پاکستان کا افغانستان میں پائیدار امن واستحکام کے لئے کلیدی کردار :مخلصانہ اور حقیقت پر مبنی کاوشوں کا آئینہ دار

رپورٹ : طارق عزیز

اسلام آباد۔20ستمبر (اے پی پی):پاکستان افغانستان میں با لخصوص گزشتہ تقریباً ڈیڑہ ماہ سے تیزی سے بدلتے ہوئے منظرنامہ کے تناظرمیں امن واستحکام کے قیام کیلئے کلیدی کرداراداکررہاہےاور ماضی کی طرح آج بھی اپنی مخلصانہ اور حقیقت پر مبنی کاوشوں کا بروئے کار لاتے ہوئے پائیدار امن واستحکام کے واحد مقصد کے حصول کے لئے پیش پیش ہے ،امریکہ اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات میں سہولت کاری ہو یا افغانستان میں طالبان کے کنٹرول کے بعد انخلا کی کوششیں ہوں یا پھر انسانی ہمدردی کی بنا پر انجام دی جانے والی امدادی کارروائیاں ہوں، ان سب میں پاکستان کا کردار قابل ذکر رہا ہے ،اس کے ساتھ ساتھ پاکستان افغانستان میں جامع حکومت کی تشکیل پر بھی زور دیتا رہا ہے۔

افغان امور سے متعلق سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق قریبی پڑوسی ہونے کے ناطے ، افغانستان میں عدم استحکام، پناہ گزینوں کی آمد اور بڑے پیمانے پر معاشی نقصان کی صورت میں پاکستان سب سے زیادہ متاثرہواہے۔پاکستان نے طالبان کو امریکا کے ساتھ مذاکرات کی میز پربیٹھنے کیلئے قائل کیا جس کا حتمی نتیجہ امن معاہدے پراتقاق رائے کی صورت میں سامنے آیا،دنیا پاکستان کے اس کردارکی معترف ہے۔

افغانستان میں طالبان کے کنٹرول سنبھالنے کے بعد پاکستان ہی ایک ایسا ملک تھا جس نے رضاکارانہ طور پر ہزاروں افراد کو کابل سے اسلام آباد تک انخلا میں معاونت فراہم کی ، ان افراد کو رہائش اور دیگر سہولیات فراہم کی گئی اور ان کی اپنی منزلوں تک روانگی کیلئے انتظامات کویقینی بنایا۔

افغانستان میں حالیہ بحرانی دورمیں پاکستان کی جانب سے افغانستان کے عوام کیلئے انسانی ہمدردی کی بنیادپرامداد کی فراہمی کا سلسلہ بھی جاری ہے، پاکستان نے کابل، قندہار اورخوست کیلئے فضائی راستے سے امدادی سامان بجھوا یا ہے، پاک افغان تعاون فورم (پی اے سی ایف) کی جانب سےزمینی راستے سے بھی انسانی بنیادوں پر امداد کے طور پر پاکستان کی طرف سے 300 ٹن خوردنی اشیاءکے 17 ٹر ک افغانستان بھیجے گئے۔

پاک افغان تعاون فورم (پی اے سی ایف) کے چیئرمین حبیب اللہ خان خٹک کے مطابق ہم نے مختلف مخیر حضرات اور حکومت پاکستان کی مدد سے سی ۔130 کے ذریعے 32 ٹن آٹا ، چھ ٹن کوکنگ آئل ، دو ٹن ادویات کا انتظام کیا ہے۔ اسی طرح 300 ٹن خوردنی اشیاءسے لدے 17 ٹرکوں کا امدادی قافلہ افغانستان بھیجا گیا ہے جن میں 65 ٹن چینی ، تین ٹن دالیں ، 190 ٹن آٹا ، 11 ٹن کوکنگ آئل اور 31 ٹن چاول شامل ہیں۔ انخلا کے مشن کی تکمیل اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امدادی کارروائیوں کےساتھ ساتھ پاکستان کی قیادت تمام کمیونٹیز کی نمائندگی کرنے والی ایک جامع حکومت کے قیام کے وعدے پرعمل درآمد کیلئے طالبان پر زور دیتی رہی ہے ۔تاجکستان کے حالیہ دوروزہ دورہ کے بعد وزیراعظم عمران خان نے اپنے ٹویٹس میں کہاہے کہ افغانستان میں جامع حکومت کے قیام کیلئے انہوں نے طالبان سے مذاکرات کا آغاز کردیاہے۔

 

وزیراعظم نے کہاکہ دوشنبے میں افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے رہنماوں سے ملاقاتوں خصوصاً تاجکستان کے صدر امام علی رحمانوف سے طویل بات چیت کے بعد انہوں نے ایک شمولیتی حکومت کی خاطر تاجک، ہزارہ اور ازبک برادری کی افغان حکومت میں شمولیت کیلئے طالبان سے مذاکرات کی ابتدا کر دی ہے۔وزیراعظم نے کہاکہ 40 برس کی لڑائی کے بعد (ان دھڑوں کی اقتدار میں) شمولیت ایک پرامن اور مستحکم افغانستان کی ضامن ہو گی جو محض افغانستان ہی نہیں بلکہ خطے کے بھی مفاد میں ہے۔

واضح رہے کہ امریکا اور طالبان کے درمیان امن معاہدے کے بعد سے لیکراب تک پاکستان دنیا کو حالات خراب کرنے والوں کے کردار کے بارے میں خبردار کرتا چلا آ رہا ہے ، یہ کردار افغانستان میں کبھی امن نہیں چاہتے۔ایک ایسے منظر نامے میں جب تمام علاقائی طاقتیں افغانستان میں قیام امن واستحکام کیلئے کوششیں کررہی ہیں ایسے میں بھارت غیر معمولی انداز میں آگے بڑھنے کی کوشش کر رہا ہے کیونکہ امریکی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان میں بھارت کے مفادات کو بہت بڑا دھچکا لگا ہے۔

افغانستان میں امریکی موجودگی کا سب سےزیادہ فائدہ اٹھانے والا ملک بھارت تھا اوراب بھارتی میڈیا انخلا پر امریکا کو تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے۔ بھارتی ذرائع ابلاغ امریکی انخلا کو ناکامی قرار دیتے ہوئے انخلا کے فیصلے کو ذلت آمیز شکست کے طور پر پیش کرنے اور امریکا کو تنازعے کے پرامن حل کے خلاف اکسانے کی تگ ودومیں ہے۔

درحقیقت بھارت 2001 سے افغانستان کی سرزمین کوپاکستان کے خلاف استعمال کرتا چلاآرہاتھا، بھارت نے اس دوران بنیادی ڈھانچے میں 3 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری،افغان فورسز کی تربیت اوردیگرمنصوبوں کے ذریعہ افغانستان میں مستقل قدم جمانے اور اپنے کھلے عزائم کی تکمیل کیلئے اپنی بھاری موجودگی برقراررکھی تھی۔

پاکستان نے بین الاقوامی برادری کے سامنے بھارت کی جانب سے پاکستان کو منظم اندازمیں دہشت گردی کے حملوں، علیحدگی پسندوں کی معاونت اورہائبرڈ وففتھ جنریشن وارفئیر کے ذریعہ عدم استحکام کا شکار کرنے کے منصوبوں کے بارے میں تفصیلی شواہد پرمبنی دستاویزات بھی پیش کی ہیں۔سیاسی مبصرین کے مطابق بھارت کی ہمیشہ سے یہ خواہش رہی ہے کہ افغانستان میں طالبان مخالف قوتیں اقتدار میں رہیں تاکہ وہ افغان سرزمین کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کر سکے۔

تاہم ، طالبان کی اقتدار میں واپسی سے بھارت کو ایک بڑا سفارتی دھچکا لگا ہے اور وہ افغانستان کے حوالہ سے اس خطے کا سب سے کمزورکھلاڑی بن گیا۔بھارت نے جھوٹ پر مبنی بیانیے سے افغان فورسز کی صلاحیتوں کے بارے میں دنیا کے سامنے ایک جعلی اورفرضی تصویرپیش کی لیکن یہ جعلسازی اس وقت عیاں ہوگئی جب تقریباً پوراافغانستان بغیرکسی بڑی مزاحمت کے طالبان کے کنٹرول میں آگیا۔دوسری جانب بھارت کے تمام ترپراپیگنڈہ اورتدبیروں سے قطع نظرپاکستان افغانستان میں دیرپا قیام امن اوراستحکام کے مشن کی پیروی کرتا رہا ، پاکستان تسلسل سے دنیا پرزوردے رہاہے کہ وہ جنگ سے متاثرہ ملک کواکیلا نہ چھوڑے۔

شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس سے اپنے خطاب میں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ دنیا کے پاس افغانستان کو شامل کرنے یااسے تنہا چھوڑنے کے دو واضح راستے ہیں۔ افغانستان کوتنہاچھوڑنے سے غیر مستحکم صورتحال پیداہوگی ، اس سے دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوگا منشیات کی سمگلنگ اور بین الاقوامی منظم جرائم بڑھیں گے اور، پڑوسی ممالک بھی ان اثرات کی زدمیں آئیں گے۔

شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کا موقف ہے کہ ملک کے تمام سماجی ، سیاسی ، نسلی اور مذہبی گروہوں کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے افغانستان میں ریاستی طاقت کی قانونی حیثیت کو بحال کرنا ضروری ہے تاکہ حالات کو معمول پر لایا جائے ، امن بحال ہو ، معاشی ترقی ہو ، دہشت گردی کا مقابلہ کیا جائے اور انتہا پسندی ومنشیات اوردیگرجرائم کا موثرطریقے سے سدباب ہوسکے۔

شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے بعد جاری کردہ اعلامیہ میں رکن ممالک نے اس بات پر اتفاق کیا کہ سیاسی اور سفارتی ذرائع، بین الاقوامی قانون کے مطابق تسلیم شدہ اصولوں اور ضوابط پر قائم رہنا علاقائی تنازعات کے حل کا واحد راستہ ہے تاہم ایس سی اوکا رکن ملک ہونے کے باوجودبھارت تنظیم کے مینڈیٹ کی نہ صرف خلاف ورزی کر رہا ہے بلکہ افغانستان اور خطے میں امن کو خراب کرنے کا کردار ادا کر رہا ہے۔ قومی سلامتی کے مشیر ڈاکٹر معید یوسف نےبرطانوی جریدے ‘دی انڈیپنڈنٹ’ میں شائع ہونے والے اپنے حالیہ مضمون میں تحریر کیا کہ بھارت نے افغانستان میں حقیقت کو چھپانے کے لئے جعلی اور غلط بیانیہ کو ہوا دی جبکہ پاکستان ماضی کی طرح آج بھی اپنا مخلصانہ اور حقائق پر مبنی موقف پیش کررہا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان نے افغانستان میں جنگ کے خاتمے کے لیے ہمیشہ مذاکرات اور سیاسی تصفیے کی حمایت کی ہے ۔ آج افغانستان اور دنیا ایک اہم موڑ پر ہیں۔ پاکستان ماضی کی طرح اب بھی اپنی مخلصانہ رائے پیش کررہا ہے جو توجہ کی متقاضی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی نئی افغان حکومت سے توقعات ویسی ہی ہیں جیسا کہ مغرب کی ہیں۔ ہم نے بارہا ایسی حکومت کے لئے زور دیا جو تمام افغان عوام کے حقوق کی محافظ ہو اور اس بات کو یقینی بنائے کہ افغان سرزمین دہشت گردی کے لئے کسی ملک کے خلاف استعمال نہ ہو۔

انہوں نے کہا کہ یہ ہمارا اور عالمی برادری کا مشترکہ مقصد ہے ۔ عالمی برادری کے لیے اس مقصد کو یقینی بنانے کا دانشمندانہ راستہ یہ ہے کہ رابطے اور معاونت سے طالبان کی مدد کی جائے۔سیاسی مبصرین کے مطابق افغانستان اورپورے خطہ میں قیام امن استحکام اورترقی وخوشحالی کیلئے پاکستان کی جانب سے خلوص نیت سے کی جانے والی کوششوں کو بعض قوتیں اگرچہ کمزور کرتی رہیں تاہم پاکستان نے افغانستان میں دیرپا قیام امن اوراستحکام کے حوالہ سے اپنا مثبت اور تعمیری کردار کبھی نہیں چھوڑا ،کیونکہ پاکستان سمجھتا ہے کہ ایسانہ کرنے کی صورت میں وہ خودبھی عدم استحکام کے اثرات سے متاثر ہو سکتا ہے، اسی طرح افغانستان میں امن واستحکام سے افغانستان کے بعد سب سے زیادہ فائدہ پاکستان کو پہنچے گا۔