وفاقی حکومت کی موجودہ پالیسی براہ راست ٹیکس کے غلبہ والے نظام پر مبنی یعنی ایکویٹی کے اصول پر ہے، ٹیکس کا حصہ، ادائیگی کی صلاحیت کے متناسب ہے، ایف بی آر کی وضاحت

110
چیئرمین ایف بی آر

اسلام آباد۔12نومبر (اے پی پی):فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے 11 نومبر 2022 کو پریس کے بعض حصوں میں شائع ہونے والی ”ناقص انکم ٹیکس وصولی” کی سرخی کے ساتھ شائع خبر میں براہ راست ٹیکس اور انکم ٹیکس کی اہمیت کو سراہا اور تسلیم کیا جس کااشارہ مصنف نے کیا ہے، تاہم واضح کیا جاتا ہے کہ ایف بی آر اور وفاقی حکومت کی موجودہ پالیسی بھی براہ راست ٹیکس کے غلبہ والے نظام پر مبنی ہے یعنی ایکویٹی کے اصول پر جہاں ٹیکس کا حصہ، ادائیگی کی صلاحیت کے متناسب ہے جسکے نتیجے میں، براہ راست ٹیکسوں کی وصولی میں مسلسل اضافہ جاری ہے اور رواں سال کے پہلے چار مہینوں کے دوران براہ راست ٹیکس/انکم ٹیکس 886 بلین تک بڑھ گیا ہے جو گزشتہ سال کی اسی مدت کے دوران براہ راست ٹیکسوں کی آمد سے41 فیصد زیادہ ہے۔

ایف بی آر کی طرف سے ہفتہ کو جاری وضاحتی بیان میں کہا گیاہے کہ ٹیکس مکس میں تبدیلی آ رہی ہے اور براہ راست ٹیکس اور بلواسطہ ٹیکس کا تناسب بھی بڑھ رہا ہے۔ نتیجتا رواں سال کے پہلے چار مہینوں کے دوران، مجموعی محصولات میں براہ راست ٹیکسوں کا حصہ ایک دہائی میں پہلی بار41 فیصد سے زیادہ ہو گیا ہے، جو کہ گزشتہ چند سالوں میں36-39 فیصد تھا جیسا کہ مصنف کی طرف سے حوالہ بھی دیا گیا ہے۔بیان میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ، ایف بی آر اس تصور سے اتفاق نہیں کرتا کہ ود ہولڈنگ ٹیکس بالواسطہ انداز میں جمع کیے جاتے ہیں، تاہم ایف بی آر نے گزشتہ چند سالوں کے دوران ودہولڈنگ ٹیکس کی دفعات کو کم کرنے اور ایسے اقدامات متعارف کرانے کی پالیسی اپنائی ہے جو براہ راست امیروں کو نشانہ بناتی ہے۔

یہاں تک کہ، رواں سال کے بجٹ کے دوران، براہ راست ٹیکسوں کے حوالے سے زیادہ سے زیادہ ترامیم پیش کی گئیں۔ ان ترامیم کا مقصد امیروں اور امیر طبقے پر ٹیکس لگانا ہے جس میں سپر ٹیکس، غیر ملکی اثاثوں پر سی وی ٹی ، امیروں کے اثاثوں پر کرائے کی آمدنی اور بینکوں جیسی زیادہ منافع کمانے والی کمپنیوں کے لیے زیادہ شرحیں شامل ہیں۔ صرف ان دفعات سے تقریبا 250 بلین روپے کا محصول پر اثر پڑتا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ ود ہولڈنگ ٹیکس کی بعض دفعات کو ختم کر دیا گیا اور نتیجتا، ڈائریکٹ ٹیکسز میں ود ہولڈنگ ٹیکس کا فیصد حصہ بھی پہلے چار ماہ کے دوران65.8 فیصد رہ گیا جو پچھلے سال کی اسی مدت کے دوران 67.15 فیصد تھا۔ مصنف نے ٹیکس سے جی ڈی پی کے تناسب میں کمی کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔ اگرچہ، ٹیکس سے جی ڈی پی کا تناسب مطلوبہ حد سے کم ہے، لیکن یہ واضح کیا جاتا ہے کہ موجودہ تناسب جی ڈی پی کو 2005-06 کے اعداد و شمار سے 2015-16 کے اعداد و شمار تک دوبارہ رکھنے کی وجہ سے ہے، اس طرح اس پر منفی اثر پڑتا ہے۔ بنیادی سال 2005-06 کے ساتھ، ٹیکس سے جی ڈی پی کا تناسب کم از کم 2 فیصد پوائنٹس زیادہ ہے۔

تناسب کو مزید بہتر بنانے کے لیے، ایف بی آر آئی ٹی/ آٹومیشن اور تھرڈ پارٹی ڈیٹا کی مدد سے ٹیکس کی بنیاد کو بڑھانے کی مسلسل کوشش کر رہا ہے۔ اس سلسلے میں ڈائریکٹوریٹ جنرل آف براڈننگ آف ٹیکس بیس کو گزشتہ ماہ کے دوران فعال کر دیا گیا ہے اور ڈائریکٹوریٹ جنرل آف ڈیجیٹل انوائسنگ اینڈ انالیسس کا قیام عمل میں لایا گیا۔