وزیراعظم کامعاشی خود کفالت اور مہنگائی میں کمی کے لئے بڑی صنعتوں پر 10 فیصد سپر ٹیکس اور سالانہ 15 کروڑ، 20 کروڑ، 25 کروڑ اور 30 کروڑ روپے سے زائد آمدن پر ٹیکس عائد کرنے کا اعلان، صاحب ثروت افراد قربانی دے کر انصار مدینہ کی یاد تازہ کریں،شہباز شریف

وزیراعظم محمد شہباز شریف کی زیر صدارت ایگریکلچر ٹاسک فورس کا اہم اجلاس

اسلام آباد۔24جون (اے پی پی):وزیراعظم شہباز شریف نے معاشی خود کفالت و خود انحصاری کے حصول اور درپیش چیلنجوں پر قابو پانے کے لئے گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ اور میثاق معیشت کی تجویز کا اعادہ کرتے ہوئے دیتے ہوئے غربت اور مہنگائی میں کمی کے لئے بڑی صنعتوں پر 10 فیصد سپر ٹیکس اور سالانہ 15 کروڑ، 20 کروڑ، 25 کروڑ اور 30 کروڑ روپے سے زائد آمدن والے صاحب ثروت افراد پر ٹیکس عائد کرنے کا اعلان کیا ہے اور کہا ہے کہ ہمیشہ مشکل وقت اور چیلنجوں میں غریب آدمی نے قربانی دی، آج صاحب ثروت افراد کو قربانی دینا ہو گی،

ریاست کی ذمہ داری ہے کہ امراء سے ٹیکس لے کر غریبوں پر خرچ کرے، آئندہ مالی سال کا بجٹ معاشی صورتحال کو مستحکم کرنے کا بجٹ ہے، دن رات محنت کر کے ہچکولے کھاتی معیشت کو پار لگائیں گے، مختلف مدات میں سالانہ تقریباً دو ہزار ارب روپے کا ٹیکس غائب ہو جاتا ہے، ٹیکس وصولی میں اضافے اور ٹیکس چوری روکنے کے لئے جدید ٹیکنالوجی استعمال کی جائے گی، غربت، بے روزگاری اور نفرتوں کی دیوار گرانا ہو گی۔

جمعہ کو یہاں ملکی معاشی صورتحال سے متعلق اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ سابق حکومت کی ناتجربہ کاری اور کرپشن سے ملکی معیشت کو بہت نقصان ہوا اور بدترین کرپشن کی گئی، مختلف فیصلوں میں تاخیری حربے استعمال کئے جاتے رہے، معیشت دیوالیہ ہونے جا رہی تھی لیکن ہمارے اقدامات سے پاکستان دیوالیہ ہونے کی صورتحال سے بچ جائے گا اور ملک میں ترقی و خوشحالی کا انقلاب آئے گا،

وزیراعظم نے اس ضمن میں فیصلوں پر قوم کو اعتماد میں لیتے ہوئے کہا کہ غربت کم کرنے کے لئے بڑی صنعتوں پر 10 فیصد سپر ٹیکس لگا رہے ہیں، ان صنعتوں میں سیمنٹ انڈسٹری، سٹیل، شوگر انڈسٹری، تیل و گیس، کھاد، ایل این جی ٹرمینل، بینکاری صنعت، آٹوموبیل، سگریٹ انڈسٹری، کیمیکلز و بیوریجز پر 10 فیصد سپر ٹیکس لگے گا۔ انہوں نے کہا کہ سگریٹ انڈسٹری میں 60 فیصد غیر رسمی شعبہ سے ٹیکس جمع ہوتا ہے لیکن 40 فیصد ٹیکس وصول نہیں ہو پاتا،

ریاست کی ذمہ داری ہے کہ امراء سے ٹیکس لے کر غریبوں پر خرچ کرے،انہوں نے کہا کہ غربت میں کمی کے لئے صاحب ثروت افراد پربھی ٹیکس لگانے کی تجویز ہے، جن افراد کی سالانہ آمدنی 15 کروڑ روپے سے زائد ہے ان پر ایک فیصد، 20 کروڑ سے زائد آمدن پر 2 فیصد، 25 کروڑ روپے سے زائد آمدن پر 3 فیصد اور 30 کروڑ روپے سے زائد آمدن پر 4 فیصد ٹیکس لگایا جا رہا ہےتمام متعلقہ اداروں اور حلیف جماعتوں کے ساتھ مل کر ٹیکس چوری پر قابو پائیں گے،

سالانہ تقریباً دو ہزار ارب روپے کا مختلف مد میں ٹیکس غائب ہو جاتا ہے، ٹیکس وصولی میں اضافہ کرنا وزیراعظم سے لے کر وفاق اور صوبوں تک تمام اداروں کی ذمہ داری ہے، ٹیمیں بنا دی گئی ہیں، بجٹ کے بعد وزارت خزانہ، ایف بی آر، ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن سمیت تمام اداروں کے ذریعے جدید ٹیکنالوجی استعمال کر کے ٹیکس وصولی کی جائے گی۔انہوں نے کہا کہ معاشی ترقی اور غریبوں کی حالت بدلنے کے لئے جو اقدامات کئے جا رہے ہیں، اس سے قومی خزانے میں بہتری آئے گی، غریبوں کی زندگی میں آسودگی ہو گی،

بے روزگاری اور معاشی بدحالی کا خاتمہ ہو گا اور معاشی خود انحصاری اور خود کفالت حاصل ہو گی، یہ معاشی خود انحصاری اور خود کفالت کی طرف پہلا قدم ہے۔انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات ہوئے ہیں اور اگر کوئی مزید شرط نہ عائد ہوئی تو ہمارا معاہدہ ہو جائے گا، پاکستان کو سنگین خطرات سے بچانے کے لئے قومی اتحادی حکومت کے رہنمائوں نے مل کر جرأت مندانہ فیصلے کئے ہیں، مختصر مدت کے لئے مشکلات آئیں گی لیکن ان فیصلوں سے مشکلات سے نکل آئیں گے اور پاکستان قائداعظم کی متعین کردہ منزل کی طرف رواں دواں ہو گا۔

وزیراعظم نے کہا کہ حکومت سنبھالنے کے بعد ہمارے پاس دو راستے تھے، ایک انتخابی اصلاحات کر کے انتخابات کی طرف چلے جائیں اور دوسرا راستہ یہ تھا کہ سخت فیصلے کریں اور ڈوبتی معیشت کو سنبھالا دیں، پہلا راستہ آسان تھا، سیاسی ساکھ بھی بچا لیتے لیکن ملک اور عوام کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا اور خود غرضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خاموش تماشائی بن جاتے لیکن ضمیر کی آواز ہمیں پکار پکار کر کہہ رہی تھی کہ ایسا کرنا 22 کروڑ عوام سے زیادتی ہو گی اور تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی، اس لئے قومی سیاسی قیادت اور میاں نواز شریف نے مشاورت کے بعد فیصلہ کیا کہ یہ وقت سیاست کو نہیں ریاست کو بچانے کا ہے اور جرأت مندی سے آگے بڑھیں گے، دن رات محنت کر کے ہچکولے کھاتی معیشت کو پار لگائیں گے۔

وزیراعظم نے کہا کہ یہ ہمارا پہلا بجٹ ہے جو درحقیقت پاکستان کی معاشی صورتحال کو مستحکم کرنے کا بجٹ ہے اور اس کا مقصد غریب عوام، بیوائوں اور یتیموں کو مہنگائی کے بوجھ سے نکالنا اور حالات کی غیر معمولی سختیوں سے بچانا ہے، زندگی میں مشکلات آتی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ کریں اور سخت محنت کو شعار بنا لیں تو کوئی مشکل مشکل نہیں رہتی۔

انہوں نے کہا کہ بجٹ اقدامات سے غریبوں کے کندھوں سے بوجھ کو کم کیا جائے گا، صاحب ثروت افراد سے قوم توقع کرتی ہے کہ آگے بڑھ کر دکھی انسانیت کا ہاتھ تھام لیں اور ملک کو باوقار اور ترقی یافتہ ملک بنانے کے لئے دولت کا کچھ حصہ تقسیم کریں، انصار مدینہ کی یاد تازہ کریں، تاریخ گواہ ہے کہ ہمیشہ مشکل وقت اور چیلنجوں میں غریب آدمی نے قربانی دی، آج صاحب ثروت افراد کو قربانی دینا ہو گی۔ امید ہے کہ وہ اس عظیم کام میں اپنا ہاتھ بٹا کر سخاوت کا مظاہرہ کریں گے،

پہلا بجٹ ہے جس میں اکنامک وژن دیا گیا ہے، اس پر وزیر خزانہ، وزیر تجارت، وزیر بجلی، وزیر پٹرولیم، معاشی ٹیم، ہمارے قائدین، نواز شریف، آصف علی زرداری، بلاول بھٹو زرداری، مولانا فضل الرحمن، ایم کیو ایم، باپ پارٹی اور اے این پی کا بھرپور تعاون حاصل رہا ہے، یہ معاشی وژن ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرے گا اور مہنگائی کا طوفان روکنے میں مدد دے گی۔ وزیراعظم نے کہا کہ وہ سبز باغ نہیں دکھائیں گے، معاشی خود مختاری کے لئے جان کی بازی لڑا دوں گا اور اس خواب کی تعبیر حاصل کرنے کے لئے کوششیں کریں گے جس کے لئے پاکستان معرض وجود میں آیا اور لاکھوں لوگوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا، بدقسمتی سے 75 سال میں وہ خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوا لیکن ہمت ہارنے اور رونے دھونے کی بجائے یکسوئی، یگانگت اور اتفاق رائے سے تمام جماعتوں، افرادی، اداروں اور بحیثیت معاشرہ اپنی تقدیر بدلنا ہو گی، روکھی سوکھی مل کر کھانا ہو گی، مشکل کے بعد آسانی آئے گی اور پاکستان اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کر لے گا۔

انہوں نے کہا کہ صاحب ثروت افراد پر ٹیکس سے جو وسائل حاصل ہوں گے، وہ تعلیم، علاج معالجے، ادویات کی فراہمی اور ہنرمندی کی تربیت کے لئے خرچ کئے جائیں گے، اگر ہم ٹیکس جمع نہیں کریں گے تو پھر قرضہ لینا پڑے گا، ٹیکس وصولی سے ہی اقتصادی خود مختاری حاصل ہو گی، خود کفالت کے بغیر کوئی قوم آزادی حاصل نہیں کر سکتی، پاکستان ایک ایٹمی قوت ہے، ذوالفقار علی بھٹو نے اس کی ابتداء کی اور نواز شریف کو موقع ملا کہ انہوں نے ملک کو ایٹمی طاقت بنا دیا، اس میں عوام کا پیسہ شامل ہے اور افواج پاکستان کی خدمات ہیں، بدقسمتی سے ایٹمی قوت ہونے کے باوجود ہم معاشی طور پر کمزور ہیں،

اس معاشی کمزوری کو دور کرنے کے لئے قومی وسائل جمع کرنے کی ضرورت ہے، آپس کی لڑائی ختم کر کے غربت میں کمی، قرضوں سے نجات، معیشت کو مضبوط بنانے اور توانائی کی دستیابی کے لئے جنگ لڑتے تو آج ملک کی یہ حالت نہیں ہوتی، ہمیں غربت، بے روزگاری اور نفرتوں کی دیوار گرانا ہو گی اور آپس میں محبتوں کے پھول بانٹ کر کانٹوں سے چھٹکارہ پانا ہو گا اس کے لئے گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ اور میثاق معیشت کی ضرورت ہے، قوم اکٹھی ہو کر فیصلے کرے کہ حکومت کوئی بھی آئے یا جائے ملکی پالیسیوں میں تبدیلی نہیں ہونی چاہیے، پاکستان کے حالات ضرور بدلیں گے