وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے پارلیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان کا افکار صوفیاءکانفرنس سے خطاب

ڈپٹی سپیکر کی رولنگ پر لیے گئے از خود نوٹس پر عدالت عظمی میں آئین اور قانون کے مطابق دلائل دوں گا ، بابر اعوان کی صحافیوں سے گفتگو

اسلام آباد۔14اکتوبر (اے پی پی):وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے پارلیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان نے کہا ہے کہ وطن سے محبت ایمان کا حصہ ہے، ملک کی حفاظت صرف پاک فوج کی نہیں بلکہ یہ ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے کہ وطن کے ایک ایک انچ کا تحفظ یقینی بنائیں، اﷲ کو ماننے والوں کو چاہئے کہ وہ گندم، چینی اور کھجوروں کی ذخیرہ اندوزی سے اجتناب کریں۔ وہ بدھ کو یہاں افکار صوفیاءکانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔ ڈاکٹر بابر اعوان نے کہا کہ عالم اسلام کو اس وقت مغرب کے پروپیگنڈے اور ان کی وہاں سے ہونے والی دل آزاری کے چیلنجز کا سامنا ہے عالمی سطح پر امت مسلمہ کی جانب سے اس حوالے سے کوئی لائحہ عمل تیار نہیں ہو سکا یہ افراد، اشخاص اور عوام کی بات نہیں بلکہ یہ ہمارے ایمان اور عقیدے کی بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ تاریخ میں کسی وزیراعظم نے پہلی مرتبہ رسول کریم سے اپنی محبت اور وارفتگی کا اظہار کرتے ہوئے مغرب سمیت ساری دنیا کو للکارا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وطن سے محبت ایمان کا حصہ ہے وطن سے محبت کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ ہمیں ریاست کے تحفظ کے لئے اپنا اپنا حصہ ڈالنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ ساری دنیا کی معیشتیں گر گئیں اور مغربی ممالک میں فوڈ چین ٹوٹ گئی مگر اﷲ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ کورونا کی صورتحال میں پاکستان میں کوئی بھوکا نہیں سویا۔ ڈاکٹر بابر اعوان نے کہا کہ جس تصوف کی نسبت مدینے سے نہ ہو میری نظر میں وہ تصوف نہیں ہو سکتا۔انہوں نے کہا کہ مدینہ کی ریاست انسٹیٹیوشن کا درجہ رکھتی ہے اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ وطن کے ایک ایک انچ کے تحفظ کے لئے ہم سب کو مل کر اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ صاحب حیثیت لوگوں پر فرض ہے کہ مشکل کی اس گھڑی میں ملک کے لوگوں کی خدمت کرکے اپنی مذہبی اخلاقی اور قومی ذمہ داری پوری کریں، انہوں نے کہا کہ اﷲ کے ماننے والے کو تو یہ چاہئے کہ گندم کھجوروں اور چینی کی ذخیرہ اندوزی نہ کرے اس حوالے سے صوفیاءکرام کی تعلیمات پر ہم سب کو عمل کرنا ہوگا ۔ انہوں نے کہا کہ وطن کی حفاظت صرف فوج کی ذمہ داری نہیں بلکہ یہ ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے کہ ملک کے ایک ایک انچ کے تحفظ کے لئے ہم سب اپنا کردار ادا کریں اور صوفیائے کرام کی تعلیمات پر عمل یقینی بنائیں۔