پاکستان انسٹیوٹ آف ایجوکیشن کی تعلیمی شماریاتی رپورٹ تعلیمی سہولیات کو بہتر بنانے لئے پالیسی سازوں کے لئے ڈیٹا بینک ہے ، سپیشل سیکرٹری وزارت تعلیم محی الدین وانی کا تقریب سے خطاب

142
Special Secretary, Ministry of Education
Special Secretary, Ministry of Education

اسلام آباد۔22جنوری (اے پی پی):وفاقی وزارت تعلیم و پیشہ وارانہ تربیت کے سپیشل سیکرٹری محی الدین وانی نے کہا ہے کہ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ایجوکیشن کی تعلیمی شماریاتی رپورٹ 2021-22 سکول سے باہر بچوں ،تعلیمی سہولیات کو بہتر بنانے لئے موثر اقدامات کے لئے پالیسی سازوں کے لئے ایک ڈیٹا بینک ہے ، سکول سے باہر بچوں کو سکولوں میں لانے کے لئے غربت ، بیماریوں ، سماجی اور معاشرتی مسائل کو حل کرنا ہوگا ،آبادی پر قابو پانے کے لئے تعلیم کے شعبے کا کلیدی کردار ہے ، پاکستان بیت المال ، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی مالی امداد بھی بچوں کو سکول داخل کرانے کے ساتھ مشروط ہونی چاہیے ۔ وہ پیر کو پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ایجوکیشن میں تعلیمی شماریاتی رپورٹ 2021-22 اجراء کی تقریب میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے خطاب کر رہے تھے ۔

ڈائریکٹر جنرل پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ایجوکیشن ڈاکٹر محمد شاہد سرویا ، وزارت تعلیم کے جوائنٹ ایجوکیشن ایڈوائزر ڈاکٹر شفقت جنجوعہ ، ڈائریکٹر ایم آئی ایس سفیر اللہ ،ورلڈ بینک، فارن کامن ویلتھ ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن ،یونیسکو ، یونیسف سمیت دیگر سٹیک ہولڈرز کے نمائندے تقریب میں شریک تھے جبکہ صوبائی محکمہ تعلیم کے حکام نے ویڈیو لنک کے ذریعے تقریب میں حصہ لیا ۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ایجوکیشن کے ڈائریکٹر جنرل پروفیسر ڈاکٹر محمد شاہدسرویا نے کہا کہ 5 سال کے بعد پی آئی ای آج اپنی رپورٹ کا اجراء کر رہی ہے ۔ اس ڈیٹا کے لئے عالمی معیار کا طریقہ کار استعمال کیا گیا ہے ۔ ایس ڈی جیز ۔4 انڈیکٹر کو مد نظر رکھا گیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ رپورٹ کے اجراء کے بعد پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ایجوکیشن مشاورتی نشستوں کی طرف جارہا ہے ۔

انہوں کہا کہ اس رپورٹ کے اجراء کا مقصد حقائق سامنے لاکر سکول کے باہر بچوں کو سکولوں میں لانے کےلئے پالیسی سازی اور عمل اقدامات کو یقینی بنانا ہے ۔وفاقی وزارت تعلیم و پیشہ وارانہ تربیت کے سپیشل سیکرٹری محی الدین وانی نے نے کہا کہ اسلام آباد ، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں اساتذہ کی شرح قابل تحسین ہے ،باقی صوبوں میں بھی اس ضمن میں کام کرنے ضرورت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ صوبے اپنے علاقوں میں تعلیمی امور سے زیادہ آگاہ ہیں ،اسی لئے صوبوں سے ڈیٹا حاصل کرنے کے بعد پی آئی ای نے اس ڈیٹا کو یکجا کیا ۔ ہم نے صوبوں اور پھر اضلاع کی سطح پر دیکھنا ہے کہ سکول سے باہر بچوں کی وجوہات کیا ہیں ، مقامی حکومتوں کا بھی اس حوالے سے کلیدی کردار بنتا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ سکولوں سے باہر بچوں کو سکولوں میں لانے کے لئے گلگت بلتستان میں ہوم سکولز کا تصور متعارف کرایا گیا اس کے فوائد ہوئے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ تعلیم، صحت ، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور پاپولیشن کی وزارتوں کو ملکر مربوط کوششیں کر کے نچلی سطح پر تعلیمی عمل کو بہتر بنانا ہوگا ، انفرادی کاوشیں بھی جاری رہنی چاہیں ۔ انہوں نے کہا کہ جب مرض کی تشخیص جلد ہو جائے تو علاج کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں اسی طرح یہ رپورٹ بھی ہمیں مرض کا بتا رہی ہے ہم نے اب بہتر انداز میں اس کی تشخیص پر کام کرنا ہوگا ۔

پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ایجوکیشن کی جانب سے جاری رپورٹ کے مطابق کوویڈ 19 سمیت دیگر چیلنجز کے باوجود 2017 سے 2022 تک تعلیمی اداروں میں بچوں کے انداراج میں 12.28 ملین اضافہ ہوا ۔ 2017 میں تعلیمی اداروں میں بچوں کی تعداد 28.69 ملین تھی جو بڑھ کے 2022 میں 40.97 ملین ہوگئی ، سکول نہ جانے والی بچوں کی شرح 44 فیصد سے کم ہو کر 39 فیصد رہ گئی ہے ، تعلیم جاری رکھنے کی شرح اضافے کے ساتھ 77 فیصد ہوگئی ، پینے کے صاف پانی ،ٹوائلٹ، چاردیواری اور بجلی کی سہولیات میں بھی اضافہ ریکارڈ ہوا ہے ۔

کلاس روم میں بچوں کی تعداد کا عالمی معیار حاصل کرنے کا سفر جاری ہے ۔رپورٹ کے مطابق ملکی سطح پرپبلک اور پرائیویٹ سکولزودیگر سمیت کل 313,418 تعلیمی ادارے ہیں جن میں سے پرائمری سے لے کر ہائیر سیکنڈری سطح تک رسمی اسکولز کی تعداد 227,506 (73فیصد)،دینی مدارس کی تعداد 43,613 (14فیصد)، غیر رسمی بنیادی تعلیمی ادارے 25,106 (8 فیصد)، ایجوکیشن فاؤنڈیشن 10,087 (3 فیصد)، ٹیکنیکل اینڈ ووکیشنل انسٹی ٹیوٹ4,182 (ایک فیصد) اور 2,487 (ایک فیصد) ڈگری کالج، 220 یونیورسٹیاں اور اساتذہ کی تربیت کے 217 ادارے شامل ہیں۔ ان کل 313,418 تعلیمی اداروں میں اکثریت، 176,184 (56.2فیصد) کا تعلق سرکاری شعبے سے ہے، جبکہ نجی شعبے میں 137,234 (43.8فیصد) ادارے شامل ہیں۔ تمام سطحوں پر تعلیمی اداروں میں رجسٹرڈ طلبا ء کی کل تعداد 54,870,964 ہے۔

طلباء کی اکثریت یعنی 29,359,376 (53.5فیصد) طلباء سرکاری اداروں میں داخل ہے، جبکہ نجی شعبے میں کل 25,511,588(46.5 فیصد) طلباء کا اندراج ہے۔رپورٹ کے مطابق سرکاری تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی تعداد889,885(42 فیصد) جبکہ پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی تعداد1,249,746(58 فیصد) ہے۔صوبائی سطح پر پرائمری ایجوکیشن میں آخری گریڈ تک آبادی والے علاقوں میں نئے داخل ہونے والے طلباء کی تعدادپنجاب میں 74 فیصد،سندھ میں 55 فیصد،خیبر پختونخواہ میں 68 فیصد،بلوچستان میں 35 فیصد اور اسلام آباد کیپٹل میں 91 فیصد اور مڈل کلاس کا یہی تناسب پنجاب میں 54 فیصد،سندھ میں 35 فیصد،خیبرپختونخواہ میں 50 فیصد اور اسلام آباد کیپٹل میں 82 فیصد جبکہ ملکی سطح پر پرائمری سطح کا تناسب 65 فیصد اورمڈل سطح کا تناسب 47فیصد ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ کلاس روم میں عالمی معیار کے مطابق 30 بچے فی کلاس ہونے چاہیں ، اس کے حصول کے لئے کوشاں ہیں، 2021-22 میں ایک کلاس میں بچوں کی شرح39 سے کم ہو کر 37 تک رہی ۔