پاکستان سیاحت کے لیےاہم مرکز سمجھا جاتا ہے لیکن گرمیوں میں عوامی رحجان خیبر پختونخوا کی طرف زیادہ سامنے آتا ہے،محکمہ سیاحت کے پی کے

پاکستان سیاحت کے لیےاہم مرکز سمجھا جاتا ہے لیکن گرمیوں میں عوامی رحجان خیبر پختونخوا کی طرف زیادہ سامنے آتا ہے،محکمہ سیاحت کے پی کے
پاکستان سیاحت کے لیےاہم مرکز سمجھا جاتا ہے لیکن گرمیوں میں عوامی رحجان خیبر پختونخوا کی طرف زیادہ سامنے آتا ہے،محکمہ سیاحت کے پی کے

پشاور۔ 03 ستمبر (اے پی پی):یوں تو پورا پاکستان ہی سیاحت کے لیے ایک اہم مرکز سمجھا جاتا ہے لیکن گرمیوں میں لوگوں کا زیادہ رحجان خیبر پختونخوا کی طرف زیادہ سامنے آتا ہے جہاں مئی سے ستمبر تک کا موسم سیاحوں کے لیے انتہائی موزوں سمجھا جاتا ہے،اب حکومت اور نجی شعبہ دونوں ملک کے شمالی علاقوں میں روایتی سیاحتی مقامات سے ہٹ کر نئے اور اب تک کے غیر معروف مقامات پر انفراسٹرکچر بنانے پر کام کر رہے ہیں،ان میں سے کچھ مقامات یہ ہیں۔

محکمہ سیاحت خیبرپختواحکام کے مطابق سوات کے علاقے سے بحرین جاتے ہوئے سیرئی کے مقام سے پیدل سفر کرتے ہوئے ایک خوبصورت چراہ گاہ چوگیل میڈوز ہیں، جہاں قدرتی آبشاروں اور ہریالی کے منفرد نظارے آپ کو ایک نئے جہاں میں لے جاتی ہے۔ ان خوبصورت آبشاروں کے عقب میں برف پوش پہاڑ کا نظاروں سے بھی ہر موسم میں لطف و اندوز ہو سکتے ہیں۔ محکمہ سیاحت خیبرپختواحکام کے مطابق وادی سوات میں گبین جبہ ایک نیا سیاحتی مقام ہے جسے 2019 میں صوبائی حکومت نے نئے سیاحتی زون میں شامل کیا ہے۔

گبین جبہ مینگورہ سے 65 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے جہاں سرسبز میدان، قدرتی چشمے، آبشاریں اور برف پوش پہاڑ موجود ہیں۔ نئی جگہیں تلاش کرنے والے سیاحوں کے لیے گبین جبہ ایک زبردست سیاحتی مرکز ہے۔ محکمہ سیاحت خیبرپختواحکام کے مطابق جھیل سیف الملوک جانے کے لیے ہر بندہ تیار ہوتا ہے لیکن اس سے ہی تھوڑا ہٹ کر دودو پت سر جھیل ہے لیکن پیدل راستہ اور تھوڑا سائیڈ پر ہونے کی وجہ سے یہاں بھی بہت کم لوگ جاتے ہیں، لیکن اب ٹریک بن چکا ہے اگر کوئی موسم گرما میں دودو پت سر جھیل کا پلان بنائے تو وہ یقینا مایوس نہیں ہوں گے۔

محکمہ سیاحت خیبرپختواحکام کے مطابق خیبرپختونخوا کے ضلع دیر میں کمراٹ ویلی آج کل سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے،کمراٹ ویلی کے بارے میں کچھ سال پہلے بہت کم لوگ جانتے تھے لیکن اب کمراٹ ویلی کی سوشل میڈیا پر پذیرائی کے بعد کمراٹ ویلی کی طرف بھی کافی زیادہ رجحان بن چکا ہے۔ محکمہ سیاحت خیبرپختواحکام کے مطابق سوات سے 35 کلومیٹر کے فاصلے پر مہوڈنڈ جھیل سیاحوں کی توجہ مرکز بھی بن سکتی ہے۔

یہاں چھوٹی چھوٹی تین جھیلیں موجود ہیں اور بہت کم لوگ اس علاقے سے واقف ہیں، مہوڈنڈ جھیل کی طرف پیدل راستہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کی توجہ کافی کم ہے لیکن جھیل سیف الملوک کی طرح یہ جھیل بھی آنے والے دنوں میں سیاحوں کی توجہ کا مرکز بن سکتی ہے۔

گلیات ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے حکام نے بتایا کہ گلیات میں اب نئے مقامات کے لیے کام کیا جا رہا ہے جہاں انفراسٹرکچر پر کام شروع ہو چکا ہے،چھانگہ گلی میں 20 آئیس ڈومز بنائے جا رہے ہیں جن پر کام کیا جا رہا ہے،مقامی دیہاتوں میں سیاحوں کے لیے مختلف پروگرام لانچ کر رہے ہیں تاکہ وہ مقامی دیہاتوں میں رہ کر ان کے کلچر سے روشناس ہو سکیں۔

انسٹی ٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ اسٹڈیز ایگری کلچر یونیورسٹی پشاور سے وابستہ محقق محمد اسرار کاکہنا ہے کہ ایکو ٹورزم کی اصطلاح دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر استعمال کی جا رہی ہے، جس کا مطلب سیاحتی سر گرمیوں کے فروغ کے ساتھ دلفریب مقامات کا تحفظ یقینی بنانا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ انسانی غیر ذمہ دارانہ سرگرمیوں سے قدرت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔ لہذا دنیا بھر میں حکومتیں ایسے سیاحتی منصوبوں پر کام کر رہی ہیں جن سے ایکو سسٹم کی حفاظت میں بھی مدد مل ر ہی ہے۔

محمد اسرار کیمطابق پاکستان میں حکومتی سطح پر سیاحت کے شعبے میں اصلاحات اور درست پالیسیوں کا فقدان ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہاں نجی شعبے کی معا ونت سے کینیا ، بھارت اور پیرو کی طرز کے سیاحتی ماڈل بنانے کی ضرورت ہے جوان ممالک کی معیشت کی بہتری میں اہم کر دار ادا کرنے کے ساتھ مقامی افراد کو ذاتی کاروبار سیٹ کرنے میں مدد بھی فراہم کرتے ہیں۔شیرین زمان سیاحتی سفر کے شوقین ہیں اورپاکستان کے شمالی علاقہ جات کا چپہ چپہ چھان چکے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ وہ چند دن پہلے ہی وادی نیلم میں پتلیاں جھیل کے قریب قائم بیس کیمپ میں قیام کر کے لوٹے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ وہاں ٹینٹ ولیج سیاحوں کو بہترین سروسز فراہم کر رہا ہے جن میں ہر طرح کی ورائٹی کے خوش ذائقہ پاکستانی کھانوں نے انہیں سب سے زیادہ متاثر کیا۔ شیرین زمان کے مطابق لوات ہالہ سے پتلیاں جھیل تک سڑک کو جدید مشینری کے ذریعے ہموار کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور اسے حالیہ سیزن میں مکمل بحال کر دیا گیا ہے۔ شیرین زمان بتاتے ہیں کہ بہتر سہولیات سے یہاں سیاحتی سرگرمیوں میں کافی اضافہ ہوا ہے۔

اس کے ساتھ ہی پختہ روڈ اور بجلی کی دستیابی سے مقامی افراد کی حالت بھی پہلے سے بہتر ہو رہی ہے۔مجیب الرحمن کئی سال ابو ظہبی اور دبئی میں گزار کر وطن لوٹے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ سوات، ناران اور کاغان اپنی خوبصورتی اور موسم کی وجہ سے کسی دوسری دنیا کا نظارہ معلوم ہوتے ہیں۔مگر جتنی یہاں خوبصورتی ہے اتنے ہی یہ علاقے اور مقامی افراد بے توجہی کا شکار ہیں۔

سوات میں لالہ زار اور سیف الملوک جھیل کے راستے تباہ حال ہیں، جنہیں محفوظ اور ہموار کرنے کی ضرورت ہے۔ مجیب الرحمن کہتے ہیں کہ جدید طرز کے ہوٹلوں اور کیمپ ولیجز کی وجہ سے باہر کا سرمایہ دار تو ان علاقوں سے فائدہ اٹھا رہا ہے مگر مقامی لوگوں کے پاس بجلی تک نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ہی غیر ذمہ دارانہ سیاحتی سرگرمیوں کے باعث ان علاقوں میں زمینی آلودگی میں اضافہ ہورہا ہے، جس کی روک تھام کے لیے اقدامات اور سیاحوں میں ایکو ٹورزم کے حوالے سے آگاہی پھیلانا انتہائی ضروری ہے۔