پاکستان میں غذائی تحفظ کی صورت حال میں بہتری آ رہی ہے،حکومت نے غربت کے خاتمے اور ٹین بلین ٹری سونامی جیسے منصوبوں کی کامیابی کا تہیہ کر رکھا ہے،صنفی تشدد کے خاتمہ کیلئے آگاہی فراہم کرنے کی ضرورت ہے، مقررین

75

اسلام آباد۔7دسمبر (اے پی پی):وفاقی وزیر برائے قومی غذائی تحفظ و تحقیق سید فخر امام نے کہا ہے کہ پاکستان میں غذائی تحفظ کی صورت حال میں بہتری آ رہی ہے جس کی وجہ حکومت کا زرعی شعبے پر توجہ مبذول کرنا ہے،حکومت کی ان پالیسیوں کی وجہ سے ملک میں کئی اہم فصلوں کی ریکارڈ پیداوار ہوئی ہے۔ وفاقی وزیر نے ان خیالات کا اظہار عالمی پروگرام برائے خوراک کے اشتراک سے خوراک کے جامع نظام کی بدولت بھوک کے خاتمے کے موضوع پر منعقدہ سیشن کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے کیا۔

ایس ڈی پی آئی کے ایگزیکٹو دائریکٹر ڈاکٹر عابد قیوم سلہری نے اس موقع پر غذائی تحفظ کے حوالے سے وفاقی حکومت کے کردار پر روشنی ڈالی۔ ڈاکٹر دکشیا سنگھ، ڈاکٹر منوج تھبوتووا اور ڈاکٹر صائمہ حق نے غذائی تحفظ اور غربت کے حوالے سے علاقائی ممالک کی مثالیں پیش کیں۔

وزیر مملکت برائے ماحولیاتی تبدیلیاں زرتاج گل نے کہا کہ حکومت نے غربت کے خاتمے اور ٹین بلین ٹری سونامی جیسے منصوبوں کی کامیابی کا تہیہ کر رکھا ہے۔ کام کی جگہ پر خواتین کی ہراسگی کے تحفظ کی محتسب کشمالہ طارق نے کہا ہے کہ ہمارے معاشرے میں ہر شعبے میں خواتین کو ہراساں کرنا معمول کی بات ہے اور اس حوالے سے عورتوں کو آگاہ کرنے کی ضرورت ہے ،تشدد قبول کرنے کی بجائے اس کے خلاف اٹھ کھڑی ہوں۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی (ایس ڈی پی آئی) کے زیر اہتمام 24ویں پائیدار ترقی کانفرنس کے دوران صنفی بنیادوں پر ہونے والے تشدد کے موضوع پر منعقدہ سیشن کے دوران گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ این سی ایس ڈبلیو کی سربراہ نیلو فر بختیار نے کہا کہ خواتین کی صحت اور تعلیم کے شعبے میں شمولیت بڑھانے کے لیے ایک جامع منصوبے کو حتمی شکل دی جا رہی ہے۔

ایس ڈی پی آئی کی جانب سے جاری پریس ریلیز کے مطابق اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے انسانی حقوق کی سرگرام کارکن طاہرہ عبداللہ نے کہا کہ ہمارے معاشرے میں عورتیں ہی نہیں بلکہ مرد، لڑکے اور بچے بھی تشددکا شکار ہوتے ہیں۔انہوں نے توجہ دلائی کہ کورونا وبا کے دوران شہری علاقوں میں گھریلو تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔سیشن کے دوران ڈاکٹرا نیتا غمینی، ثمن احسن اور شمیم چوہدری نے بھی اظہار خیال کیا۔

پاکستان میں سماجی تحفظ کے شعبے میں اصلاحات کے موضوع پر منعقدہ سیشن کے مقررین میں بینش فاطمہ ساہی، شاہد فاروق، حارث گردیزی، محمد وقاص اور ڈاکٹر فریحہ ارمغان شامل تھے ۔ مقررین نے کہا کہ شہریوں اور ریاست کے درمیان تعلق کو تقویت دینے اور سماجی معاونت کے نظاموں کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ اس موقع پر پاکستان میں مقامی حکومت کی ساخت پر بنیادی اتفاق رائےکے موضوع پر منعقدہ سیشن میں اظہار خیال کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والی رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر نفیسہ شاہ نے کہا کہ مقامی حکومتوں کے تسلسل کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے زور دیا کہ مرکز کو مقامی سطح پر حکومت کے ضمن میں قائدانہ کردار ادا کرنا چاہئے۔خیبر پختونخوا کے سابق وزیر برائے مقامی حکومت عنایت اللہ نے کہا کہ مقامی حکومتوں کا تسلسل بے حد ضروری ہے، مقامی نظام حکومت کے دائرہ کار پر بنیادی اتفاق رائے قائم کیا جائے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک کے سینئر پالیسی ایڈوائزر رائنر رہوڈوڈ نے مقامی نظام حکومت کی کامیابی کے لیے مالیاتی، سیاسی اور انتظامی اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کو ناگزیر قرار دیا۔

نسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ سائنسز کے پروفیسر عامر تاج نے کہا کہ مقامی نظام حکومت میں اصلاحات کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ساتھ ساتھ عدلیہ کا کردار انتہائی اہم ہے۔ایس ڈی پی آئی کی آمنہ زیدی نے کہا کہ سیاسی عدم دلچسپی مقامی حکومت کو تقویت دینے کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ عالمی پروگرام برائے خوراک کے زیر اہتمام ’’ماحولیاتی نظام کی بحالی، پائیداری اور اثرات سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت کے لیے اقدام کا عشرہ‘‘ کے موضوع پر منعقدہ ایک دوسرے سیشن کے دوران گفتگو کرتے ہوئے وزیر مملکت برائے ماحولیاتی تبدیلیاں زرتاج گل نے کہا کہ حکومت نے غربت کے خاتمے اور ٹین بلین ٹری سونامی جیسے منصوبوں کی کامیابی کا تہیہ کر رکھا ہے۔

ایس ڈی پی آئی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر عابد قیوم سلہری نے اظہار خیال کرتے ہوئے ماحولیاتی مسائل سے نمٹنے کے لیے حکومتی اداروں، نجی شعبے اور مقامی آبادیوں کی جانب سے مشترکہ کاوشوں کی ضرورت پر زور دیا۔ ڈاکٹر مشتاق میمن نے کہا کہ ہمیں صرف پالیسی کے میدان میں ہی نہیں بلکہ اپنے طرز زندگی کو بھی ماحول دوست بنانے کی ضرورت ہے۔

عالمی پروگرام برائے خوراک کے افتخار عباس اور ایڈم سویلے نے تجویز پیش کی کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے مؤثر مقابلے کے لیے صوبائی اور مقامی حکومتوں کو مقامی آبادیوں کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہئے۔ایس ڈی پی آئی کے سلمان دانش نے کئی بڑے ماحولیاتی اور سماجی مسائل کی نشاندہی کرتے ہوئے سمندی حیات کی بحالی اور پائیدار ترقی کو یقینی بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔ ڈاکٹر سحرش قیوم اور ڈاکٹر بابر شہباز نے بھی موضوع کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔

’ُپاکستان میں بنیادی صحت کے شعبے کو درپیش چیلنجز‘ کے موضوع پر منعقدہ سیشن کے دوران گفتگو کرتے ہوئے ہیلتھ سروس اکیڈیمی کے ڈاکٹر شہزاد علی نے کہا کہ پاکستان میں بنیادی صحت کی سہولتوں میں اضافہ کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر رانا جاوید نے کہا کہ کورونا وبا کے دوران بنیادی صحت کے شعبہ میں مختلف مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ڈاکٹر عدیلہ رحمان نے اس موقع پر کہا کہ ہمیں صحت سے متعلق مسائل کے حوالے سے شعور کی بیداری کے لیے بڑے پیمانے پر مہم چلائی جانی چاہئے۔

برصغیر کے مصنفین اور سرگرم کارکنوں کو یاد رکھنے کے حوالے سے ایک دوسرے سیشن کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے ڈاکٹر عابد قیام سلہری نے معروف دانشور احمد سلیم جو 150 کتابوں کے مصنف ہیں، کی شخصیت پر گفتگو کی۔ اس موقع پر ڈاکٹر نوشرم سنگھ، کشور ناہید اورڈاکٹر حمیرا اشفاق نے بھی گفتگو کرتے ہوئے احمد سلیم کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔

کورونا وبا کے اثرات اور تھینک ٹینکس کا کردار کے موضوع پر منعقدہ سیشن کے دوران ماہرین نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ تھنک ٹینکس کو اب پالیسی امور سے آگے بڑھتے ہوئے نیٹ ورکنگ اور شراکت داریوں پر توجہ دینی چاہئے۔ ڈاکر آنڈریا اردونس، ڈائریکٹر سادرن وائس، ابراہیم ایم برکی، سمیر حسن اور ڈاکٹر ساجد امین نے اظہار خیال کرتے ہوئے زور دیا کہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر تھنک ٹینکس میں تعاون کار میں اضافے کی ضرورت ہے تاکہ وہ زیادہ مؤثر اور بھر پور کردار ادا کر سکیں۔