اسلام آباد۔2فروری (اے پی پی):وفاقی وزیر برائے تعلیم، پیشہ ورانہ تربیت، قومی ورثہ اور ثقافت شفقت محمود کی زیر صدارت کابینہ کمیٹی برائے ادارہ جاتی اصلاحات (سی سی آئی آر ) کا اجلاس کابینہ ڈویژن میں ہوا۔
پریس ریلیز کے مطابق بدھ کو ہونے والے اجلاس میں وفاقی وزیر برائے نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ سید فخر امام، وفاقی وزیر برائے بین الصوبائی رابطہ ڈاکٹر فہمیدہ مرزا اور اسٹیبلشمنٹ کے ایس اے پی ایم محمد شہزاد ارباب نے بھی شرکت کی۔ کامرس ڈویژن نے ایکسپورٹ ڈویلپمنٹ فنڈ (ای ڈی ایف) سے متعلق کمیٹی کو ایک پریزنٹیشن دی جو پارلیمنٹ کے ایک ایکٹ (ای ڈی ایف ایکٹ 1999) کے ذریعے تشکیل دی گئی تھی اور اس ایکٹ کے مطابق ای ڈی ایف کا انتظام بورڈ آف ایڈمنسٹریٹرز کے ذریعے کیا جائے گا،
اس لیے سی سی آئی آر اسکو خود مختار ادارے کی حیثیت دینے کے لئے نوٹی فیکیشن جاری کرنے کی ہدایت کرے ۔ سی سی آئی آر نے اس موضوع پر کابینہ ڈویژن کی رائے لینے کے بعد،
کامرس ڈویژن کو ہدایت کی کہ وہ سی سی آئی آر کو سمری ارسال کریں اور اس کی توثیق کے بعد، ای ڈی ایف کو خود مختار ادارہ کے طور پر نوٹی فیکیشن کیا جائے گا۔ پیٹرولیم ڈویژن نے کمیٹی سے درخواست کی کہ وہ سینڈک میٹل لمیٹڈ پر کمیٹی کے 2019 کے فیصلے پر نظرثانی کرے تاکہ اسے صوبوں کو منتقل کیے جانے والے اداروں کی فہرست میں شامل نہ کیا جائے۔
پیٹرولیم ڈویژن کا موقف تھا کہ ایس ایم ایل ایک پبلک سیکٹر کارپوریٹ ادارہ ہے جو مکمل طور پر جی او پی کی ملکیت ہے اور یہ منصوبہ ابتدائی مراحل سے تجارتی پیداوار کے مرحلے تک وفاقی حکومت کی جانب سے 29 بلین سے زائد کی فنڈنگ سے تیار کیا گیا تھا جبکہ حکومت بلوچستان اس کی وصولی کے لیے تیار نہیں ہے۔ پلاننگ کمیشن کا موقف تھا کہ وفاقی حکومت کسی کمپنی کی مالک نہیں ہو سکتی۔ اس پر فیصلہ مزید غور و خوض کے لیے موخر کر دیا گیا۔
پاکستان ریلویز نے کمیٹی کو ریلوے اسٹیٹ ڈویلپمنٹ اینڈ مینجمنٹ کمپنی کے بارے میں بتایا جو کہ ریلوے ڈویژن کی پبلک سیکٹر کمپنی ہے۔ کمیٹی نے غور کیا کہ آیا ریلوے کی ایک لاکھ اڑسٹھ ہزار ایکڑ اراضی کا انتظام ریڈیمکو کے پاس ہونا چاہیے یا اسے وفاقی حکومت کی طرف سے تمام ریاستی اراضی اور جائیدادوں کے انتظام کے لیے قائم کردہ اتھارٹی کو منتقل کیا جانا چاہیے۔ ریاست کی زمین اور اس کے تجارتی استعمال کے بارے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کا بھی کمیٹی نے جائزہ لیا۔
سی سی آئی آر نے کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے اس معاملے پر وزارت قانون اور پاکستان ریلوے کے درمیان مزید مشاورت کے لیے دو ہفتے کا وقت دیا۔