اسلام آباد ۔ 13 جون (اے پی پی) وزیراعظم کے مشیربرائے خزانہ ومحصولات ڈاکٹرعبدالحفیظ شیخ نے کہا ہے مالی سال 2020-21ءکیلئے وفاقی بجٹ میں مشکل حالات کے باوجود کوئی نیا ٹیکس عائد نہیں کیا ہے، قرضہ لینے کاکوئی شوق نہیں، ماضی کی حکومتوں کے قرضوں اورسود کی ادائیگی کیلئے نئے قرضے لئے جارہے ہیں، نئے مالی سال میں 1600سے زائد اشیاء پر ڈیوٹی کو ختم کیا گیا، کاروباری لاگت کو کم کرنے کیلئے کئی اقدامات کئے گئے ہیں، نئے مالی سال میں 200 ٹیرف لائنز پر ڈیوٹی کو کم کیا جا رہا ہے، 166ٹیرف لائنز پر ریگولیٹری ڈیوٹی کم کی گئی ہے ، امپورٹ پر ودہولڈنگ ٹیکس کو کم کیا جا رہا ہے، سیمنٹ پر ایکسائز ڈیوٹی میں 25 روپے کمی کرنے کی تجویز دی گئی ہے، تعمیرات کے شعبے کیلئے ٹیکسوں کو نصف کر دیا گیا ہے، پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی کی شرح بدستور30 روپے فی لیٹر ہے اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے ، پاکستان اورآئی ایم ایف کے درمیان اچھے تعلقات ہیں۔ ہفتہ کو یہاں وفاقی وزیرصنعت وپیداوارحماداظہر، وزیراعظم کے مشیر برائے تجارت وسرمایہ کاری عبدالرزاق داﺅد، چئیرپرسن ایف بی آر ڈاکٹرنوشین جاویدامجد، سیکرٹری خزانہ نویدکامران بلوچ اور ایف بی آر کے ممبران لینڈریونیو ڈاکٹرحامد عتقیق سرورکے ہمراہ بعد از بجٹ پریس کانفرس میں ڈاکٹرعبدالحفیظ شیخ نے کہاکہ موجودہ حکومت کو آغاز سے ہی ماضی کی حکومتوں کی جانب سے لئے گئے 30 ہزارارب روپے کے قرضوں کا سامنا تھا، موجودہ حکومت نے پہلے سال میں 5 ہزارارب روپے کا بیرونی قرضہ اداکیا، جاری مالی سال میں 2700 ارب روپے کی بیرونی قرضہ کی ادائیگی کی گئی۔ حکومت کی کارگردگی کا جائزہ لیتے ہوئے ان امورکونظراندازنہیں کرنا چاہئیے، اگر ہمارا ہماراکل ریسورس بجٹ 2000 ہزار ارب روپے ہو اورہم قرضوں اورسود کی ادائیگی میں 2700 ارب واپس کررہے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ یہ حکومت کی ایک بڑی کامیابی ہے۔ انہوں نے کہاکہ موجودہ حکومت نے اخراجات پرقابوپانے کے ضمن میں سخت پالیسی اپنائی ہے، گزرے سال میں سٹیٹ بینک سے ایک ٹکہ کا قرضہ نہیں لیا گیا، اسی طرح کسی ادارے کو ضمنی گرانٹ جاری نہیں کی گئی ، پہلی بارہم پرائمری بیلنس کے سرپلس میں گئے ہیں یعنی حکومت کے اخراجات آمدنی سے کم رہے ہیں۔انہوں نے کہاکہ موجودہ حکومت نے ٹیکس وصولیوں کے نظام کی بہتری، ٹیکس کی وسعت میں اضافہ اور ٹیکس نظام کوآسان بنانے کیلئے اقدامات کئے ، ان اقدامات کی وجہ سے ٹیکس وصولیوں کی شرح میں 17 فیصد اضافہ ممکن ہوا، اس میں مزید اضافہ بھی ہوسکتا تھا تاہم حکومت نے جان بوجھ کردرآمدات کی حوصلہ شکنی کی جس سے درآمدات سے حاصل ٹیکسوں میں کمی کا سامنا کرنا پڑا۔انہوں نے کہاکہ حکومت کو آغازسے ہی زرمبادلہ کے کم ذخائر کے مسئلہ کا سامناتھا، درآمدات پر زرمبادلہ کا حجم برآمدات سے دوگناسے بھی زیادہ تھا، اس کی وجہ سے حسابات جاریہ کا خسارہ 20 ارب ڈالر کے قریب پہنچ گیا تھا حکومت نے اس ضمن میں جامع اقدامات کئے، برآمدات میں اضافہ کیلئے کوششیں کی گئی، حکومت کی کوششوں سے حسابات جاریہ کا خسارہ 20 ارب ڈالرسے کم کرکے تین ارب ڈالر کی سطح پرلایا گیا، یہ ایک بڑی کامیابی ہے۔ آئی ایم ایف ، موڈیزاور دوسرے عالمی اداروں نے پاکستان کی کارکردگی کو سراہا ہے۔ انہوں نے کہاکہ نئے مالی سال کیلئے وفاقی بجٹ ایک ایسے موقع پرپیش کیاجارہا ہے جب ملک کورونا وائرس کی عالمگیر وبا کی وجہ سے کئی مسائل کا شکارہے، اس ضمن میں نئے وفاقی میزانیہ میں کورونا وائرس کی وبا کے اثرات سے نمٹنے کے ساتھ ساتھ عوام کو ریلیف دینے پر بھی توجہ دی گئی ہے، کورونا وائرس کی وبا سے پہلے براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں137فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ یہ وبا ایک ایسی حقیقت ہے جس نے عالمی معیشت کو متاثر کیا ہے ، پاکستان بھی متاثرہ ممالک میں شامل ہے۔ اس وبا سے پاکستان کی قومی معیشت کو 3 ہزار ارب روپے نقصان کا اندازہ لگایا گیا ہے ، کورونا وائرس کی وجہ سے ٹیکس آمدن میں 700ارب روپے کی کمی ہوئی ۔ انہوں نے کہاکہ حکومت نے احساس ایمرجنسی کیش گرانٹ اور گندم کی خریداری کیلئے فنڈز مختص کیے ہیں، جس سے معاشرے کے غریب اورکمزورطبقات اورکسانوں وکاشت کاروں کو فائدہ ہوگا۔ زرعی شعبے کی ترقی کیلئے بھی خصوصی پروگرام شروع کیا گیا ہے ، وبا کی وجہ سے کاروباری سرگرمیاں جمود کا شکاررہی جس سے نمٹنے کیلئے کاروباری طبقے کیلئے متعدد اقدامات کیے گئے، مشیر خزانہ کا کہنا تھا کہ نوکریاں پیدا کرنے کےلیے 40 سے 50 ارب کی ڈیوٹیز ختم کی گئی ہیں ، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی مڈل کلاس کی بہتری کیلئے کی ۔حکومت نے عالمی سطح پر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ عوام کو منتقل کیا ہے جس کے معیشت پربتدریج اچھے اثرات مرتب ہوں گے ۔ ڈاکٹرعبدالحفیظ شیخ نے کہاکہ آئندہ مالی سال کے دوران حکومت2900 ارب روپے کے قرضے واپس کر رہی ہے، قرضوں کی واپسی معیشت کو درپیش بہت بڑا چیلنج ہے۔ قرض لینے کا شوق نہیں، ماضی کے قرضوں کی واپسی کیلئے قرض لئے جارہے ہیں۔ بجٹ میں عوامی ریلیف کیلئے اقدامات کا ذکرکرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ مشکل حالات کے باوجود حکومت نے کوئی نیا ٹیکس نہ لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔نئے مالی سال میں 1600سے زائد اشیاء پر ڈیوٹی کو ختم کیا گیا، کاروباری لاگت کو کم کرنے کیلئے کئی اقداما ت کیے گئے ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ نئے مالی سال میں 200ٹیرف لائنز پر ڈیوٹی کو کم کیا جا رہا ہے، 166ٹیرف لائنز پر ریگولیٹری ڈیوٹی کم کی گئی ہے ، امپورٹ پر ودہولڈنگ ٹیکس کو کم کیا جا رہا ہے، سیمنٹ پر ایکسائز ڈیوٹی کم کرنے کی تجویز دی گئی ہے جس سے تعمیرات اور گھربنانے والے لوگوں فائدہ پہنچے گا، تعمیرات کے شعبے کیلئے ٹیکسوں کو نصف کر دیا گیا ہے۔انہوں نے کہاکہ پوائنٹ آف سیل نظام پر ٹیکس کی شرح کو کم کیا ہے اس سے تاجروں کو اس نظام کے تحت لانے کی حوصلہ افزائی ہوگی۔ ڈاکٹرعبدالحفیظ شیخ نے کہاکہ ٹیکس دہندگان پر مزید بوجھ ڈالنے کی بجائے ٹیکس کے دائرہ کار کو بڑھا نے پرتوجہ دی جارہی ہے ۔ بجٹ میں نجی شعبے کیلئے مراعات دی گئی ہیں، حکومت نے ٹیکس لگانے کے بجائے مراعات دینے کو ترجیح دی ہے۔ڈاکٹرعبدالحفیظ شیخ نے کہاکہ لوگوں کیلئے ٹیکس ادائیگی کو آسان بنایا جا رہا ہے، پاکستان میں جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکسوں کی شرح صرف 11فیصد ہے، عوام کی سہولت کیلئے خریداری پر شناختی کارڈ کی شرط کو ایک لاکھ روپے کرنے کی تجویز دی گئی ہے ۔ایک سوال پرانہوں نے کہاکہ جب اشیاءکی قیمتیں بڑھتی ہیں تواس کی زیادہ تکلیف حکومت کو ہوتی ہے، عمران خان کو پاکسان کے عوام نے ووٹ دیا ہے، عوام کی ترقی اورخوشحالی ان کا وژن ہے، نئے مالی سال کیلئے افراط زر کا ہدف ساڑھے 6 فیصد رکھا گیا ہے، عوام کی سہولت کیلئے ریگولیٹری نظام میں تبدیلیاں متعارف کرائی جارہی ہے ۔ انہوں نے کہاکہ ہمیں وباءکی وجہ سے بے روزگار ہونے والوں کی پریشانی کا احساس ہے۔ایک سوال پرانہوں نے کہاکہ پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی کی شرح بدستور30 روپے فی لیٹر ہے اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے اورنہ ہی اس میں تبدیلی کا کوئی ارادہ ہے۔ انہوں نے کہاکہ جب حکومت پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا فیصلہ کررہی تھی تو اس وقت ہمیں بتایاگیا کہ پڑوسی ممالک میں قیمتیں کم نہیں کی جارہی تو پاکستان میں ایسا کیوں ہورہا ہے تاہم یہ وزیراعظم عمران خان کا وژن تھا کہ پٹرولیم کی قیمتیں کم کرکے عوام کو ریلیف فراہم کیا جائے۔انہوں نے کہاکہ حکومت نجکاری کے عمل کو آگے بڑھا رہی ہے، حکومت نے نجکاری کرنے والے اداروں کی فہرست میں مزید 15 نئے اداروں کوشامل کیاگیا ہے، وبا سے قبل دواداروں کی نجکاری کا عمل تیز کردیا گیا تھا۔انہوں نے کہاکہ نجکاری کاعمل جاری رہے گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ نان ٹیکس ریونیو کی مد میں 16 سو ارب حاصل کیے آئی ایم ایف بورڈ نے پاکستان کی کارکردگی کو سراہا، ٹیکس اکھٹا کرنے میں مشکل سے3 ہزار 900 ارب تک پہنچے ، 700 ارب تک ٹیکس ریونیو میں نقصان پہنچا جبکہ کورونا کی وجہ سے ٹرانسپورٹ بند ہوئی، غربت میں اضافہ ہوا ہے۔ تعمیراتی صنعت کیلئے مراعات پرعمل درآمد سے متعلق سوال پرانہوں نے کہاکہ حکومت نے اعلان کردیا ہے اور ان مراعات سے استفادہ کرنے کیلئے نجی شعبہ کی حوصلہ افزائی بھی کررہی ہے۔آئی ایم ایف سے متعلق سوال پرڈاکٹرعبدالحفیظ شیخ نے کہاکہ ایسا تاثردیاجارہا ہے جیسے آئی ایم ایف پاکستان پرظلم کرنے کیلئے بنایا گیا ہو، آئی ایم ایف ایک بینک کی طرح کام کرتاہے، 200 ممالک نے یہ فنڈ قائم کیاہے جس کا مقصد یہ ہے کہ اگرکسی رکن ملک کواقتصادی مسائل کا سامنا ہو توآئی ایم ایف اس کے ساتھ معاونت کرے، آئی ایم ایف پاکستان کو کوئی حکم نہیں دے سکتا، آئی ایم ایف صرف یہ کہتا ہے کہ وسائل کے مطابق اخراجات کریں اوراگرمشکل فیصلے کرنا ہیں تو وہ کریں، آئی ایم ایف اورپاکستان کے اچھے تعلقات ہیں، آئی ایم ایف نے کورونا وائرس کی وبا سے نمٹنے کیلئے پاکستان کو 1.4 ارب ڈالر کی معاونت فراہم کی، پاکستان اورآئی ایم ایف کے درمیان مشاورت کاسلسلہ جاری ہے، اسی طرح کی مشاورت پاکستان ایشیائی ترقیاتی بینک، عالمی بینک اوردیگر بین الاقوامی ترقیاتی شراکت داروں سے کرتا ہے۔