پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لئے متفقہ قرارداد کی منظوری

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لئے متفقہ قرارداد کی منظوری

اسلام آباد۔8فروری (اے پی پی):پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لئے متفقہ قرارداد کی منظوری کے موقع پر اراکین پارلیمان نے بھارت کے ظلم و جبر اور استبداد کے خلاف جدوجہد کرنے والے کشمیری مائوں، بہنوں، بیٹیوں، جوانوں اور بزرگوں کی لازوال قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ پوری پاکستانی قوم کشمیری بھائیوں کے شانہ بشانہ ہیں۔ ارکان پارلیمان نے بھارت کے غیر قانونی زیر تسلط جموں و کشمیر کی آزادی کے لئے جامع روڈ میپ وضع کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ بدھ کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں وفاقی وزیر پارلیمانی امور مرتضیٰ جاوید عباسی نے اس حوالے سے قرارداد پیش کی۔

قرارداد پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف راجہ ریاض نے کہا کہ جس طرح پاکستان اور کشمیر کے عوام کشمیریوں کا مقدمہ لڑ رہے ہیں وہ قابل تعریف ہے، مودی سرکار کے مظالم کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے، کشمیر کے معاملہ پر پوری قوم اپنے کشمیری بہن بھائیوں کے ساتھ ہے، میری اپیل ہے کہ کشمیر کے حوالہ سے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد کیا جائے۔ سینیٹر عرفان الحق صدیقی نے کہا کہ قرارداد کے ایک ایک لفظ اور جملے سے پورا اتفاق ہے، کشمیریوں کے ساتھ پوری قوم کا دل دھڑکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ قراردادیں پیش اور منظور کرانے کا سلسلہ برس ہا برس سے جاری ہے، بابائے قوم نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا جس سے ہم پیچھے ہٹ نہیں سکتے۔ انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں بستیاں قبرستانوں میں تبدیل ہو گئی ہیں ، شہادتیں 90 ہزار سے بڑھ گئی ہیں مگر اس کے باوجود ہم عالم اسلام تک کے ضمیر کو بیدار نہیں کر سکے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیریوں کی آزادی کی جدوجہد کو اجاگر کرنے کے لئے لائحہ عمل بھی بنانا چاہیے۔ انہوں نے دنیا میں کشمیریوں پر مظالم اور بھارت کے بھیانک چہرے کو بے نقاب کرنے کے لئے مشترکہ کمیٹی کے قیام کی تجویز بھی دی۔

سینیٹر دنیش کمار نے کہا کہ وہ بی این پی اور بلوچستان کے ایک کروڑ 30 لاکھ شہریوں کی جانب سے قرارداد کی مکمل حمایت کرتے ہیں، 5 فروری کو بلوچستان کے کونے کونے میں کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لئے ریلیاں نکلی ہیں، پاکستان کی کشمیریوں اور کشمیریوں کے پاکستان کے رشتے کو کوئی ختم نہیں کر سکتا، پاکستان کی اقلیتی برادری کشمیریوں کے ساتھ اور شانہ بشانہ ہے۔

سینیٹر مشتاق احمد نے قرارداد پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ وہ قرارداد کی مکمل تائید کرتے ہیں، مقبوضہ کشمیر کی سیاسی قیادت، مائوں، بہنوں، بیٹیوں اوران تمام لوگوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں جو قربانیاں دے کر دنیا کی ضمیر کو جگانے کی کوشش کر رہے ہیں، 13 جولائی 1931ءسے کشمیریوں کی جدوجہد آزادی جاری ہے، 5 اگست 2019ءکے بعد عالمی میڈیا میں کشمیر کے لئے ہالوکاسٹ، فوجی محاصرہ جیسے الفاظ استعمال ہو رہے ہیں۔

بین الاقوامی ادارے اس بات پر متفق ہیں کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں جنگی جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے، اشرف صحرائی کو جیل میں شہید کیا گیا، تہاڑ جیل میں کشمیریوں پر مظالم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں، ایک طرف کشمیریوں پر بدترین مظالم ڈھائے جا رہے ہیں اور جانب بھارت کی طرف سے دھمکیاں بھی دی جاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سابق حکومت نے کرتارپور اور جنگ بندی کے معاہدے اس وقت کئے جب بھارت چین سے مار کھا رہا تھا، یہ معاہدے درست نہیں تھے۔

انہوں نے کہا کہ کشمیر کو بائی پاس کر کے بھارت سے مذاکرات نہ کئے جائیں، آرمی چیف کا لائن آف کنٹرول کا دورہ خوش آئند ہے۔سینیٹر مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا کہ کشمیر کے حوالے سے جے یو آئی (ف) نے ہمیشہ ریاستی پالیسی کی حمایت کی ہے، سابق حکومت نے بڑے شرمناک انداز میں عالمی سطح پر مقبوضہ جموں و کشمیر کے مسئلہ کو پیش کیا، سابق وزیراعظم یہ کہتے تھے کہ مودی آئے گا تو کشمیر کا مسئلہ حل ہو گا حالانکہ نریندر مودی نے اپنی انتخابی منشور میں یہ کہا تھا کہ وہ آئینی ترمیم کے ذریعے مقبوضہ جموں و کشمیر کو بھارت کا حصہ بنائیں گے، بعد میں بھارت نے آئینی ترمیم کے ذریعے مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کر دی، ہمارے سابق حکمران نے کشمیریوں پر مظالم پر خاموشی اختیار کئے رکھی۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ سابق حکمرانوں کو کٹہرے میں لایا جائے۔ غلام علی تالپور نے کہا کہ کشمیر کے حوالے سے ہمیں عالمی قوتوں سے کوئی مدد نہیں مل رہی، کشمیریوں پر مظالم نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے، انہوں نے کہا کہ ہمیں جوش و جذبے اور ایمانی جذبے کے ساتھ اپنے کشمیری بھائیوں کی مدد کرنا ہو گی۔

سپیکر راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ کشمیر کی آزادی کی تحریک کو کوئی نہیں دبا سکتا، پاکستان کے 22 کروڑ عوام اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ چوہدری محمد اشرف نے کہا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان ہی طے ہوا تھا کہ کشمیر پر ریفرنڈم یا استصواب رائے کے ذریعے فیصلہ ہو گا، سابق وزیراعظم کا امریکی صدر کے پاس ثالثی کے لئے پہنچنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔