وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات چوہدری فواد حسین کی وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت کابینہ اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ

105
APP42-07 ISLAMABAD: February 07 – Federal Minister for Information and Broadcasting Chaudhry Fawad Hussain addressing a press conference at PID Media Centre. APP photo by Irfan Mahmood

اسلام آباد ۔ 7 فروری (اے پی پی) وفاقی کابینہ نے شہباز شریف کی جانب سے چیئرمین پی اے سی کے عہدے کو بدعنوانی کے مقدمات کے خلاف ڈھال کے طور پر استعمال کرنے پر تشویش کا اظہار کیا ہے، اخلاقی طور پر شہباز شریف کو چیئرمین پی اے سی کے عہدے سے استعفیٰ دینا چاہئے، وفاقی کابینہ نے گذشتہ دو ماہ کے دوران سوئی گیس کی اووربلنگ پر ایکسٹرنل آڈٹ، عبدالرحمن وڑائچ کو ڈیٹ پالیسی آفس کا ڈائریکٹر جنرل، آڈٹ اوور سائیڈ بورڈ کی تشکیل نو اور طارق خان کو بورڈ کا سربراہ مقرر، سیّد وقار الحسن کو ایم ڈی پی ٹی ڈی سی کا تین ماہ کیلئے اضافی چارج دینے کی منظوری جبکہ کرتارپور راہداری میں ڈویلپمنٹ امور کی نگرانی کیلئے گورنر پنجاب کی سربراہی اور روز مرہ کی اشیاءضروریہ اور اجناس کی قیمتوں میں استحکام لانے کیلئے وزیر دفاع پرویز خٹک کی سربراہی میں خصوصی کمیٹیاں قائم کر دی ہیں، وزیراعظم عمران خان نے سی ڈی اے سے وفاقی دارالحکومت کی عمارتوں میں معذور افراد کی رسائی کو یقینی بنانے کیلئے اقدامات بارے رپورٹ طلب کر لی ہے، وزیراعظم عمران خان نے فاٹا کے علاقوں کیلئے عملی اقدامات تیز کرنے پر زور دیا، عدلیہ مکمل آزاد، حکومت اور فوج کے درمیان تاریخ کی بہترین کو آرڈینیشن ہے اور جاری رہے گی۔ جمعرات کو وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات چوہدری فواد حسین نے وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت کابینہ اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ وفاقی کابینہ نے چیئرمین پی اے سی کے عہدے کو شہباز شریف کی جانب سے اپنے کیسز میں ڈھال کے طور پر استعمال کرنے پر سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے، شہباز شریف جب سے پی اے سی کے چیئرمین بنے ہیں وہ اپنے دفتر کے ذریعے نیب کیسز کی تفتیش سے بچ رہے ہیں، اتنے بڑے کرپشن کے کیس کے باوجود شہباز شریف اسلام آباد میں موجود ہیں اور اب کوشش کی جا رہی ہے کہ سعد رفیق کو پی اے سی کا ممبر بنا کر ان کیلئے روزانہ پروڈکشن آرڈر حاصل کیے جا سکیں، اس ساری صورتحال پر شہباز شریف کو چاہئے کہ اخلاقی طور پر چیئرمین پی اے سی کے عہدے سے الگ ہو جائیں۔ انہوں نے بتایا کہ ادارہ برائے شماریات کی جانب سے وفاقی کابینہ کو روزمرہ اشیاءاور اجناس کی قیمتوں میں کمی اور اضافہ کے حوالہ سے تفصیلی بریفنگ دی گئی ہے۔ ادارہ برائے شماریات نے وفاقی کابینہ کو بتایا کہ ادارہ 8 ہزار، 12 ہزار، 18 ہزار، 26 ہزار، 35 ہزار، 39 ہزار، 77 ہزار اور 77 ہزار سے اوپر ماہانہ آمدن کے گروپس بنائے ہیں اور اسی بنیاد پر ان گروپس کی الگ الگ یومیہ رپورٹس تیار ہوتی ہیں۔ ادارہ برائے شماریات نے بتایا کہ نومبر 2013ءمیں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے پہلے 6 ماہ میں مہنگائی میں 5.8 فیصد اضافہ ہوا تھا جبکہ 2018ءمیں پی ٹی آئی کی حکومت کے پہلے 6 ماہ میں مہنگائی میں 1.4 فیصد اضافہ ہوا ہے، اس دورانیہ میں چکن کی قیمت میں 18.85 فیصد کمی، لہسن کی قیمت میں 29.1 فیصد، پیاز کی قیمت میں 51.42 فیصد، چنے کی قیمت میں 29 فیصد اور دیگر دالوں کی قیمتوں میں بھی کمی ہوئی ہے جبکہ ٹماٹر کی قیمت میں 50.60 فیصد اضافہ، سیمنٹ کی قیمت میں 14.6 فیصد اضافہ، ڈیزل کی قیمت میں 18.65 فیصد اضافہ، بجلی کی قیمت میں 8.48 فیصد، مٹن کی قیمت میں 12.4 فیصد، چائے کی قیمت میں 17.29 فیصد اضافہ ہوا ہے، حکومت کے موجودہ اقدامات کی بدولت اب انڈوں اور دیگر اجناس کی قیمتوں میں کمی کا سفر شروع ہو چکا ہے، وزیراعظم عمران خان نے روزمرہ اشیاءضروریہ کی قیمتوں میں استحکام کیلئے وزیر دفاع پرویز خٹک کی سربراہی میں کمیٹی قائم کر دی ہے، یہ کمیٹی ادارہ برائے شماریات کے ساتھ مل کر شماریات کے فارمولے کا ازسرنو جائزہ لے سکے گی جبکہ صارفین کی سہولت کیلئے قیمتوں کے حوالہ سے موبائل ایپ بھی متعارف کرائی جا رہی ہے جس کو صارفین کہیں بھی بیٹھ کر کسی بھی چیز کی قیمت دیکھ سکیں گے، اس طرح گرانفروشی سے بچا جا سکے گا۔ انہوں نے بتایا کہ وفاقی کابینہ نے سوئی گیس کے بلوں میں اضافہ کے معاملہ پر بھی غور کیا ہے۔ کابینہ نے فیصلہ کیا ہے کہ گزشتہ دو ماہ کے دوران ہونے والی بلنگ کا ایکسٹرنل آڈٹ کیا جائے گا اور سوئی گیس کے مقررہ سلیبز کا جائزہ بھی لیا جائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ اس وقت ملکی 23 فیصد آبادی سوئی گیس استعمال کر رہی ہے جبکہ باقی آبادی ایل این جی یا دیگر ذرائع استعمال کر رہی ہے، سابق وزیراعظم شاہد خاقان کی مہربانی سے ہم مہنگی ایل این جی خرید کر عوام کو سستی ایل این جی دے رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم نے وزیر ہاﺅسنگ اینڈ ورکس کو ہدایات دیں کہ وہ اسلام آباد میں وزراءانکلیو سمیت سرکاری رہائش گاہوں پر غیر قانونی قابضین کے خلاف بلا تفریق کارروائی کرتے ہوئے قبضے واگزار کرائے جائیں۔ وزیراعظم نے کابینہ کے اجلاس کے دوران یہ بھی ہدایت دی کہ وزیر تجارت تارکین وطن کے لئے روزگار کے مواقعوں کے لئے نیگیٹو لسٹ جلد تیار کر کے کابینہ کو پیش کریں، اس میں کوشش یہ ہونی چاہیے کہ تارکین وطن کی زیادہ سے زیادہ مہارت سے استفادہ اٹھایا جا سکے، موجودہ حکومت تارکین وطن کی پاکستان میں آ کر خدمت کرنے کی حوصلہ افزائی کرے گی۔ انہوں نے بتایا کہ وفاقی کابینہ نے کرتار پور راہداری میں ڈویلپمنٹ ورکس کی نگرانی کے لئے کمیٹی قائم کر دی ہے جس کے سربراہ گورنر پنجاب ہوں گے، سکھ برادری یہاں پر ڈویلپمنٹ ہوٹلنگ سمیت دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری کرنا چاہتی ہے، ان تمام امور کو یہ کمیٹی دیکھے گی۔ وفاقی وزیر چوہدری فواد حسین نے بتایا کہ وزیراعظم نے کابینہ کے گزشتہ اجلاس میں اسلام آباد کی تمام عمارتوں میں معذوروں کی رسائی کے لئے اقدامات اٹھانے کی ہدایت دی تھی، اس پر آج وزیراعظم نے سی ڈی اے سے رپورٹ طلب کی ہے کہ وفاقی دارالحکومت کی کتنی ایسی عمارتیں ہیں جن میں معذوروں کے لئے رسائی ممکن ہے، جن عمارتوں میں رسائی ممکن نہیں بنائی گئی ان عمارتوں کے مالکان کو بھاری جرمانے کئے جائیں، اس ضمن میں شہریوں سے بھی اپیل ہے کہ وہ عمارتوں میں معذوروں کی رسائی کے حوالے سے کوئی شکایت درج کرانا چاہتے ہیں تو وہ سٹیزن پورٹل پر شکایت درج کرائیں، اس پر فوری کارروائی کی جائے گی۔ انہوں نے بتایا کہ موجودہ حکومت نے غریب ترین شہریوں کو صحت کی بہترین سہولیات دینے کے لئے سات لاکھ بیس ہزار روپے کی انشورنس کے لئے ہیلتھ کارڈ جاری کئے ہیں۔ اس پروگرام کے تحت اب صحافیوں، فنکاروں کو بھی ہیلتھ کارڈ جاری کئے جائیں گے جبکہ دوسرے مرحلے میں تنخواہ دار طبقے کو بھی ہیلتھ انشورنس کے دائرے میں لایا جائے گا۔ وفاقی وزیر چوہدری فواد حسین نے بتایا کہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں فاٹا کے امور پر بھی غور و خوض ہوا، وزیراعظم عمران خان نے ہدایت دی کہ فاٹا کے علاقوں کے لئے عملی اقدامات تیز کئے جائیں، کابینہ کو بتایا گیا کہ فاٹا میں گورنر کے اختیارات اور فاٹا سیکرٹریٹ ختم ہو گیا ہے، وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کو تمام اختیارات سونپ دیئے گئے ہیں، وزیر اعلیٰ فاٹا کے نگران ہیں، وزیر اعظم نے وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کو ہدایت دی ہے کہ وہ فاٹا کے انضمام کے حوالے سے جو بھی خامیاں ہیں وہ فوری طور پر دور کریں، موجودہ حکومت نے فاٹا میں موبائل سروس کی بحالی کا اعلان کیا تھا، وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی نے موبائل سروسز فراہم کرنے والی کمپنیوں سے معاہدہ کر لیا ہے، جلد فاٹا کے عوام بھی باقی ملک کی طرح موبائل فون اور ڈیٹا استعمال کر سکیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ وفاقی کابینہ نے سید وقار الحسن کو ایم ڈی پی ٹی ڈی سی کا تین ماہ کے لئے عارضی چارج دینے کی منظوری دی ہے، حکومت اس شعبہ میں پرائیویٹ سیکٹر سے ماہر کی خدمات لینا چاہتی ہے، ویزہ رجیم نرم کرنے کے بعد پرتگال اور فرانس نے پاکستان کے حوالے سے اپنی ٹریول ایڈوائزری تبدیل کر دی ہے، آنے والے چند دنوں میں آٹھ یورپی ممالک بھی پاکستان کے حوالے سے اپنی ٹریول ایڈوائزری تبدیل کر دیں گے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ کابینہ کے اجلاس میں علیم خان کی گرفتاری اور نیب کے اختیارات کے حوالے سے کوئی بات چیت نہیں ہوئی، موجودہ حکومت نیب کو طاقتور اور مزید فعال بنانا چاہتی ہے، اگر معاملات کو بیلنس کرنے کا تاثر دیا جائے گا تو اس سے اداروں پر اعتماد نہیں رہے گا، موجودہ حکو مت قومی احتساب بیورو کو فعال اور ادارے کو مزید خود مختار بنانے کے لئے ترامیم اور سہولیات فراہم کرنے کے لئے تیار ہے، نیب کی ورکنگ شفاف، فعال اور غیر جانبدار ہونی چاہیے، اسی سے بیلنس کارروائی کا تاثر ختم ہو سکتا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ماضی میں اداروں کے درمیان تناﺅ کی مثالیں موجود ہیں، کلثوم نواز آخری دن تک یہ کہتی رہیں کہ کوئی ڈیل نہیں ہو رہی اور پھر ایک دن پورا خاندان ڈیل کے ذریعے باہر چلا گیا، ماضی میں فوج، عدلیہ اور حکومت الگ الگ سوچ رکھتی تھیں لیکن اس وقت عدلیہ آزاد، فوج اور حکومت کے درمیان بہترین کو آرڈینیشن ہے اور جاری رہے گی۔ ایک سوال کے جواب میں وفاقی وزیر چوہدری فواد حسین نے کہا کہ غربت کے خاتمے کے لئے تخفیف غربت پروگرام متعارف کرایا گیا ہے جس کی سربراہی ثانیہ نشتر کو دی گئی ہے، انہیں یہ ٹاسک دیا گیا ہے کہ وہ غربت کے خاتمے کے لئے اقدامات اٹھانے کے ساتھ ساتھ غربت مٹانے کے اداروں کی تشکیل نو، جامع ڈیٹا کی تیاری، مستحق افراد کے لئے جامع رمضان پیکج تیار کیا جائے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ 2013ءمیں مسلم لیگ (ن) کی حکومت تھی تو سوئی گیس کی دونوں کمپنیاں منافع میں تھیں لیکن وہ جب حکومت چھوڑ کر گئے تو یہ دونوں کمپنیاں 157 ارب روپے کی مقروض تھیں، وفاقی حکومت پانچ ہزار 667 ارب کے محصولات اکٹھی کرتی ہے، ان میں سے 2 ہزار ارب قرضوں پر سود کی ادائیگی جبکہ 1700 ارب دفاعی بجٹ، بجلی کے لئے 1250 ارب کے گردشی قرضوں کے لئے ضرورت ہوتے ہیں، حکومت 632 ارب کے خسارے سے بجٹ بنانا شروع کرتی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سپیکر قومی اسمبلی ہاﺅس کے کسٹوڈین ہیں اور وہ بہترین انداز میں ہاﺅس چلا رہے ہیں، یہ جمہوریت کا حسن ہے کہ مختلف امو پر الگ رائے ہوتی ہے، سپیکر قومی اسمبلی نے تاریخ میں پہلی مرتبہ اپوزیشن کو بھی ریکارڈ موقع دیا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پانچ سابق وزرائے اعظم اپنی کرپشن کی وجہ سے آج نیب میں کیسز بھگت رہے ہیں، عمران خان اور ان کی کابینہ کا دامن بالکل صاف ہے، عمران خان کی قیادت میں حکومت کا کوئی وزیر کرپشن کا سوچ نہیں سکتا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ شہباز شریف کی بطور چیئرمین پی اے سی تقرری سے قبل میری جو رائے تھی، آج بھی وہی رائے ہے کہ وہ بطور چیئرمین پی اے سی نہیں ہونے چاہئیں کیونکہ وہ کرپشن کے کیسز کا سامنا کر رہے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اہم سیاسی گرفتاریوں کے بعد اب سید خورشید شاہ کو بھی اپنی فکر پڑ گئی ہے، اسی لئے وہ بہت باتیں کر رہے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ایکسپو انڈسٹری کو اس لئے سبسڈی دی جا رہی ہے کہ اس سے ملک میں نوکریوں کے مواقع پیدا ہوں، ایکسپورٹ بڑھنے سے ڈالر متوازن ہو، اگر فرٹیلائزر کو ہم گیس فراہم نہیں کریں گے تو اس سے گندم اور سبزیاں مزید مہنگی ہو جائیں گی۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ قومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی) کے افتتاحی اجلاس میں وفاق اور پنجاب نے فاٹا کے لئے کوٹہ دیدیا ہے، باقی صوبے اس پر غور و خوض کر رہے ہیں۔