
پشاور۔ 15 فروری (اے پی پی) وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ قبائلی اضلاع سے غربت کا خاتمہ اور ان کی ترقی حکومت کی اولین ترجیح ہے، صحت انصاف کارڈز غریب گھرانوں کے لئے بیماری میں بڑا سہارا ہوں گے، تخفیف غربت کے ایک بڑے اور یکجا پروگرام کا اسی ماہ اعلان کیا جائے گا، مشکل وقت سے کسی حد تک نکل چکے ہیں، سعودی ولی عہد کی قیادت میں بڑے وفد کے دورہ سے ملک میں سرمایہ کاری آئے گی۔ وہ جمعہ کو خیبر پختونخوا میں ضم شدہ قبائلی اضلاع کے عوام کے لئے صحت انصاف کارڈز کے اجراءکی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔ وزیراعظم نے کہا کہ وہ قبائلی علاقوں کے لوگوں کے ساتھ کیا گیا اپنا وعدہ پورا کرنے پر آج بہت خوش ہیں، قبائلی علاقوں کے لوگ پورے پاکستان میں غربت کے ساتھ ساتھ تعلیم، صحت اور ہر طرح کے سماجی اشاریوں کے لحاظ سے پیچھے تھے جبکہ دہشت گردی اور اس کے خلاف جنگ سے پچھلے دس بارہ سال میں جو تباہی ہوئی اس سے ان لوگوں کے حالات مزید ابتر ہوگئے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے فیصلہ کیا تھا کہ ہم اس ملک میں نچلے طبقے کے لئے جو بھی کریں گے اس کا آغاز قبائلی علاقہ سے کریں گے۔ ہم عام آدمی کی بہتری کیلئے بہت سے پروگرام لا رہے ہیں، ہیلتھ کارڈ اسی پروگرام کا حصہ ہے جو غریب گھرانے کے لئے سب سے بڑی نعمت ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب ایک گھرانے میں بیماری آتی ہے تو اس کی مشکلات مزید بڑھ جاتی ہیں اور بیماری کے علاج پر ان کا سارا بجٹ تباہ ہو جاتا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہیلتھ کارڈ کے ذریعے ہر خاندان کو 7 لاکھ 20 ہزار روپے تک علاج کی سہولت حاصل ہوگی، یہ ان کیلئے ایک ایسی چیز ہوگی جو مشکل حالات میں ان کے کام آئے گی۔ وزیراعظم نے کہا کہ قبائلی علاقوں کے لوگوں کی زندگیوں میں بہتری لانے کے لئے آج یہاں ایک اجلاس ہوا جس میں ہم نے پورا پلان بنایا کہ کیسے قبائلی علاقوں کے لوگوں کی مدد کرنی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے جو تھوڑی بہت تاخیر ہوئی اس کی وجہ ملک کو درپیش بھاری قرضوں جیسے مسائل تھے، تاہم اب ہم اس مشکل وقت سے نکل آئے ہیں۔ انہوں نے سعودی عرب کے ولی عہد کے دورہ پاکستان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس دورہ کے نتیجہ میں ملک میں بڑی سرمایہ کاری متوقع ہے جس سے ملک میں روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے، ملک میں سرمایہ بڑھے گا اور ہم قرضے واپس کر سکیں گے۔ اتنے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری وفد کی پاکستان آمد اہم پیشرفت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے غربت میں کمی کے لئے ایک پورا پروگرام ترتیب دیا ہے جو رواں ماہ کے آخر تک پیش کر دیا جائے گا۔ ہیلتھ کارڈ بھی اسی پروگرام کا حصہ ہے اور یہ ایسا پروگرام ہے جو پاکستان کی تاریخ میں کبھی نہیں آیا۔ اس کے تحت تخفیف غربت کے لئے کام کرنے والے اداروں کی کوششوں کو یکجا کر کے غربت کے خاتمے کے لئے اقدامات کئے جائیں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ وہ وفاقی وزیر صحت عامر کیانی کو مبارکباد دیتے ہیں جنہوں نے قبائلی عوام سے کیا گیا ان کا وعدہ پورا کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قبائلی علاقوں کے لئے ہمارا پروگرام صرف تخفیف غربت کے لئے نہیں بلکہ اب ہم ان علاقوں کی ترقی پر توجہ دیں گے، اس سلسلے میں فنڈز جاری کر رہے ہیں جو قبائلی علاقوں میں خرچ ہوں گے، ان سے سکول، ہسپتال، ہیلتھ یونٹس بنائے جائیں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہمیں معلوم ہے کہ ہم نے کہاں کہاں کام کرنا ہے، قبائلی علاقوں کے لوگوں کی مشکلات کا سب سے زیادہ احساس پاکستان تحریک انصاف نے ہی کیا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ وہ اسی لئے آپریشن کے حامی نہیں تھے کہ اس سے سب سے زیادہ مقامی لوگ متاثر ہوتے ہیں، ہم پوری کوشش کریں گے کہ جو مشکلات لوگوں پر آئیں، ان کو دور کیا جائے۔ اس موقع پر وزیراعظم نے قبائلی اضلاع کے مستحق افراد میں صحت انصاف کارڈز تقسیم کئے۔ قبل ازیں وفاقی سیکریٹری برائے نیشنل ہیلتھ، سروسز و ریگولیشنز زاہد سعید نے خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والے قبائلی اضلاع کے مستحقین کے لئے صحت انصاف کارڈز کی سہولت کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ وزیراعظم کی ہدایت پر ان علاقوں کی آبادی کے لئے صحت کارڈز کے حوالے سے شرائط نرم کی گئی ہیں اور ان علاقوں کی تمام آبادی اس سے مستفید ہو سکے گی۔ مستحقین سالانہ 7 لاکھ 20 ہزار روپے تک کا مفت علاج کرا سکیں گے اور اس کے لئے کسی بیماری کی تخصیص نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ پروگرام سے قبائلی اضلاع کے 10 لاکھ سے زائد خاندان مستفید ہوں گے، اس تین سالہ پروگرام پر تقریباً 55 ارب روپے کی لاگت آئے گی۔ انہوں نے کہا کہ صحت انصاف کارڈ کے حامل افراد کو علاج کے بعد ہسپتال سے ڈسچارج ہونے پر 5 دن کی مفت ادویات کی فراہمی کے علاوہ کرایہ کے لئے ایک ہزار روپے نقد بھی دیئے جائیں گے۔ وفاقی سیکریٹری نے کہا کہ پروگرام کی مانیٹرنگ کا نظام وضع کیا گیا ہے، مریضوں کی تمام معلومات دستیاب ہونے کے ساتھ ساتھ نادرا متاثرین سے صحت انصاف کارڈ کی سہولت کے بارے میں ان کی رائے بھی لے گا۔ اس موقع پر گورنر خیبر پختونخوا، وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا، وزرائ، سینیٹرز اور ارکان پارلیمنٹ کے علاوہ دیگر نمایاں شخصیات بھی موجود تھیں۔