اسلام آباد۔13جنوری (اے پی پی):وزیراعظم کے مشیر برائے داخلہ واحتساب بیرسٹر شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی براڈ شیٹ کے کسی نمائندے کے ساتھ کوئی ملاقات نہیں ہوئی، کاوے موسوی سے میری ہی دو ملاقاتیں ہوئیں جو 2019ء میں ہوئی تھیں، کاوے موسوی سے ملاقاتوں کا مقصد جو ان کو رقم دینی تھی اس میں کمی کی کوشش کرنا تھا، براڈ شیٹ کا معاہدہ اس لئے منسوخ کیا کیونکہ ان کی کوششیں کارگر ثابت نہیں ہوئیں، ایک کمیٹی کاوے موسوی کے تمام انکشافات پر تفصیلی غور کرے گی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے بدھ کو نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ کاوے موسوی سے میری دو ملاقاتیں ہوئی ہیں، ملاقات میں بات ہوئی کہ دوبارہ براڈ شیٹ کی خدمات حاصل کی جائیں یا نہ کی جائیں لیکن ہمیں اس میں کوئی خاطر خواہ چیز نظر نہیں آئی تو اس لئے ہمارا براڈ شیٹ کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ اثاثوں کی کھوج سے متعلق کمپنیوں کے ساتھ پاکستان کا تجربہ اچھا نہیں رہا، کاوے موسوی سے ملاقاتوں کا مقصد جو ان کو رقم دینی تھی اس میں کمی کی کوشش کرنا تھا، کاوے موسوی کے ساتھ ملاقات میں ایک بلین ڈالر کے اکائونٹ سے متعلق کوئی بات نہیں ہوئی تھی، کاوے موسوی کو کہا تھا کہ اپنا پروپوزل دیں اور جو ایک بلین ڈالر سے متعلق اکائونٹ کا انکشاف ہے اس سے متعلق ٹھوس ثبوت دکھائیں، براڈ شیٹ کا معاہدہ اس لئے منسوخ کیا کیونکہ ان کی کوششیں کارگر ثابت نہیں ہوئیں۔ انہوں نے کہا کہ براڈ شیٹ کے ساتھ معاہدے میں یہ بات طے تھی کہ اگر ٹارگٹس میں سے کسی سے کوئی ریکوری ہوتی ہے تو اس کا 20 فیصد براڈ شیٹ کو دیا جائے گا، اس لئے براڈ شیٹ کو جو پیسہ دیا گیا ہے وہ کسی ریکوری کا ہی 20 فیصد ہو گا۔ ایک سوال کے جواب میں مشیر داخلہ نے کہا کہ مریم اورنگزیب اور ان کے مالکان شروع دن سے چاہتے ہیں کہ میں استعفی دے دوں لیکن اس کے لئے ابھی ان کو انتظار کرنا پڑے گا، مریم اورنگزیب نے اگر مجھ پر کمیشن کا الزام ثابت نہ کیا تو میں ان کو عدالت لے کر جائوں گا، میرے وکلاء نے مریم اورنگزیب کو قانونی نوٹس بھیج دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں احتساب کا عمل جاری ہے اور احتساب کے عمل پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا، پچھلے دو سالوں میں نیب کی ریکوری 390 ارب کے قریب ہیں جبکہ اس سے پچھلے دس سالوں میں 104 ارب ہے، اینٹی کرپشن کی پچھلے دو سال میں پنجاب کے اندر 106 ارب کی ریکوری ہے جبکہ اس سے پچھلے دس سال میں صرف 3 ارب روپے کی ریکوری ہے، احتساب کا عمل بہتر چل رہا ہے اس لئے ہی اتنی بڑی ریکوریاں کی گئی ہیں۔