اسلام آباد۔10جولائی (اے پی پی):وفاقی وزراء اور علماء کرام نے بڑھتی ہوئی آبادی پر قابو پانے کی ضرورت کو اجاگر کرتے ہوئے ملکی ترقی و خوشحالی کیلئے خاندانی منصوبہ بندی، نوجوان خواتین کے لئے معاشی مواقع پیدا کرنے اور بلند شرح پیدائش کی وجوہات سے نمٹنے کی اہمیت پر زور دیا ہے۔جمعرات کو عالمی یوم آبادی کے سلسلہ میں منعقدہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہو مفتی زبیر نے مذہبی نقطہ نظر پیش کرتے ہوئے اس بات کا اعادہ کیا کہ ذمہ دارانہ خاندانی منصوبہ بندی اسلامی تعلیمات کے مطابق ہے۔ انہوں نے خاندانوں خاص طور پر ماؤں اور بچوں کی صحت اور فلاح و بہبود کے تحفظ کے لئے آبادی کے انتظام کی حمایت کرنے والے علمی اتفاق رائے (فتوے) کا حوالہ دیا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ سماجی طرز عمل کی تشکیل اور تولیدی صحت کے اقدامات کی عوامی قبولیت کے لئے عقیدے پر مبنی پیغام رسانی انتہائی اہم ہے۔میکرو اکنامک مضمرات کا ذکر کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اس بات پر روشنی ڈالی کہ کس طرح آبادی میں بے تحاشا اضافہ قومی وسائل، سماجی انفراسٹرکچر اور معاشی استحکام پر دباؤ ڈالتا ہے۔
انہوں نے مالی منصوبہ بندی میں انسانی ترقی کو ترجیح دینے کی ضرورت پر زور دیا اور مستقبل کے بجٹ فریم ورک میں آبادی سے متعلق مختص رقم کو شامل کرنے کے لئے حکومت کے عزم کا اعادہ کیا۔وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی، ترقی و خصوصی اقدامات احسن اقبال نے نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ میں اصلاحات کی تجویز پیش کی تاکہ صوبائی اور ضلعی سطح پر آبادیاتی حقائق کی عکاسی کی جا سکے۔ انہوں نے خواتین کی تعلیم میں سرمایہ کاری کی اہمیت پر زور دیا، نوجوان خواتین کے لئے معاشی مواقع پیدا کرنے اور بلند پیدائش کی وجوہات سے نمٹنے کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے این ایف سی فارمولے کے تحت آبادی کے پیرامیٹرز پر نظر ثانی کے لئے وزیر اعظم کی جانب سے ایک اعلیٰ سطحی سٹیئرنگ کمیٹی کے قیام کا بھی اعلان کیا۔ توقع ہے کہ کمیٹی کا اجلاس آنے والے ہفتوں میں ہوگا۔قومی اسمبلی کے سابق سپیکر راجہ پرویز اشرف نے اس مسئلے کو قومی بحث میں لانے پر وزارت کی تعریف کی۔
انہوں نے پاکستان کے ترقیاتی ایجنڈے میں آبادی کو مرکزی حیثیت دینے کو یقینی بنانے کے لئے کثیر جماعتی اتفاق رائے اور قانون سازی کی ضرورت پر زور دیا۔پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما و رکن قومی اسمبلی خورشید شاہ نے آبادی میں اضافے، جی ڈی پی اور تعلیمی سرمایہ کاری کے درمیان تعلق پر زور دیا۔ انہوں نے اس معاملے پر پارلیمانی بحث پر زور دیا اور آبادی میں اضافے کے انتظام میں بنگلہ دیش کی کامیابی کو پاکستان کے تناظر میں اپنانے کے قابل ماڈل قرار دیا۔یو این ایف پی اے پاکستان کے کنٹری نمائندے لوئے شبانہ نے پاکستان کے آبادی کے پروگراموں کے لئے بین الاقوامی برادری کی حمایت کا اعادہ کیا۔ انہوں نے تولیدی صحت کی خدمات تک رسائی کو بڑھانے، افراد کو باخبر انتخاب کرنے کے لئے بااختیار بنانے اور صحت، حقوق اور ایجنسی کو آگے بڑھانے کے لئے مربوط کوششوں کو مضبوط بنانے کی تجویز پیش کی۔خیبر پختونخوا حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئے وزیراعلیٰ کے معاون خصوصی برائے بہبود آبادی لیاقت علی خان نے صوبوں کے ساتھ وزارت کے مسلسل تعاون کو سراہا۔
انہوں نے طویل مدتی آبادیاتی منصوبہ بندی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے 2050 ء کے تخمینوں کا حوالہ دیا اور وفاقی وزارت خزانہ کی جانب سے ایک مخصوص پاپولیشن فنڈ کے قیام کی تجویز پیش کی۔ انہوں نے اٹھارویں آئینی ترمیم کے مطابق زیادہ سے زیادہ صوبائی اور ضلعی خودمختاری کی بھی تائید کی۔ پارلیمانی امور کے وزیر ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے بڑھتی ہوئی آبادی اور اس سے وابستہ چیلنجز پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے پاکستان کے نوجوانوں کی صلاحیتوں کو اجاگر کرتے ہوئے بنیادی ڈھانچے، روزگار اور شہری سہولیات میں موجود خلا ء کو دور کرنے کی ضرورت پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے سماجی سرمائے کو فروغ دینے، تفریحی اور آگاہی کے اقدامات کو وسعت دینے اور زیادہ باخبر اور لچکدار معاشرے کو فروغ دینے پر زور دیا۔قبل ازیں وفاقی وزیر صحت سید مصطفیٰ کمال نے ورلڈ پاپولیشن کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک قومی مقصد ہے اسی لئے تمام جماعتوں کو آج کی تقریب میں مدعو کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں آبادی میں اضافہ تشویشناک سطح پر ہے۔وزیر صحت نے کہا کہ آبادی کے دباؤ کے باعث ملک میں اڑھائی کروڑ سے زائد بچے سکول سے باہر ہیں جبکہ سرکاری ہسپتالوں کی صورتحال عوامی جلسوں کا منظر پیش کرتی ہے، صحت کا نظام بیماریوں کی روک تھام کی بجائے علاج پر مرکوز ہے۔انہوں نے کہا کہ ملک میں 68 فیصد بیماریوں کی وجہ آلودہ پانی ہے، ملک بھر میں پینے کے پانی میں سیوریج کا شامل ہونا سنگین مسئلہ ہے، پاکستان میں سیوریج ٹریٹمنٹ کا مؤثر نظام موجود نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ دنیا پرہیز کو علاج سے بہتر سمجھتی ہے مگر ہمارے ہاں اس سوچ کا فقدان ہے، ملک میں 40 فیصد بچے خوراک کی کمی کا شکار ہیں۔وزیر صحت نے کہا کہ وزیراعظم نے آبادی میں اضافے کی روک تھام کے لئے نیشنل ٹاسک فورس قائم کی ہے، آبادی پر قابو پانے کے لئے معاشرے کے ہر طبقے کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔وفاقی وزراء اور اعلیٰ سیاسی قیادت نے سید مصطفیٰ کمال اور وزارتِ صحت کے اقدامات کو سراہا۔
تقریب کا اختتام وفاقی سیکرٹری برائے صحت کے کلمات سے ہوا جنہوں نے تمام شرکاء کا شکریہ ادا کیا اور صوبائی حکومتوں، ترقیاتی شراکت داروں اور سول سوسائٹی کے تعاون سے شواہد پر مبنی حکمت عملی پر عمل کرنے کے لئے وزارت کے عزم کا اعادہ کیا۔ انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ آبادی کا انتظام ایک قومی ترقی کی ضرورت ہے جس کے لئے مستقل سیاسی عزم، مناسب وسائل کی تقسیم اور مضبوط عوامی شمولیت کی ضرورت ہے۔وفاقی وزراء اور سینئر سیاسی رہنماؤں کے علاوہ مفتی زبیر سمیت مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علمائے کرام نے بھی شرکت کی ۔وہاں موجود قیادت نے سید مصطفی کمال اور وزارت کی جانب سے اس اہم قومی مسئلے سے نمٹنے کے لئے اٹھائے گئے اقدامات کو سراہا۔