اسلام آباد۔31اکتوبر (اے پی پی):وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تاریخی، دیرینہ اور برادرانہ تعلقات ہیں جن کی جڑیں مشترکہ عقیدے، تاریخ اور باہمی تعاون پر مشتمل ہیں، دونوں ممالک مشکل وقت میں ایک دوسرے کے ساتھ ثابت قدمی سے کھڑے رہے، دونوں ممالک سات دہائیوں سے خصوصی رشتہ میں بندھے ہیں، سعودی عرب کا وژن 2030ء منصوبہ پاکستان کو سعودی عرب کے ساتھ نئے پاکستان کے منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کیلئے بات چیت کے مواقع فراہم کرتا ہے۔
اتوار کو سعودی عرب کے الریاض اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان سعودی عرب کو آئی ٹی، انفراسٹرکچر کی ترقی اور زراعت میں اپنی مہارت کا اشتراک کرنے کے علاوہ ہنر مند اور نیم ہنرمند افرادی قوت فراہم کر سکتا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان اور سعودی عرب قیادت کی تبدیلی کی پراوہ کئے بغیر ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ ماضی کے ساتھ ساتھ عصر حاضر میں بھی علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر ہونے والی پیش رفت کے تناظر میں اپنے تعلقات کو تبدیل کرنے کی کبھی نوبت نہیں آئی، دونوں ممالک کے تعلقات میں ثابت قدمی رہی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ یہ رشتہ سات دہائیوں کا ہے ، ہماری یہ شدید خواہش ہے کہ اس تعلق کو ایک گہری ، متنوع اور باہمی سود مند تذویراتی شراکت داری میں تبدیل کیا جائے، ہم تعاون کے نئے اور غیر روایتی شعبوں کو تلاش کر کے تاریخی فوائد کو مستحکم کرنے کیلئے کام کر رہے ہیں،
ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے تجارتی تعلقات اور سرمایہ کاری میں تعاون ہمارے بہترین تعلقات کے مطابق ہو۔ وزیراعظم نے کہا کہ سعودی عرب کے حالیہ دورہ کے دوران انہیں سعودی پاکستان سرمایہ کاری کے پہلے فورم میں شرکت کا موقع ملا جس میں انہوں نے تجارت کے شعبہ میں استعمال میں نہ لائی جانے والی صلاحیتوں کا ادراک کرنے کیلئے دونوں ممالک کے نجی اور کارپوریٹ سیکٹرز کو کاروبار اور سرمایہ کاری میں شامل کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ یہ فورم ہمارے سرمایہ کاری کے تعاون میں نئے دور کا آغاز کرے گا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وژن 2030ء کے تحت مختلف شعبوں میں اصلاحات متعارف کرانے پر سعودی قیادت کو سراہتے ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ ان کے حالیہ دورہ سعودی عرب میں وژن 2030ء کے تحت سرمایہ کاری کے مواقع اقتصادی اور تجارتی تعلقات کو مضبوط بنانے کیلئے مختلف طریقوں پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ موسمیاتی تبدیلی پر سربراہ اجلاس کے حوالہ سے انہوں نے کہا کہ یہ اجلاس موسمیاتی تبدیلی کے چیلنج سے نمٹنے کیلئے سعودی قیادت کے ٹھوس اقدامات کے عزم کو ظاہر کرتا ہے، گرین سعودی انیشیٹو اور گرین مڈل ایسٹ انیشیٹو نہ صرف سعودی عرب بلکہ پورے خطہ میں فطرت اور آب و ہوا کے تحفظ کیلئے قابل ذکر اقدام ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی سے جو خطرہ ہماری زمین کو لاحق ہے وہ حقیقی ہے اور یہ درست سمت میں ٹھوس اقدامات اٹھانے کا وقت ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان میں کلین اینڈ گرین پاکستان اور 10 ارب سونامی ٹری منصوبوں پر کام جاری ہے جو اسی طرز کے منصوبے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ ہماری ترجیحات اور اہداف اس سلسلہ میں ایک دوسرے سے ملتے ہیں، ہم ایک دوسرے کے تجربات سے مستفید ہو سکتے ہیں، موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے کیلئے باہمی تعاون بڑھا سکتے ہیں۔ مسلم امہ کے اتحاد کیلئے پاکستان اور سعودی عرب کے کردار کے حوالہ سے وزیراعظم نے کہا کہ اسلامی سربراہ کانفرنس کے ایک اہم رکن ہونے کی حیثیت سے سعودی عرب نے ہمیشہ مسلم ممالک کے اتحاد اور مسلم دنیا کو درپیش مسائل اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے، 2020ء میں او آئی سی نے متفقہ طور پر اسلاموفوبیا کے حوالہ سے پاکستان کی پیش کی گئی قرارداد کو منظور کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ مغرب میں اسلام کے خلاف بڑھتا ہوا خطرہ عالمی سطح پر تشویش کا باعث ہے،
ہم پرامن بقائے باہمی اور ہم آہنگی پر یقین رکھتے ہیں کیونکہ دہشت گردی کبھی بھی اسلام کا حقیقی چہرہ تھی اور نہ کبھی ہو گی۔ وزیراعظم نے کہا کہ حرمین شریفین کا گھر ہونے کے ناطے سعودی عرب کا مسلم امہ کیلئے قائدانہ کردار فطری ہے، پاکستان اس کے ساتھ تعاون میں سب سے آگے ہو گا، سعودی عرب کی جانب سے مالی معاونت کے حوالہ سے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس مالی معاونت پر سعودی عرب کے مشکور ہیں،
یہ امداد عالمی سطح پر اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کی وجہ سے پاکستان کی ادائیگیوں کے توازن میں مدد کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دیرینہ اور تاریخی برادرانہ تعلقات کی جڑیں مشترکہ عقیدے، تاریخ اور باہمی تعاون سے جڑی ہوئی ہیں، سعودی عرب نے ہمیشہ مشکل گھڑی میں پاکستان کی دل کھول کر مدد کی ہے، سعودی عرب کی جانب سے حالیہ امداد دونوں ممالک کے درمیان ہمہ وقت دوستی کا عزم ہے۔