پاکستان گنے کے زیر کاشت رقبہ اور پیداوارکے لحاظ سے دنیا میں پانچویں نمبر پرآگیا

240
sugarcane cultivated area
sugarcane cultivated area

فیصل آباد۔ 28 مئی (اے پی پی):پاکستان گنے کے زیر کاشت رقبہ اور پیداوارکے لحاظ سے دنیا میں پانچویں نمبر پرآگیاہے جبکہ پاکستان میں کماد کے کل کاشتہ رقبہ کے 90فیصدپر زرعی تحقیقاتی ادارہ کمادآری فیصل آباد کی متعارف کردہ اقسام کاشت ہوتی ہیں نیزپنجاب میں گنے کی اوسط پیداوار800 من فی ایکڑ سے تجاوز کر گئی ہے جبکہ عالمی فی ایکڑ پیداواربھی تقریباً 709 من فی ایکڑ ہے تاہم کاشتکاروں کی گھریلو معیشت اور شوگر ملوں کی کامیابی کا دارومدار کماد کی فصل کی فی ایکڑ زیادہ پیداوار پرمنحصر ہے جس کے ساتھ ساتھ گنے کی فصل کوملکی معیشت میں اہم مقام حاصل ہے کیونکہ اسکا قومی جی ڈی پی میں حصہ7 فیصدہے۔

ان خیالات کا اظہار ڈائریکٹر جنرل ریسرچ پنجاب ڈاکٹر ساجد الرحمن نے ایوب زرعی تحقیقاتی ادارہ فیصل آباد کے شعبہ کماد کے زیر اہتمام ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ بورڈ کے اعلیٰ سطحی اجلاس و تربیتی ورکشاپ کی صدارت کرتے ہوئے کیا ۔ڈاکٹر محمد ظفر نے شرکاکوبریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ پنجاب میں گذشتہ سال 3.15ملین ایکڑ سے زائد رقبہ پر کماد کی کاشت کی گئی جس سے 88.65ملین ٹن چینی کا حصول ممکن ہوا جو کہ پاکستان کی تاریخ میں ایک ریکارڈ ہے۔ دوران بریفنگ انہوں نے بتایا کہ جدید مشینری کے استعمال سے کماد کی فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ کے متعلق نئے تجربات کے مثبت نتائج برآمد ہو رہے ہیں۔انہوں نے مزید بتایا کہ زرعی سائنسدانوں نے شبانہ روز کاوشوں کے ذریعے کماد کی32 نئی اقسام متعارف کروائی ہیں اورپاکستان میں 90فیصد سے زائد رقبہ پر ادارہ کی متعارف کردہ اقسام کاشت ہو رہی ہیں جس سے چینی کی پیداوار کے حوالہ سے قومی غذائی تحفظ کے حصول کے ساتھ کاشتکاروں کی خوشحالی بھی ممکن ہوئی ہے۔

راناافتخار محمدچیئرمین ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ بورڈکماد پنجاب نے اظہار خیال کرتے ہوئے بتایا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے تناظر میں گنے کی جدید پیداواری ٹیکنالوجی اور مشینی کاشت کے فروغ کیلئے شوگر انڈسٹری کو زرعی تحقیقاتی ادارہ کمادکے زرعی سائنسدانوں کے شانہ بشانہ چلنا ہوگا۔ڈاکٹر حافظ محمد بشیر، ڈاکٹر اخلاق مدثر،ڈاکٹر محمود الحسن، ڈاکٹر عبدالمجید، عبدالشکور،شہزاد افضل سینئر سائنٹسٹس نے تربیتی ورکشاپ میں ادارہ میں جاری تجربات اور انکے نتائج کے متعلق آگاہی دیتے ہوئے بتایا کہ تحقیقاتی ادارہ کماد لائلپور 1934 میں قائم ہوااور 1978 میں اسے انسٹیٹیوٹ کا درجہ دیا گیا۔ اس ادارے کے قیام کا اہم مقصد کماد کی ایسی اقسام متعارف کروانا ہے جن میں بہترین پیداواری صلاحیت کے ساتھ بیماریوں اور ضرر رساں کیڑوں کے خلاف قوت مدافعت بدرجہ اتم موجود ہو۔ مزید برآں کماد کی فصل کی مشینی کاشت کا فروغ اور جدید پیداواری ٹیکنالوجی کی کاشتکاروں کی دہلیز تک منتقلی بھی زرعی سائنسدانوں کی عملی ترجیح ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ کماد کی نئی اقسام کی تیاری، کھلے سیاڑوں میں کماد کی کامیاب کاشت کی جدید پیداواری ٹیکنالوجی کی کاشتکاروں کی دہلیز تک منتقلی وقت کی اہم ضرورت ہے۔زرعی سائنسدانوں نے کماد کی فصل کی بروقت آبپاشی،کیمیائی کھادوں کے متوازن و متناسب استعمال اورنئی اقسام کی شوگر ریکوری، شور زدہ اراضیات پر کماد کی کامیاب کاشت،بیماریوں اور ضررساں کیڑوں کیخلاف قوت مزاحمت اور قوت مدافعت کی حامل اقسام کو جانچنے کیلئے جاری ریسرچ پروگرام کے متعلق تفصیلاً آگاہی فراہم کی۔

ڈاکٹر محمد منیر نیئر زرعی سائنسدان نے ورکشاپ میں کماد کی فصل سے چینی اور گڑ کے علاوہ ہائی ویلیوایڈیشن کے متعلق قیمتی آراپیش کیں۔ سابق ممبر پنجاب اسمبلی ڈاکٹر نجمہ افضل نے بطور مہمان اعزاز شرکت کی اورنمائش کا وزٹ سمیت مہمانوں میں سرٹیفکیٹ تقسیم کئے۔ انہوں نے اپنے خطاب میں شوگر کین بورڈ ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے ڈاکٹر محمد ظفر کی کاوش کی حوصلہ افزائی کی اور حکومت سے بجٹ میں مزید فنڈز شوگر کین بورڈ کو دینے کی تجویز پیش کی۔