق، صوبہ پنجاب اور صوبہ خیبرپختونخوا نے الیکشن کمیشن کو اپنا مؤقف پیش کیا ہے، اس بارے میں فیصلہ کرنا الیکشن کمیشن اور دیگر اداروں کی ذمہ داری ہے، ہم اس فیصلہ پر عمل کریں گے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم تمام عدالتوں کا احترام کرتے ہیں، یہ ہم سب کی آئینی ذمہ داری ہے تاہم غیرجانبداری کی توقع رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف کو اقامہ اور پانامہ پر سزا دلوائی گئی، یہ ڈھکی چھپی بات نہیں، عمران خان کے گھر کو ریگولرائز کیا گیا، غریبوں کے گھر گرائے گئے، یہ ناانصافی کی بڑی مثال ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ملک بحرانوں سے نکل کر عظیم ملک بنے گا۔ کابینہ کی تعداد میں کمی کے حوالہ سے انہوں نے کہا کہ اس معاملہ پر تفصیلی بحث کی گئی ہے، اب وفاقی کابینہ کے اراکین ایک دھیلا لئے بغیر خدمت کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ اتحادی حکومت کے تمام اکابرین، وزراء اور مشیروں کا شکرگزار ہوں کہ انہوں نے رضاکارانہ طور پر کفایت شعاری اقدامات پر عملدرآمد کا فیصلہ کیا ہے۔
ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وفاقی کابینہ کی جانب سے صدر مملکت کو خط لکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے کہ انہوں نے صوبوں میں انتخابات کی تاریخ دے کر غیر آئینی اقدام کیا ہے، وہ 9 ماہ قبل بھی ایک غیر آئینی اقدام کا حصہ بنے تھے جب سپیکر و ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی نے امریکی سازش کا الزام لگا کر اسمبلی توڑنے کا غیر قانونی اقدام کیا تھا، اب عمران خان نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ اس اقدام کا ذمہ دار امریکہ نہیں ہے، ان کے امریکہ سے متعلق بیانیہ سے ملک کو نقصان ہوا، ہم اس کا جواب چاہتے ہیں اور آئین و قانون کے مطابق کارروائی کریں گے۔ ایک سوال کے جواب میں وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا کہ وزارت خارجہ کے فنڈ میں کوئی کٹوتی نہیں کی گئی، موجودہ کفایت شعاری پالیسی کے تحت تنخواہ اور الائونسز کے علاوہ دیگر جاری اخراجات میں 15 فیصد کمی کی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ کئے گئے حالیہ معاہدے اور 2019-20ء کے معاہدے کو عوام کے سامنے لایا جائے گا ، ویب سائٹ پر جاری کیا جائے گا اور اسے پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم ڈھانچہ جاتی اصلاحات کر رہے ہیں جو کہ ہمارے مفاد میں ہے، بی آئی ایس پی کا بجٹ بڑھایا گیا ہے جس کا مقصد غریبوں کو ریلیف فراہم کرنا ہے۔