پائیدار ترقیاتی اہداف کے پس منظر میں یونیورسل ہیلتھ کئیر کو یقینی بنانے کیلئے منظور کردہ قرارداد پر عمل درآمد کی ضرورت ہے، پالیتھا ماہی پالا

غیر وابستہ تحریک کے سربراہی سطح کے رابطہ گروپ کا اجلاس ، تحریک کے چیئرمین الہام علیوف کی کووڈ-19 کے باعث دنیا پر پڑنے والے منفی اثرات کے تدارک اور بحالی کیلئے اقوام متحدہ کے اعلیٰ سطحی پینل کے قیام کی تجویز

اسلام آباد۔13ستمبر (اے پی پی):قومی اسمبلی اور بین الپارلیمانی یونین کے اشتراک سے پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول پر ایشیا پیسیفک ریجن کی پارلیمانوں کا تیسرا علاقائی سیمینار ”صحت تک مساوی رسائی کو یقینی بنانے “ کے عنوان سے بریک آئوٹ سیشن منگل کو پارلیمنٹ ہائوس میں ہوا ۔

اس موقع پر عالمی ادارہ صحت کے پاکستان میں ہیڈ آف مشن پالیتھا ماہی پالا نےاظہارخیال کرتے ہوئے کہاکہ پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول کے پس منظر میں یونیورسل ہیلتھ کئیر کو 2030 تک یقینی بنانے کیلئے منظور کردہ قرارداد پر عمل درآمد کی ضرورت ہے۔2030 تک یونیورسل ہیلتھ کئیر تک 5ارب لوگوں کی رسائی کو ممکن بنانا ہوگا۔تمام ممالک کو اپنی جی ڈی پی کا 5 سے 6 فیصد صحت پر خرچ کرنا چاہئے۔

بنیادی اور اہم ہیلتھ سروسز تک سب کی رسائی کو ممکن بنانا نا گزیر ہے۔دنیا کی آدھی آبادی کو صحت کی سہولیات تک رسائی نہیں ہے جو کہ تشویش کی بات ہے۔ کچھ ممالک میں ہیلتھ سروسز کا مہنگا ہونا، سوشل پروٹیکشن کوریج کے حصول میں ایک رکاوٹ ہےتقریبا100 ملین لوگ غربت کی لکیر سے نیچے جا رہے ہیں۔ پاکستان نے قومی اسمبلی کے اندر 2017 میں ایس ڈی جیز پر ٹاسک فورس بنائی جو کہ قابل تعریف اور ترقی پزیر ممالک کیلئے ایک مثال ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں پیرنٹل فیٹیلیٹی ریٹ میں کمی آئی ہے جو کہ خوش آئند ہے لیکن اس شعبے میں مزید محنت کی ضرورت ہے تاکہ اموات کی تعداد کو مزید کم کیا جا سکے۔

پاکستان میں ماہرین کے ذریعے 69 فیصد ڈیلیوریز ہو رہی ہیں جس میں مزید بہتری کی ضرورت ہے۔ کووڈ نے ہیلتھ اور معیشت کو کافی زیادہ متاثر کیا ہے۔موسمیاتی تبدیلی بھی ایک بڑا چیلنج ہے ۔ پلینری سیشن کو بتایا گیا کہ پاکستان میں حالیہ بارشیں اور سیلاب موسمیاتی تبدیلی کا نتیجہ ہے جو باقی ممالک کے لئے عبرت کا نشان ہے۔پاکستان میں سیلاب سے ایک ملین گھروں کو نقصان پہنچا جبکہ لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے۔

ہماری دعائیں اور نیک تمنائیں پاکستان کے ساتھ ہیں۔ معیار زندگی اور یونیورسل ہیلتھ کئیر کو یقینی بنانے کیلئے پرائمری ہیلتھ سروسز کو بہتر بنانا ہوگا۔