وزیراعظم عمران خان کا غریبوں کی حالت بہتر بنانے کیلئے پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے پروگرام ”احساس“ کے بارے میں پالیسی بیان

636

اسلام آباد ۔ 8 اپریل (اے پی پی) وزیراعظم عمران خان نے پاکستان کی تاریخ میں غریبوں کی حالت کو بہتر بنانے کیلئے شروع کئے جانے والے سب سے بڑے پروگرام ”احساس“ کے بارے میں اپنا پالیسی بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت اس پروگرام کی کامیابی کیلئے سرکاری، نجی شعبہ اور سول سوسائٹی، مخیر افراد اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سمیت سب کے ساتھ مل کر کام کرنے کی خواہاں ہے تاکہ ہم پاکستان کے عوام کی زندگیوں میں بہتری لانے کیلئے اقدامات کے وعدہ پر عمل کر سکیں اور کروڑوں پاکستانیوں کو غربت کے چنگل سے نکال کر ایک مضبوط، محفوظ اور کامیاب ملک و قوم کی بنیاد رکھ سکیں‘ ”نئے پاکستان کا غریب دوست پروگرام: احساس“ کے عنوان سے 27 مارچ کو شروع ہونے والے پروگرام کا مقصد عدم مساوات میں کمی، انسانی وسائل پر سرمایہ کاری اور پسماندہ اضلاع کی ترقی ہے‘ ’احساس‘ کی تخفیف غربت حکمت عملی کے چار بنیادی ستون ہیں اور یہ 115 پالیسی اقدامات پر مشتمل ہے۔ پیر کو جاری کردہ وزیراعظم کے پالیسی بیان میں اس پروگرام کی اہمیت و افادیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا گیا کہ ”احساس“ کے چار بنیادی اجزاءمیں طبقہ اشرافیہ کے قبضے کا خاتمہ اور حکومتی نظام کو مساوات کے لئے تیار کرنا، معاشرے کے کمزور طبقات کا تحفظ، انسانی وسائل کی ترقی اور ملازمتوں و روزگار کی فراہمی شامل ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ اس پروگرام کا مقصد پسماندہ طبقات کی ترقی بالخصوص خواتین کو با اختیار بنانے کے علاوہ ان کی مالیاتی شمولیت کا فروغ اور عوام کی ڈیجیٹل سروسز تک رسائی کے لئے ڈیٹا اور ٹیکنالوجی جیسے 21 ویں صدی کے جدید طریقوں کو بروئے کار لا کر فلاحی ریاست کی تشکیل ہے۔ اس ضمن میں تخفیف غربت کے لئے انسانی سرمائے کی ترقی پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے اقتصادی نمو اور پائیدار ترقی کے ساتھ ساتھ صحت اور پوسٹ سیکنڈری تعلیم تک رسائی کے لئے مالیاتی رکاوٹوں پر قابو پانے پر بھی توجہ دی جائے گی۔ وزیراعظم نے اپنے بیان میں کہا کہ پروگرام کے اصولوں اور حکمت ہائے عملی میں حکومت کے مختلف شعبہ جات کے اشتراک کار، وفاقی و صوبائی قیادت اور نجی شعبہ کے کردار کو مرکزی دھارے میں لاتے ہوئے مشترکہ کاوشوں کو یقینی بنانا شامل ہے اور اس ضمن میں ایک ایسی حکمت عملی بروئے کار لائی جائے گی جس سے ایک طرف یکساں مواقع پیدا ہوں گے اور دوسری جانب مقامی طور پر متعلقہ جدت کو فروغ ملے گا، روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے اور پروگرام میں اداروں کا استحکام، شفافیت اور بہتر اسلوب حکمرانی کی اہمیت کو بھرپور انداز میں اجاگر کیا گیا ہے۔ یہ پروگرام انتہائی غریب افراد، یتیموں، بیواﺅں، بے گھر افراد، معذوروں، بے روزگاروں، غریب کسانوں، نادار مریضوں، محنت کشوں، کم آمدنی والے طالب علموں اور غریب خواتین کے ساتھ ساتھ بزرگ شہریوں کے لئے بھی ہے۔ یہ منصوبہ ان پسماندہ علاقوں کے بارے میں ہے جہاں غربت بہت زیادہ ہے۔ وزیراعظم نے اپنے بیان میں کہا کہ ’احساس‘ کی تخفیف غربت حکمت عملی کے چار ستون ہیں اور اس کے فی الوقت 115 پالیسی اقدامات کی حامل ہے جسے پروگرام کے بارے میں مشاورتی عمل کے ذریعے مزید توسیع بھی دی جا سکتی ہے، ان چار ستونوں میں اشرافیہ کے قبضے کا خاتمہ کرنا اور حکومتی نظام کار کو برابری، آبادی کے پسماندہ طبقوں کے لئے حفاظتی اقدامات، روزگار، ملازمتوں اور انسانی وسائل کی ترقی کے لئے بروئے کار لانا ہے۔ وزیرعظم نے پالیسی کے پہلے ستون، ”اشرافیہ کے قبضے کا خاتمہ کرنا اور حکومتی نظام کو مساوات کے لئے تیار کرنا“ کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی اولین ذمہ داری ہے کہ ان لوگوں کی ضروریات پوری کرے جو پیچھے رہ گئے ہیں اور اشرافیہ کے قبضے کے خلاف حفاظتی اقدامات وضع کئے ہیں جو ٹیکسوں کے نظام، آبی انتظام، فصلوں کے انتخاب، اراضی کے استعمال کی ترجیحات، لیبر لاز اور اس طرح کی دیگر اقدامات سے عیاں ہو۔ اس ضمن میں پہلا ستون 25 پالیسی اقدامات پر مبنی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے ایک نئی آئینی ترمیم متعارف کرائی جائے گی جس میں آئین کے آرٹیکل 38(d) میں ”پالیسی کے اصولوں“ کے حصے کو ”بنیادی حقوق“ کے حصے کے طور پر تبدیل کیا جائے گا، یہ تبدیلی ریاستی ذمہ داری کی حیثیت سے ان شہریوں کے لئے روٹی، کپڑا، مکان، تعلیم اور علاج معالجے کی فراہمی کی حامل ہو گی جو بیماری، بیروزگاری یا کسی اور وجہ سے روزی نہیں کما سکتے۔ وزیراعظم نے کہا کہ سماجی تحفظ پر مصارف میں اضافہ کیا جائے گا، آئندہ بجٹ 2019-20ءمیں سماجی تحفظ کے لئے 80 ارب روپے اضافی رکھے جائیں گے اور آئندہ بجٹ 2020-21ءمیں اس میں مزید اضافہ کیا جائے گا لہذا مجموعی اضافہ بڑھتے ہوئے 120 ارب روپے ہو جائے گا، اس سطح پر سماجی تحفظ اخراجات وفاقی اور صوبائی حصے کے ساتھ جی ڈی پی کا ایک فیصد ہو جائیں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ معاشرے میں موجودہ تفریق کو ختم کرنے کے لئے وزارت برائے سماجی تحفظ و تخفیف غربت ہم آہنگی تشکیل دی جائے گی، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام، پاکستان بیت المال، زکوة، پاکستان تخفیف غربت فنڈ، ٹرسٹ فار والنٹیئری آرگنائزیشنز، سن نیٹ ورک، مرکز برائے سوشل انٹرپرینیورشپ اور تخفیف غربت کو آرڈینیشن کونسل کے سیکرٹریٹس اور مجوزہ لیبر ایکسپرٹ گروپ اس وزارت کے ماتحت ہوں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ون ونڈو سماجی تحفظ آپریشن سماجی تحفظ سے مستفید ہونے والوں کی معاونت کرے گا اور اس سے دہرے پن اور خرابیوں میں کمی آئے گی۔ ہر وزارت کے لئے غریب دوست اہداف اور قابل پیمانہ اشاریئے ہوں گے۔ عبوری فیصلہ سازی کے ذریعے دیگر شعبوں تک وسائل کا رخ موڑنے کی روک تھام کے لئے غریب دوست شعبوں کے لئے وسائل کو مختص کرنے کو ترجیح دی جائے گی۔ وزیراعظم نے اپنے پالیسی بیان میں کہا کہ نئے قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ کے فریم ورک میں ضرورت پر مبنی نظام ہو گا، غربت میں کمی اور عدم مساوات کو دور کرنے پر توجہ دی جائے گی جو نظام میں بہتری کا متقاضی ہے جو شہریوں کے لئے خدمات کے حوالے سے مالیاتی وسائل کی تخصیص کو ریگولیٹ کرے اور صحیح مراعات پیدا کرے۔ اس مقصد کے لئے مشترکہ مفادات کونسل کے ارکان کی حوصلہ افزائی کی جائے گی کہ وہ رقوم کی مختصگی کے فارمولے کو اس طرح بہتر بنائیں کہ تمام پاکستانی شہریوں قطع نظر اس کے کہ وہ کہاں رہتے ہیں، کے لئے یکساں مواقع کی تشکیل کا ہمارا مشترکہ مقصد حاصل ہو۔ وزیراعظم نے کہا کہ تمام صوبائی مالیاتی کمیشنز کی حوصلہ افزائی کی جائے گی کہ وہ بین الصوبائی تفاوتوں کو دور کرتے ہوئے ضرورت پر مبنی نظام پر آئندہ کے ایوارڈز کی بنیاد رکھیں۔ وزیراعظم نے اپنے پالیسی بیان میں کہا کہ اس پہلے ستون کے تحت سرکاری شعبہ کے ترقیاتی پروگرام (پی ایس ڈی پی) میں وسائل کے غریب دوست اثرات زیادہ سے زیادہ ہوں، ہر منصوبے کے لئے کوشش کی جائے گی کہ نجی سرمایہ پیدا ہو تاکہ پی ایس ڈی پی وسائل صرف ایسے منصوبوں پر خرچ ہوں جس سے یکساں طور پر فائدہ ہو۔ اس مقصد کے لئے پلاننگ کمیشن میں منصوبوں کی ترجیح کے تعین کے لئے ایک پالیسی وضع کی جائے گی۔ اضافی وسائل کو متحرک کرنے اور غریب دوست سرمایہ ہائے کاری کی مالیاتی گنجائش پیدا کرنے کے لئے جدت کی حامل فنانسنگ اور جدید مالیاتی نظام نافذ کرنے کے بارے میں ایک کمیٹی بنائی جائے گی۔ رضا کارانہ اخراجات سے متعلق شعبوں میں کارپوریٹ سماجی ذمہ داری پر رہنما اصولوں، ان کو صحیح خطوط پر استوار کرنے، ٹیکس ریبیٹ اور رپورٹنگ پر توجہ دی جائے گی۔ پی سی ون پرفارما میں ایک نیا مینڈیٹری حصہ شامل کیا جائے گا جو غربت اور مساوات پر اس کے اثرات کے حوالے سے ہر پی سی ون میں عیاں ہو گا۔ ایک کمیٹی معاشرے کے کمزور طبقات کے لئے نظام انصاف میں رکاوٹوں کا جائزہ لے گی، آزادانہ نگرانی، شفافیت اور جوابدہی کے فروغ کے لئے ارکان پارلیمنٹ کی طرف سے ترقیاتی اخراجات کے استعمال کے حوالے سے نئی پالیسی رہنمائی کرے گی۔ یہ پالیسی ریاست اور حکومتی عہدیداران کے لئے مفاد کے تصادم کے بارے میں گائیڈ لائن کی حامل ہو گی۔ خط غربت سے زندگی بسر کرنے والوں کے لئے حصہ مختص کرتے ہوئے سرکاری اراضی پر سرکاری ملکیت ہسپتالوں، پارکوں اور ریلوے سٹیشنز پر کھوکھے (کیفے)، چائے خانوں، اخبارات کے سٹینڈز، شو پالشنگ بوتھ مختص کئے جائیں گے۔ اسی طرح ٹاﺅن اور تحصیل کمیٹیوں میں دکانوں کی نیلامی کرتے ہوئے ایسے افراد اس میں حصہ ہو گا، مارکیٹ کمیٹیوں میں ایسے افراد کا حصہ ہو گا، کچی آبادیوں کے رہائشیوں کی رجسٹریشن کی جائے گی تاکہ علاقے کی بعد ازاں کمرشلائزیشن کی صورت میں انہیں شفاف انداز میں شامل کرنے میں سہولت دی جا سکے۔ کمیونٹی کی شریک ملکیت کی پالیسی متعارف کرائی جائے گی جہاں قبضہ مافیا سے زمین آزاد کراتے ہوئے اراضی کی ترقی کی جائے گی۔ کمیونٹی مشترکہ ملکیت کی پالیسی کے تحت حکومت ہنٹنگ پرمٹ دے گی۔ غربت دوست منصوبہ بندی کے لئے حکومت مقامی حکومت کے نظام کو مضبوط بناتے ہوئے مقامی آبادی ضروریات کے مطابق فیصلہ سازی کی حامل ہو گی۔ ”احساس“ پروگرام سے متعلق عوامی بہبود جیسی اطلاعات کے فروغ کے لئے وسیع تر مفت الیکٹرانک میڈیا ایئر ٹائم پالیسی ہو گی۔ وزیراعظم نے کہا کہ شماریات کی ترقی کے لئے قومی حکمت عملی میں مساوات کو تقویت اور شماریات کی دستیابی کے ساتھ ساتھ شماریات کو سیاسی اور دیگر بے جا اثر و رسوخ سے آزاد کرایا جائے گا تاکہ حکومت کے پاس درست، قابل بھروسہ اور بروقت اعداد و شمار دستیاب ہوں اور ثبوت کی ٹھوس اور معتبر بنیاد میسر ہو جو پالیسیاں وضع کرنے اور ان کی جانچ پڑتال میں معاونت کے لئے اہم ہے۔ اعداد و شمار تک رسائی اور شفاف پالیسی متعارف کرائی جائے گی، ڈسٹرکٹ ڈویلپمنٹ پورٹل کے ذریعے ڈیٹا تک آزادانہ رسائی ہو گی جس میں پاکستان کے تمام اضلاع کے غربت اور دیگر سماجی و اقتصادی اشاریئے پالیسی سازوں اور عوام کو دستیاب ہوں گے۔ یہ پورٹل کارکردگی میں فرق کا پتہ چلانے میں معاون ہو گا اور ’احساس‘ کے نفاذ میں جوابدہی کا اہم ذریعہ ہو گا۔ وزیراعظم نے اپنے پالیسی بیان کے دوسرے ستون ”سماجی تحفظ کے اقدامات“ پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں 38.8 فیصد لوگ کسی نہ کسی طرح غربت کا شکار ہیں اور 24.4 فیصد کے پاس اپنی بنیادی غذائی اور غیر غذائی ضروریات پورا کرنے کے لئے رقم نہیں ہوتی۔ حکومت کو ہدف شدہ حکومتی اعانتوں کے ذریعے صحیح صحیح غریب کی نشاندہی کرنے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں کئی اقدامات اٹھائے جا چکے ہیں اور کئی کے حوالے سے منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ جن میں نئی 2019 قومی سماجی و اقتصادی رجسٹری کی تیاری، فالو اپ ریو سروے اور اعداد و شمار کے تجزیہ کے ذریعے قومی سماجی و اقتصادی رجسٹری کی کئی لحاظ سے توثیق، قومی سماجی و اقتصادی رجسٹری کو ”لائیو رجسٹری“ میں تبدیل کرنا شامل ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ سماجی تحفظ کے دو نئے پروگرام ”کفالت اور تحفظ“ متعارف کرائے جا رہے ہیں، یہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) کے ذریعے نافذ کئے جائیں گے۔ کفالت کی وضاحت کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ یہ پروگرام ”ون وومن، ون بینک اکاﺅنٹ پالیسی“ کے ذریعے تقریباً 60 لاکھ خواتین کی مالیاتی و ڈیجیٹل شمولیت کو یقینی بنائے گا۔ ”کفالت“ پروگرام کے تحت 60 لاکھ خواتین کو رقوم کی منتقلی کے حجم میں افراط زر کے مطابق تبدیلی کی جائے گی جبکہ تحصیل کی سطح پر 500 ڈیجیٹل مرکز قائم کئے جائیں گے جہاں حکومتی ڈیجیٹل وسائل کو غریب خاندانوں کو غربت سے نکالنے کے لئے عوام کی بہبود کے لئے قابل رسائی بنایا جائے گا۔ دیہی معاون پروگراموں اور کمیونٹی تنظیموں تک رسائی کو بروئے کار لا کر پاکستان تخفیف غربت فنڈ کے نیشنل پاورٹی گریجوایشن پروگرام کے ذریعے پسماندہ اضلاع میں بی آئی ایس پی سے مستفید ہونے والوں کی گریجوایشن کے لئے پروگرام وضع کئے جائیں گے۔ ”تحفظ“ پروگرام کے تحت غریبوں کو کسی صدمے کی صورت میں مالی تحفظ فراہم کیا جائے گا اور یہ آفات جیسے حالات میں تحفظ فراہم کرنے کے لئے یک وقتی مالی تعاون ہو گا۔ اس پروگرام کے تحت غریب بیواﺅں کو معاونت فراہم کی جائے گی جو بچوں کے لئے کمائی کا کوئی ذریعہ نہیں رکھتیں۔ ”تحفظ“ کے ذریعے قانونی امداد فراہم کی جائے گی جبکہ یتیموں، سٹریٹ چلڈرن، موسمی تبدیلی کے ساتھ نقل مکانی کرنے والے افراد، خواجہ سراﺅں، بچوں اور جبری مشقت کے متاثرین اور روزمرہ اجرت لینے والے ورکرز کے لئے پروگراموں کی کامیابی کے لئے این جی اوز کے ساتھ شراکت داری کی جائے گی۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ”احساس“ کے تحت غریبوں کے لئے ہاﺅسنگ کو بھی خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ 10 ہزار یتیموں کے لئے ”احساس ہومز“، کئی بڑے شہروں میں پناہ گاہیں، سود سے پاک قرضوں کے ذریعے غریبوں اور بے زمین کاشتکاروں کے لئے ہاﺅسنگ سکیمز متعارف کرائی جائیں گی۔ آفات کی صورت میں صحت کے اخراجات پورے کرنے کے لئے بھی تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ اس ضمن میں 33 لاکھ لوگوں کے لئے 38 اضلاع میں صحت انصاف کارڈز جاری کئے جائیں گے۔ متعین کیٹیگریز میں علاج کے لئے مالیاتی تعاون کو یقینی بنایا جائے گا اور ”تحفظ“ کے تحت آفات کی صورت میں صحت کے اخراجات فراہم کئے جائیں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ معذور افراد کے لئے فلاحی پروگراموں کے تحت خصوصی افراد کو وہیل چیئرز، ٹرائی پوڈ، چھڑیاں، بیساکھیاں اور دیگر معاون آلات فراہم کئے جائیں گے۔ نجی سرکاری پارٹنرشپ کے تحت پسماندہ اضلاع میں جسمانی طور پر معذور افراد کے لئے مراکز قائم کئے جائیں گے۔ اسی طرح ضعیف غریبوں کی بہبود کے لئے ایمپلائز اولڈ ایچ بینیفٹ انسٹی ٹیوشن کے ذریعے لیبر پنشن 5250 روپے سے بڑھا کر 6500 روپے کی گئی۔ ای او بی آئی کے ذریعے پنشن کی بائیو میٹرک ادائیگی کے ساتھ ساتھ بیت المال کے ذریعے پانچ بہت بڑے ”احساس ہومز“ قائم کئے جائیں گے۔ وزیراعظم نے لیبر ویلفیئر کے حوالے سے پالیسی بیان میں کہا کہ لیبر ایکسپرٹ گروپ تشکیل دیا جائے گا جو گھریلو ملازموں، زراعت و لائیو سٹاک شعبے، دستکاروں، تعمیراتی ورکرز جیسے غیر رسمی شعبوں میں موجودہ قوانین میں خامیوں اور مسائل کو دور کرنے کے لئے سفارشات وضع کرے گا جس کے نتیجہ میں کم سے کم اجرت اور صحت و تحفظ کے ضابطوں اور دیگر متعلقہ مسائل کو حل کیا جائے گا۔ لیبر ایکسپرٹ گروپ کی سفارشات کے نتیجہ میں غیر رسمی شعبے کے لئے ویلفیئر اور پنشن سکیم کا آغاز کیا جائے گا۔ وزیراعظم نے بیرون ملک کارکنوں کی بہبود کے حوالے سے پالیسی بیان میں کہا کہ کمیونٹی ویلفیئر اتاشیوں کے کردار اور تعداد میں اضافہ اور اس ضمن میں نیک شہرت کے حامل پاکستانیوں کو شریک کرنے کے لئے پالیسی لائی جائے گی۔ امیگرینٹ آفسز کے پروٹیکٹر کی تعداد میں اضافہ کیا جائے گا۔ باہر جانے والے افراد کے لئے روانگی سے قبل معیاری بریفنگ اور بائیو میٹرک حاضری کو یقینی بنانے کا اقدام اٹھایا جائے گا تاکہ یہ کارکن اپنے حقوق اور مراعات سے آگاہ ہوں جو اس بات کو یقینی بنائے گی کہ ان کا انسانی وسائل باہر بھجوانے والے اور آجروں کے ہاتھوں استحصال نہ ہو۔ باہر جانے والے کارکنوں کی سہولت کے لئے ہر قسم کے تقاضوں کے لئے ون ونڈو کی تشکیل کے لئے پروٹیکٹر آف امیگریشن آفسز قائم کئے جائیں گے۔ علاوہ ازیں کارکنوں کے لئے پہلے کنٹریکٹ معاہدے کے دورانیہ کو کم از کم تین سال تک توسیع دینے کے حوالے سے غیر ملکی حکومتوں کے ساتھ بات چیت کی جائے گی کیونکہ غیر ہنر مند کارکن اس عرصہ سے قبل اپنی باہر جانے کی لاگت بمشکل ہی پورا کر پاتے ہیں۔ سات سالوں میں وطن واپس نہ آنے والے بیرون ملک کم آمدنی والے کارکنوں کے لئے ہوائی ٹکٹس پر رعایت کی پالیسی لائی جائے گی۔ وزیراعظم نے انسانی وسائل کی ترقی کے حوالے سے ”احساس“ کے تیسرے ستون ”انسانی وسائل کی ترقی“ پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ انسانی وسائل کی ترقی قوم کی دولت میں نہایت معاون ہوتی ہے، موجودہ ڈیجیٹل دور میں ٹیکنالوجی میں تیز تر ترقی لوگوں پر فوری سرمایہ کاری کی متقاضی ہے تاکہ وہ مستقبل کی معیشت میں مسابقت کی امید ہو۔ انسانی وسائل کی ترقی ابتدائی برسوں میں سرمایہ کاری کو ترجیح دینے کا تقاضا کرتی ہے جس میں غذائی کمی پر قابو پانا پری سکول یا ابتدائی تعلیم، بچوں کو نقصان سے تحفظ فراہم کرنا، معیاری تعلیم تک رسائی کو یقینی بنانا، ہنر اور روزگار، یونیورسل ہیلتھ کوریج کی طویل مدتی وابستگی اور خواتین اور لڑکیوں کو با اختیار بنانے کے اقدامات شامل ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان بچوں میں غذائی کمی کے لحاظ سے بحران کا سامنا کر رہا ہے جس کی وجہ سے بچوں کے قد، دماغ اور دیگر تخلیقی صلاحیتیں متاثر ہو رہی ہیں اور یہ آج کی علم پر مبنی معیشت کے لئے ایک بہت بڑا دھچکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سٹنٹنگ غذائی قلت کا نتیجہ ہوتی ہے اور اس سے بچوں کو کئی اور بیماریاں لاحق ہو جاتی ہیں اور بعد ازاں بڑے ہو کر ہائپر ٹینشن اور ذیابیطس جیسی بیماریوں کا خدشہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ اس سے معاشرتی اور مالیاتی مسائل جنم لیتے ہیں اور خاندان اور ممالک بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔ اس فریم ورک میں غذائی کمی پر قابو پانے کے لئے کئی اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔ بچوں میں سٹنٹنگ کے مسئلے پر قابو پانے کے لئے نیا کمیونٹی اینڈ ہیلتھ و نیوٹریشن اقدام اٹھایا جا رہا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ حکومت کے ہسپتالوں کے ذریعے بچوں کو پیٹ کے کیڑوں سے بچاﺅ، آئرن، فولک ایسڈ اور غذائی سپلیمنٹس فراہم کئے جائیں گے، ماں کے دودھ کی اہمیت کے حوالہ سے شعور اجاگر کیا جائے گا اور عوام میں آگاہی فراہم کی جائے گی۔ وزیراعظم کی نگرانی میں باڈی بنائی جائے گی جو غذائی ضروریات کے حوالہ سے مربوط کام کرے گی۔ قومی سنٹر فار ہیومن نیوٹریشن کے نام سے ملک میں اپنی طرز کا پہلا ادارہ قائم کیا جائے گا۔ غربت میں کمی لانے اور غذائی ضروریات پوری کرنے کیلئے (5 + 1) دیسی مرغیاں فراہم کی جائیں گی۔ دیہی علاقوں میں رہنے والی غریب آبادی کو بکریاں بھی فراہم کی جائیں گی تاکہ وہ اپنا روزگار بھی کما سکیں اور ان کی غذائی ضروریات بھی پوری ہو سکیں۔ کچن گارڈننگ کا پروگرام شروع کیا جائے گا، حکومت ارزاں نرخوں پر بہترین بیج فراہم کرے گی۔ تیل کے ڈبوں کے ساتھ بیجوں کے پیکٹ بھی دیئے جائیں گے۔ یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن کے ذریعے بھی بیج دیئے جائیں گے۔ ایسے بچے جو خوراک اور کمی کا شکار ہیں انہیں خصوصی خوراک فراہم کی جائے گی۔ مضر صحت اور ملاوٹ شدہ دودھ کے مسئلہ سے نمٹنے کیلئے اقدامات کئے جائیں گے۔ وزیراعظم نے غریب عوام کیلئے تعلیم کے شعبہ میں اقدامات کے حوالہ سے بتایا کہ آئین کے آرٹیکل 25 اے کے حوالہ سے عوام میں شعور بیدار کیا جائے گا تاکہ عوام اپنے حق سے آگاہ ہو سکے۔ غریبوں کو واﺅچرز کے ذریعے تعلیم تک رسائی دی جائے گی۔ یہ پروگرام ایسے علاقوں میں شروع کیا جائے گا جہاں سرکاری سکول موجود نہیں ہے لیکن پرائیویٹ سکول کام کر رہے ہیں۔ ایسے علاقے جہاں سرکاری سکول نہیں ہیں وہاں نجی شعبہ کے ذریعے پرائمری اور ثانوی تعلیم کا انتظام کیا جائے گا۔ نیشنل ایجوکیشن فاﺅنڈیشن کے بجٹ میں اضافہ کیا جائے گا اور اس کے ذریعے واﺅچرز سکیم اور دور دراز علاقوں میں تعلیمی سہولیات فراہم کی جائیں گی۔ ای لرننگ کا نظام وضع کیا جائے گا اور مقامی زبانوں میں بھی تعلیم کے مواقع فراہم کئے جائیں گے تاکہ دور دراز اور پھیلی ہوئی آبادیوں میں بھی عوام کی تعلیم تک رسائی ہو سکے۔ پسماندہ اضلاع میں تعلیم کیلئے مشروط کیش ٹرانسفر پروگرام شروع کیا جائے گا۔ سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں لڑکیوں کو تعلیم کا دوسرا موقع فراہم کرنے کیلئے بھی پروگرام شروع کیا جائے گا۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی طرف سے کم آمدنی والے خاندانوں اور پسماندہ اضلاع میں ضرورت کے مطابق انڈر گریجویٹس سکالرشپس دیئے جائیں گے تاکہ کسی قسم کی آمدن، جنس اور علاقہ کی تفریق کے بغیر تعلیم تک قابل طلباءکی رسائی ہو سکے، اس پالیسی کا اطلاق سرکاری شعبہ اور اس پروگرام میں شریک غیر منافع بخش پرائیویٹ شعبہ کے کالجز اور یونیورسٹیوں پر ہو گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ حکومت کی طرف سے فنڈز لینے والے تمام سکولوں کے باہر شفافیت کیلئے پلے کارڈ آویزاں کئے جائیں گے، ہر سکول کے باہر ایک پلے کارڈ آویزاں ہو گا جس پر اس سکول کو ملنے والے بجٹ اور اساتذہ کی تعداد کے حوالہ سے معلومات دستیاب ہوں گی۔ اس کے علاوہ موبائل ایپ کے ذریعے بھی یہ معلومات فراہم کی جائیں گی۔ وزیراعظم نے کہا کہ صحت کے شعبہ میں وفاقی اور صوبائی سطح پر یونیورسل ہیلتھ کوریج پالیسی اختیار کی جائے گی جس میں متعدی اور غیر متعدی بیماریوں اور ماں اور بچہ کی صحت اور ذہنی صحت، خدمات تک جغرافیائی اور مالیاتی رسائی بڑھانے کیلئے جدید ٹیکنالوجی کے ذرائع استعمال کئے جائیں گے۔ اس میں ایسے علاقوں کو ترجیح دی جائے گی جہاں غریب افراد بیماریوں کا زیادہ شکار ہو رہے ہیں۔ صحت سے متعلقہ ریگولیٹری اداروں میں ریگولیٹری کیلئے شفاف اور مربوط اقدامات کئے جائیں گے۔ حکومت کی طرف سے فراہم کی جانے والی صحت کی سہولیات سے آگاہی کیلئے شفاف پلے کارڈ آویزاں کئے جائیں گے، ہر بنیادی طبی مرکز اور ہسپتال کے باہر ایک پلے کارڈ آویزاں کیا جائے گا جس میں حکومت کی طرف سے دیئے جانے والے بجٹ اور سٹاف کی تعداد کے بارے میں معلومات دستیاب ہوں گی۔ اس کے علاوہ موبائل ایپ کے ذریعے بھی یہ معلومات فراہم کی جائیں گی۔ سرکاری ہسپتالوں میں بجٹ بڑھانے کے ساتھ ساتھ اصلاحات کے عمل کو تیز کرنے کیلئے بھی پالیسی لائی جائے گی۔ صحت کے حوالہ سے بہت سی دوسری پالیسیوں پر بھی حکومت کام کر رہی ہے جن میں کوڑا کرکٹ جمع کرنے، انصاف انشورنس کارڈ، صحت کی سہولیات تک مالی رسائی کیلئے تحفظ پالیسی اور غذائی قلت کے مسئلہ سے نمٹنے کیلئے متعارف کرائی جانے والی تمام پالیسیاں شامل ہیں۔ ملازمتوں اور روزگار کے چوتھے ستون کے حوالے سے پالیسی بیان میں وزیراعظم نے کہا کہ روزگار کے مواقع پیدا کرنا حکومت کے وسیع اقتصادی اصلاحات ایجنڈا کے بنیادی مقاصد میں شامل ہے۔ احساس فریم ورک میں ملازمتوں اور روزگار کی ترقی کیلئے محدود وسائل کے باوجود روزگار کے مواقع شامل ہیں۔ نجی شعبہ کی شراکت داری کے ذریعے غربت میں کمی اور اس مسئلہ کا حل تلاش کرنے کیلئے نئی پالیسی لائی جائے گی جس کے تحت دو درجہ بندیاں کی جائیں گی جس سے عوام کی زندگی میں بہتری آئے گی، اس میں سے ایک عوامی بہبود کی حامل ہے جبکہ دوسری درجہ بندی کے تحت پسماندہ علاقوں میں مواقع بڑھانے پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔ اس حکمت عملی سے زرعی اور صنعتی شعبہ میں بہتری لانے اور غربت کے اسباب کو ختم کرنے میں مدد ملے گی۔ غربت کے شکار لوگوں کی آمدن اور ان کی استعداد میں اضافہ کیلئے ٹھیلہ کے روایتی نظام کو استعمال کیا جائے گا، دیہاڑی دار لوگوں کیلئے چھوٹے قرضوں کی سہولت فراہم کی جائے گی تاکہ وہ ماہانہ بنیادوں پر اپنے گھر کا خرچ چلانے کے قابل ہو سکیں۔ ایسے آن لائن پلیٹ فارمز کی نشاندہی کی جائے گی جن کے ذریعے بالخصوص روزانہ اجرت کی بنیاد پر کام کرنے والی خواتین کی مدد کی جا سکے اور وہ باوقار طریقہ سے اپنا روزگار کما سکیں۔ کم لاگت والے انکوبیٹرز کے نئے ماڈلز تیار کئے جائیں گے جو زیادہ فزیکل انفراسٹرکچر پر منحصر نہیں ہوں گے، کوڑا کرکٹ اکٹھا کرنے کیلئے رکشہ کا استعمال کیا جائے گا جس سے روزگار حاصل ہو گا اور اس کے ساتھ ساتھ واٹر اینڈ سینی ٹیشن کے شعبہ میں بہتری آئے گی۔ پینے کے صاف پانی اور زراعت کیلئے استعمال ہونے والے پانی کیلئے جدید طریقوں کو بروئے کار لایا جائے گا۔ دستکاروں اور ہنرمندوں کا فیشن ہاﺅسز سے رابطہ استوار کیا جائے گا تاکہ نہ صرف ان کو روزگار کے مواقع دستیاب ہوں بلکہ ملکی ثقافت کو بھی فروغ حاصل ہو۔ سی پیک کی مغربی راہداری کی یونین کونسلوں میں مقامی کمیونٹی کیلئے انفراسٹرکچر کو ترقی دی جائے گی۔ ایسے ہنرمند جنہوں نے فنی تربیت کے اداروں سے باقاعدہ تربیت حاصل نہیں کی ان کی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کیلئے غیر رسمی شعبہ میں رسمی ادارے قائم کئے جائیں گے۔ ایسے چولہے فراہم کئے جائیں گے جن کے ذریعے خواتین بہتر ماحول میں کھانا پکانا کر سکیں اور ان کی صحت کو خطرات لاحق نہ ہوں۔ عوام کو لٹریچر کی بجائے ایسا ڈیجیٹل مواد فراہم کیا جائے گا جس کے ذریعے انہیں شعور اور آگاہی فراہم کی جا سکے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے ذریعے ایسی پالیسی متعارف کرائی جائے گی جس کے ذریعے مقامی سطح پر غربت کے اسباب کے بارے میں تحقیق اور شواہد جمع کرنے میں مدد ملے اور اس کی روشنی میں متعلقہ مسائل کا مناسب حل تلاش کیا جا سکے۔ ایک پالیسی کے ذریعے مائیکرو فنانس بینکنگ سروسز کو فروغ دیا جائے گا اور اس کے تحت فون بینکنگ کی خدمات فراہم کی جائیں گی، حکومت بلاسود قرضے دے گی۔ اس کے علاوہ زرعی شعبہ میں بھی قرضے فراہم کئے جائیں گے۔ ایسے علاقے جہاں گرڈ سٹیشن سے بجلی دینا مشکل ہے وہاں بجلی کی سہولت فراہم کرنے کیلئے دیگر ذرائع اور طریقے اختیار کئے جائیں گے۔ وزیراعظم یوتھ پروگرام کے تحت سلوشنز انوویشن چیلنج اور پرائز فنڈنگ پالیسی کے سلسلہ میں قرضوں کا ایک خاص حصہ مختص کیا جائے گا۔ حکومت نے تین ایسے شعبوں کی نشاندہی کی ہے جن میں روزگار کے مواقع پیدا کرنے کی زیادہ صلاحیت ہے، اس میں آئی ٹی کا شعبہ شامل ہے، ڈیجیٹلائز حکومت کی اپروچ سے بھی روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ الیکٹرانک ادائیگیوں کی سہولت کے ذریعے فری لانسنگ کو فروغ دیا جائے گا۔ یونیورسل سروس فنڈ کے ذریعے پسماندہ علاقوں میں براڈ بینڈڈ انٹرنیٹ سروسز کی سہولیات فراہم کی جائیں گی اس سے بھی روزگار کے مواقع بڑھیں گے۔ وزیراعظم نے فنی تربیت کے شعبہ میں پالیسی کے خدوخال بیان کرتے ہوئے کہا کہ سکولوں کے نصاب میں فنی تربیت کو شامل کیا جائے گا اور 2 سالہ کالج پروگرام شروع کئے جائیں گے۔ ٹیوٹا میں میٹرک کی بجائے آٹھویں کلاس پاس طلباءکو داخلہ دیا جائے گا اور عمر کی حد 18 سال سے کم کرکے 15 سال کی جائے گی تاکہ میٹرک کے بعد طلباءفوری طور پر داخلہ لے سکیں۔ غیر رسمی شعبہ میں اپرنٹس شپ سے متعلقہ قانون سازی پر نظرثانی کی جائے گی، نیوٹیک کے قانون میں ترمیم کی جائے گی تاکہ ایسے ٹریڈ ٹیسٹنگ سنٹر جو ریگولیشن کے بغیر کام کر رہے ہیں ان کے معیار بہتر کیا جا سکے، نیوٹیک کے بجٹ میں اضافہ کیا جائے گا اور فنی تربیت کے کورسز کو بین الاقوامی طور پر تسلیم کرانے کیلئے فوری اقدامات کئے جائیں گے۔ سمندر پار روزگار کے مواقع کے حوالہ سے آگاہی کیلئے ایک مربوط لیبر مارکیٹ انفارمیشن سسٹم شروع کیا جائے گا تاکہ نوجوانوں کو بیرون ملک مواقع تک رسائی میسر ہو سکے اور ان کا کسی کے ہاتھوں استحصال نہ ہو۔ وزیراعظم نے افرادی قوت کی برآمد کے حوالہ سے پالیسی بیان میں کہا کہ ہمسایہ اور جاپان اور جرمنی جیسے ممالک میں جہاں مواقع دستیاب ہیں وہاں پاکستان سے نوجوانوں کو کھپانے کیلئے خارجہ پالیسی کو بہتر کیا جائے گا۔ بیرون ملک سے 100 ڈالر تک رقم بھجوانے والوں کو موجودہ فیس میں رعایت دی جائے گی۔ وزیراعظم نے غریب کسانوں کے حوالہ سے پالیسی کے خدوخال بیان کرتے ہوئے کہا کہ زمینوں پر کام کرنے والے مزارعوں کیلئے لیبر لاز متعارف کرانے کیلئے لیبر ایکسپرٹ گروپ کام کرے گا اور اس حوالہ سے اپنی سفارشات پیش کرے گا۔ چھوٹے کسانوں کی مدد کیلئے پالیسی وضع کی جائے گی، ایسی پالیسی بنائی جائے گی کہ صرف بڑے کسانوں کو فائدہ نہ ہو بلکہ چھوٹے کسان بھی اس سے استفادہ کر سکیں۔ زرعی آلات کی مقامی طور پر تیاری، ڈرپ ایریگشین اور سولر کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔ جانوروں کی بہتر افزائش نسل اور ان کیلئے خوراک (سائلیج) کی تیاری کو فروغ دیا جائے گا۔ زرعی شعبہ کے حوالہ سے ششماہی رپورٹ تیار کی جائے گی تاکہ بہتر پالیسی کی تیاری میں مدد مل سکے۔ خوراک ذخیرہ کرنے کیلئے سہولیات فراہم کرنے کے ضمن میں پالیسی لائی جائے گی۔ درآمدی ڈیوٹیوں اور ٹیکسوں کو کم کرکے زرعی لاگت میں کمی لائی جائے گی۔ بارانی علاقوں میں لائیو سٹاک اور فشریز کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔ وزیراعظم نے غریب خواتین کی حالت کو بہتر بنانے کیلئے پالیسی کے حوالہ سے کہا کہ احساس پروگرام کا بنیادی مقصد غریب خواتین کی حالت بہتر بنانے کیلئے اقدامات کرنا ہیں، 60 لاکھ خواتین کو کفالت اور تحفظ پروگراموں کے ذریعے مدد فراہم کی جائے گی۔ 50 فیصد سے زائد ایجوکیشن واﺅچرز اور سکالرشپس خواتین کیلئے مختص ہوں گے، انصاف کارڈ ترجیحاً خواتین کی صحت کو بہتر بنانے کیلئے بڑی مدد فراہم کرے گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ غریب خواتین کو صرف صحت و تعلیم نہیں بلکہ اقتصادی طور پر بااختیار بنانے کیلئے ملازمتیں فراہم کرنا ناگزیر ہیں، اس سلسلہ میں لیبر سٹڈی گروپ کے ذریعے حکومت دیہی خواتین کے کام کی شناخت کیلئے راستہ تلاش کرے گا اور انہیں قانون سازی کے ذریعے برابر اجرت کا موقع ملے گا اور گھروں میں کام کرنے والی خواتین کو بھی قانون سازی کے ذریعے تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ پالیسی میں اس امر کو یقینی بنایا جائے گا کہ حکومت کی ہر نئی ہاﺅسنگ سکیم میں خواتین کو گھر کی مشترکہ ملکیت کو یقینی بنایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ پالیسی کی کامیابی کیلئے آبادی پر قابو پانے اور پالیسی پر عملدرآمد کی رفتار کو تیز کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلہ میں گورننس مو¿ثر بنانا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم سیکرٹریٹ کی براہ راست نگرانی میں پاپولیشن ٹاسک فورس کام کرے گی اور خاندانی منصوبہ بندی تک رسائی کو یقینی بنایا جائے گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ سماجی تحفظ کے اداروں کو زیادہ مربوط، متحرک اور مو¿ثر بنایا جائے گا اور ان کے انتظامی میکنزم کو بہتر بنایا جائے گا اور ان میں فراڈ اور کرپشن سے نمٹنے کیلئے اقدامات کئے جائیں گے اور احتساب کیلئے نظام وضع کیا جائے گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ اداروں میں شفافیت لانے اور ان کی کارکردگی بہتر بنانے اور انہیں ذمہ دار ٹھہرانے کیلئے اقدامات کی فوری ضرورت ہے اور احساس پروگرام پر عملدرآمد کی کامیابی کیلئے یہ ناگزیر ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ احساس پاکستان کی تاریخ میں غریبوں کی حالت کو بہتر بنانے کیلئے شروع کیا جانے والا سب سے بڑا اور زبردست پروگرام ہے اور حکومت اس پروگرام کی کامیابی کیلئے سرکاری، نجی شعبہ اور سول سوسائٹی، مخیر افراد اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سمیت سب کے ساتھ مل کر کام کرنے کی خواہاں ہے تاکہ ہم پاکستان کے عوام کی زندگیوں میں بہتری لانے کیلئے اقدامات کے وعدہ پر عمل کر سکیں اور کروڑوں پاکستانیوں کو غربت کی چکی سے نکال کر ایک مضبوط، محفوظ اور کامیاب ملک و قوم کی بنیاد رکھ سکیں۔