وفاقی وزیر پٹرولیم ڈویژن عمر ایوب کا ایوان بالا کے اجلاس میں تحریک التواء پر بحث سمیٹتے ہوئے اظہار خیال

119
profile pic

اسلام آباد ۔ 13 مئی (اے پی پی) وفاقی وزیر پٹرولیم ڈویژن عمر ایوب نے کہا ہے کہ اوگرا کی گزشتہ 8 ماہ کے دوران تیل کی قیمتوں میں اضافے کی سفارشات کو حکومت نے نہیں مانا، عوام کو 58 ارب روپے کا ریلیف دیا جو کہ ریکارڈ ہے، ہم پٹرولیم مصنوعات پر سیلز ٹیکس کی شرح 17 فیصد تک لائے ہیں، گزشتہ حکومت سوئی سدرن اور سوئی ناردرن گیس کمپنی کا 230 ارب روپے کا گردشی قرضہ چھوڑ کر گئی جبکہ بجلی کے شعبے میں گزشتہ حکومت کے آخری سال میں 450 ارب روپے کا گردشی قرضہ بڑھا، ہم 2020ء تک اس گردشی قرضے کو ختم کر دیں گے۔ پیر کو ایوان بالا کے اجلاس میں سینیٹر شیری رحمن اور سینیٹر میر کبیر محمد شاہی و دیگر کی تحریک التواء پر بحث سمیٹتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان بیرون ملک سے تیل برآمد کرنے والا ملک ہے، 2014ء میں تیل کی قیمت 27 ڈالر فی بیرل تھی لیکن مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے سیلز ٹیکس کی شرح کم کرنے کی بجائے 56 فیصد سیلز ٹیکس عائد کیا۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ چند روز کے دوران عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمتوں میں اتار چڑھائو آتا رہا ہے، آج پٹرول کی قیمت 72 ڈالر فی بیرل تھی۔ انہوں نے کہا کہ ہم پٹرولیم مصنوعات پر سیلز ٹیکس کی شرح 17 فیصد تک لائے ہیں، گزشتہ 8 ماہ کے دوران اوگرا نے تیل کی قیمتوں میں اضافے کے حوالے سے جو سفارشات پیش کیں، حکومت نے ان سفارشات کو نہیں مانا، عوام کو 58 ارب روپے کا ریلیف دیا جو کہ ریکارڈ ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بھارت، سری لنکا اور بنگلہ دیش کے مقابلے میں تیل کی قیمتیں کم ہیں، متحدہ عرب امارات تیل پیدا کرنے والا ملک ہے لیکن وہاں بھی تیل کی قیمتوں میں بھی اضافہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں شمسی توانائی کے لئے جدید ٹیکنالوجی لا رہے ہیں، اس منصوبے کے لئے 14 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری آئے گی۔ انہوں نے کہا کہ قابل تجدید توانائی کو بروئے کار لا کر انرجی مکس تبدیل کر رہے ہیں، اس وقت انرجی مکس میں قابل تجدید توانائی کا حصہ چار فیصد ہے، ہم 2030ء تک اسے 30 فیصد تک لے جائیں گے، انرجی مکس مقامی وسائل پر منتقل ہونے سے بچت ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ نے کہا ہے کہ ایران پر تیل کی برآمد کی پابندیوں کا استثنیٰ ختم کر رہے ہیں، حکومت کو عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ سمیت تمام چیزوں کو سامنے رکھ کر فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ حکومت سوئی سدرن اور سوئی ناردرن گیس کمپنی کا 230 ارب روپے کا گردشی قرضہ چھوڑ کر گئی جبکہ بجلی کے شعبے میں گزشتہ حکومت کے آخری سال میں 450 ارب روپے کا گردشی قرضہ بڑھا، سابق حکومت نے انتخابات کو سامنے رکھ کر بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کیا۔ وزیر پٹرولیم نے کہا کہ ستمبر 2018ء میں نیپرا نے بجلی کی قیمتوں میں 3 روپے 84 پیسے اضافے کی سفارش کی، وزیراعظم نے ہدایت کی تھی کہ چھوٹے صارفین پر بوجھ نہ پڑے، ہم نے مجموعی طور پر بجلی کی قیمتوں میں 1.27 روپے اضافہ کیا جبکہ 300 سے کم یونٹ استعمال کرنے والے صارفین کے لئے قیمتوں میں اضافہ نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کی ہدایات پر بجلی چوروں کے خلاف سخت کارروائی کی جا رہی ہے، گزشتہ آٹھ ماہ کے دوران بجلی چوروں سے 61 ارب روپے وصول کئے گئے ہیں، ملک میں 8780 فیڈرز ہیں، 80 فیصد فیڈرز کو لوڈ شیڈنگ سے مستثنیٰ کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک بھر میں رمضان المبارک کے دوران سحر و افطار کے اوقات میں کہیں بھی کوئی لوڈ شیڈنگ نہیں ہو رہی، ماضی میں رمضان المبارک کے دوران طویل لوڈ شیڈنگ ہوتی تھی لیکن ہم نے سسٹم کو بہتر بنایا ہے اور عوام کو ریلیف دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 31 دسمبر 2020ء تک 450 ارب گردشی قرضہ ختم کر دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں پٹرولیم مصنوعات کی طلب 84 ملین ٹن ہے جس میں 75 فیصد ضائع ہو جاتا ہے، ہم نے اس ضیاع کو روکنا ہے۔ قبل ازیں بحث میں حصہ لیتے ہوئے سینیٹر میر کبیر محمد شاہی نے کہا کہ مہنگائی میں اضافے کے باعث عوام کی قوت خرید کم ہو گئی ہے۔ سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں اضافے کے تناظر میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ردو بدل کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات سچ ہے، مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے لیکن پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے دور میں مہنگائی زیادہ تھی۔ سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ آئی ایم ایف سے بیل آئوٹ پیکج لینا بڑی غلطی ہے اور ماضی میں بھی یہ قرضہ لینا غلط تھا۔ سینیٹر رخسانہ زبیری نے کہا کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں سے متعلق خصوصی کمیٹی تشکیل دی جائے۔ سینیٹر ستارہ ایاز نے کہا کہ حکومت کو عوام سے کئے گئے وعدے پورے کرنے چاہئیں، کسی کو این آر او نہ دیا جائے لیکن عوام کو ریلیف دیا۔