وفاقی کابینہ نے قومی پالیسی برائے انتظام مہلک فضلہ کی منظوری دے دی ، شیری رحمن کی وفاقی وزیر اطلاعات کے ہمراہ میڈیا بریفنگ

اسلام آباد۔28جون (اے پی پی):وفاقی وزیر موسمیاتی تبدیلی شیری رحمن نے کہا ہے کہ وفاقی کابینہ نے قومی پالیسی برائے انتظام مہلک فضلہ کی منظوری دے دی ہے جس کے تحت پلاسٹک اور دیگر خطرناک الیکٹرانک مواد کی درآمد پر محدود اجازت ہو گی جو باقاعدہ لائسنسز کے ذریعے جاری ہو گی، مہلک فضلہ میں موبائل کی بیٹریاں اور دیگر برقی آلات بھی شامل ہیں، ماحول کو بہتر کرنے کے لئے شہریوں کو اپنی ذمہ داریوں کو نبھانا چاہئے، وفاق اور تمام صوبوں میں موجود انوائرنمنٹ پروٹیکشن ایجنسیز کو فعال کرنا ہو گا، اس کا فریم ورک بننا ہے، نیشنل ایکشن پلان کے تحت آگے بڑھنا ہو گا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے منگل کو کابینہ اجلاس کے بعد وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب، وزیراعظم کے مشیر برائے امور کشمیر و گلگت بلتستان قمر زمان کائرہ کے ہمراہ میڈیا بریفنگ کے دوران کیا۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ خطرناک فضلہ کوتلف کرنے سے متعلق بنائی گئی قومی پالیسی کی وفاقی کابینہ نے اصولی طور پر منظوری دیدی ہے، یہ ایک تاریخ ساز فیصلہ ہوا ہے، پاکستان میں سالانہ 80 ہزار ٹن خطرناک فضلہ بیرون ممالک سے درآمد کیا جاتا ہے جو ری سائیکل کرنے کیلئے استعمال ہوتا ہے، درحقیقت اس میں سے کافی سارا فضلہ ہمارے دریائوں، آبی وسائل اور قدرتی وسائل کو نقصان پہنچا رہا ہے، یہ خطرناک فضلہ انتہائی مہلک اور انسانی صحت کیلئے مضر ہے، اس پالیسی کے تحت تمام صوبوں کے ساتھ تفصیل سے مشاورتی اجلاس کئے گئے ہیں، اگلے مرحلہ میں ایک قومی ایکشن پلان تشکیل دیا جائے گا تاکہ پالیسی پر 100 فیصد عملدرآمد یقینی بنایا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں کل فضلہ کی تعداد 60 ہزار ٹن ہے جبکہ مہلک درآمد شدہ فضلہ اس سے کئی گنا زیادہ ہے، اس پالیسی کی اشد ضرورت تھی جو کافی عرصہ بعد عمل میں لائی گئی۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے بہت سے صنعتی شعبے اور پرائیویٹ ادارے مہلک فضلہ کی درآمد میں ملوث ہیں جس کو باقاعدہ قانونی طور پر ریگولیٹ کرنے کی ضرورت ہے جس کیلئے قومی اور صوبائی سطح پر ماحولیاتی تحفظ کے اداروں کی استعداد کار کو بڑھایا جائے گا اور باقاعدہ طور صوبائی سطح پر قانون سازی کی جائے گی، یہ پالیسی ہمیں جی ایس پی پلس میں مددگار ثابت ہو گی جس سے معیشت پر دور رس نتائج حاصل ہوں گے۔

ایک سوال کے جواب میں وفاقی وزیر نے کہا کہ ہم نے ایک جامع منصوبے کا آغاز کر دیا ہے جس پر اگلے مرحلے میں مزید پیشرفت ہو گی اور وزارت امید کرتی ہے کہ وہ تین ماہ میں نیشنل فریم ورک تشکیل دیدے گی جس کے بعد پالیسی نافذ العمل ہو جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ویسٹ مینجمنٹ سے متعلق ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کر رہے ہیں، خطرناک فضلے کے حوالہ سے ایک منظم اور مربوط پالیسی بنائی ہے، عوام اور ماحول کے تحفظ کیلئے یہ پالیسی بہت ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ ماحول کو بہتر کرنے کیلئے شہریوں کو اپنی ذمہ داریوں کو نبھانا چاہئے۔ اس موقع پر وزیراعظم کے مشیر برائے امور گلگت و بلتستان قمر زمان کائرہ نے کہا کہ پاکستان نے مقبوضہ کشمیر کے عوام کے حق خودارادیت کی ہمیشہ بھرپور حمایت کی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ کابینہ نے آزاد کشمیر میں مقیم مقبوضہ کشمیر کے مہاجرین کی آبادکاری کے لئے بڑا اہم فیصلہ کیا ہے، عارضی پناہ گاہوں میں مقیم 8 ہزار خاندانوں کے لئے گھر بنائے جائیں گے ، پہلے مرحلے میں1300 گھروں کی تعمیر کے لئے کابینہ نے فوری طور پر 3ارب 10کروڑ روپے جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے ، ان گھروں کی تعمیر جلد از جلد شروع کرنے کے لئے فوری اقدامات کئے جائیں گے ، گھروں کی تعمیر کے لئے 40 فیصد زمین کی نشاندہی کر لی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آزاد کشمیر حکومت کے ساتھ مل کر دیگر زمین بھی جلد لوکیٹ کر لیں گے، اس سلسلے میں کشمیر حکومت کو ہر قسم کی سپورٹ فراہم کریں گے ، گھروں کے دوسرے اور تیسرے فیز پر کام بعد میں شروع ہو گا ۔

قمر زمان کائرہ نے کہا کہ 1989 کے بعد مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ظلم و تشدد سے تقریباً 8ہزار خاندان آزاد کشمیر ہجرت کر کے آئے، حکومت پاکستان نے ان خاندانوں کی ہمیشہ سپورٹ کی ہے، ان خاندانوں کے ہر فرد کو ہر ماہ ایک مخصوص فنڈ ملتا ہے ، اس فنڈ میں اضافے کے لئے بھی سمری بھیجی ہے، آزاد کشمیر حکومت سے بھی اس سلسلے میں رابطہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اپنے کشمیری بھائیوں اور بہنوں کی زندگیوں میں آسانی کے لئے بھرپور کوشش کر رہے ہیں ۔ سیکرٹری مذہبی امور نے کہا کہ 24 مئی کو وفاقی کابینہ نے حج پالیسی 2022ء کی منظوری دی تھی، حج پالیسی 2022ء میں کچھ ترامیم تھی جس کی وجہ سے آج دوبارہ وفاقی کابینہ میں گئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ مجموعی طور پر سرکاری حج کوٹہ کے تحت پاکستان کو 81 ہزار 132 عازمین حج کا کوٹہ ملا تھا، اس کوٹہ کو ہم نے وفاقی کابینہ کی منظوری سے حکومت اور پرائیویٹ کمپنیز میں تقسیم کیا تھا، حکومت نے اس میں سے 40 فیصد کوٹہ لیا تھا جبکہ پرائیویٹ کمپنیز کو 60 فیصد کوٹہ دیا گیا تھا، حج آپریشن کے دوران ہمیں کچھ مشکلات پیش آئیں، بینکوں میں جو رجسٹریشن ہوتی تھی اور جو بینک فیس جمع کر رہے تھے اس میں 1400 اووربکنگ ہو گئی جس کی وجہ سے مشکل پیش آئی، یہ غلطی سراسر بینکوں کی تھی، ہم نے انکوائری کرائی جس پر بینکوں نے اپنی غلطی کو تسلیم کیا لیکن لوگوں کو ہم قصور وار نہیں ٹھہرا سکتے تھے اس لئے وزارت نے یہ فیصلہ کیا کہ وزارت کا 1000 کا ہارڈ شپ کوٹہ تھا اس میں ہم نے ان سب کو ایڈجسٹ کر دیا۔