پاک ۔ازبک کثیر الجہتی مشترکہ سکیورٹی کمیشن کے قیام کا تاریخی پروٹوکول خطے میں جیو اقتصادی صورتحال کی بہتری میں اہم کردار ادا کریگا، افغانستان کے معاملے پر بھارت میں نیشنل سکیورٹی اجلاس میں شرکت نہیں کروں گا، ڈاکٹر معید یوسف

پاک ۔ازبک کثیر الجہتی مشترکہ سکیورٹی کمیشن کے قیام کا تاریخی پروٹوکول خطے میں جیو اقتصادی صورتحال کی بہتری میں اہم کردار ادا کریگا، افغانستان کے معاملے پر بھارت میں نیشنل سکیورٹی اجلاس میں شرکت نہیں کروں گا، ڈاکٹر معید یوسف

اسلام آباد۔2نومبر (اے پی پی):قومی سلامتی کے مشیر ڈاکٹر معید یوسف نے کہا ہے کہ پاکستان اور ازبکستان کے درمیان کثیر الجہتی مشترکہ سکیورٹی کمیشن کے قیام کے لیے تاریخی پروٹوکول خطے میں جیو اقتصادی صورتحال کی بہتری میں اہم کردار ادا کرے گا، پاکستان اور ازبکستان نے افغانستان کے اہم معاملات پر اتفاق کیا ہے، افغانستان کے معاملے پر بھارت میں منعقد ہونے والے نیشنل سکیورٹی اجلاس میں شرکت نہیں کروں گا،خطے میں بگاڑ پیدا کرنےوالا امن قائم کرنے والا نہیں ہو سکتا۔

ازبکستان کے سلامتی کونسل کے سیکرٹری لیفٹیننٹ جنرل وکٹر مخمودوف کی سربراہی میں پانچ رکنی ازبک وفد کے ساتھ تفصیلی ملاقات کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے قومی سلامتی کے مشیر نے کہا کہ پاکستان جغرافیائی لحاظ سے خطے کا انتہائی اہم ملک ہے ۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان اور ازبکستان کے درمیان مشترکہ سکیورٹی کمیشن کے قیام سے متعلق پروٹوکول دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو فروغ دینے میں معاون ثابت ہوگا۔معید یوسف نے کہا کہ پروٹوکول دہشت گردی، منشیات کی سمگلنگ اور ڈیزاسٹر مینجمنٹ میں تعاون کے حصول میں مدد کرے گا۔

افغانستان کے حوالے سے معید یوسف نے کہا کہ پاکستان اور ازبکستان نے افغانستان کے اہم معاملات پر اتفاق کیا ہے۔ انہوں نے عالمی معیشتوں پر زور دیا کہ وہ افغانستان میں انسانی بحران سے نمٹنے میں افغان عوام کی مدد کریں۔دونوں ملکوں کے مابین دستخط شدہ پروٹوکول باہمی دلچسپی کے وسیع پیمانے پر سلامتی سے متعلق امور کا احاطہ اور پاکستان کے قومی سلامتی ڈویژن اور ازبکستان کی سلامتی کونسل اور ان کے متعلقہ سربراہان کے درمیان رابطہ کاری کا طریقہ کار وضع کرتا ہے۔

معید یوسف نے کہا کہ جے ایس سی کے تحت، دونوں ممالک سکیورٹی، دفاع، جرائم، منشیات کی سمگلنگ، انسداد دہشت گردی اور ڈیزاسٹر مینجمنٹ جیسے مختلف شعبوں میں مختلف ورکنگ گروپس میں کام کریں گے۔

ڈاکٹر معید یوسف نے کہا کہ پاکستان کی پوری توجہ ملکی نظام کو جیو اکنامک پیراڈائم میں تبدیل کرنے پر مرکوز ہے، جہاں علاقائی اقتصادی راہداری کا قیام اولین ترجیح ہے۔انہوں نے کہا کہ سی پیک سے پہلے وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ ایسا کوئی تجارتی راستہ نہیں تھا جو پاکستان کو اپنے جیو اکنامک سٹریٹجک اہداف کو حاصل کرنے کے قابل بنائے۔

قومی سلامتی کے مشیر نے کہا کہ افغانستان کے ساتھ قربت کی وجہ سے ازبکستان ہمارے جیو اکنامک پیراڈائم کو پورا کرنے میں بہت اہمیت کا حامل ملک ہے۔ یہ ایک تاریخی دن ہے کیونکہ دونوں ممالک نے جے ایس سی پروٹوکول پر دستخط کیے ہیں،جس کے تحت دونوں ممالک سکیورٹی، دفاع اور متعلقہ امور جیسے مختلف شعبوں میں تعاون کریں گے۔مزید وضاحت کرتے ہوئے،

ڈاکٹر معید یوسف نے بتایا کہ جے ایس سی کے تحت مختلف سٹیک ہولڈرز بشمول وزارت دفاع، دفتر خارجہ، نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے)، فیڈرل بورڈ آف ریونیو بھی شریک ہوں گے۔ جبکہ قومی سلامتی ڈویژن مرکزی رابطہ کار کے طور پر کام کرے گا۔

معید یوسف نے کہا کہ ازبکستان کے ساتھ دفاعی اور فوجی تعاون سے متعلق کئی معاہدے پہلے ہی موجود ہیں جو جے ایس سی کی چھتری تلے آئیں گے۔ اس کے علاوہ تمام سابقہ ​​غیر فعال دوطرفہ معاہدوں کو بھی فعال اور مؤثر طریقے سے عملدرآمد کیا جائے گا۔

معید یوسف نے پاکستان میں ازبک ہم منصب کی مصروفیات کے حوالے سے میڈیا کو بتایا کہ وفد تین روزہ دورے پر ہے اور جنرل ہیڈ کوارٹر، راولپنڈی کا دورہ کرنے کے علاوہ وزیراعظم اور وزیر خارجہ سے بھی ملاقاتیں کرے گا۔انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کے مشیر برائے تجارت عبدالرزاق داؤد کے ہمراہ ازبک این ایس اے، ازبکستان سے آنے والے چار ٹرانزٹ ٹرکوں کا معائنہ کرنے کے لیے طورخم بارڈر ٹرمینل کا بھی دورہ کریں گے،

انہوں نے مزید کہا کہ از بک وفد پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول کا دورہ بھی شیڈول میں شامل ہے۔انہوں نے کہا کہ ازبکستان بحیرہ عرب تک بہتر روابط اور رسائی چاہتا ہے جو پاکستان کے اقتصادی بہتری کے لیے بھی مفید ہے۔ ڈاکٹر معید یوسف نے کہا کہ یہ خوش آئند ہے کہ افغانستان کے معاملے پر پاکستان اور ازبکستان دونوں کا یکساں موقف ہے کہ پوری دنیا کو افغان حکومت کے ساتھ تعمیری رابطے میں رہنا چاہیے تاکہ وہاں کسی انسانی بحران سے بچا جا سکے۔

انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان میں امن پاکستان کی قومی سلامتی کا معاملہ ہے۔ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں افغانستان کے معاملے پر بھارت میں منعقد ہونے والے نیشنل سکیورٹی اجلاس میں شرکت کرنے نہیں جا رہا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ خطے میں بگاڑ پیدا کرنےوالا امن قائم کرنے والا نہیں ہو سکتا۔

انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ بھارت کی جانب سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور ریاستی سرپرستی میں ہونے والی دہشت گردی اور توسیع پسندانہ عزائم پر عالمی برادری کی خاموشی معنی خیز ہے ،جس نے پورے خطے کو خطرات سے دو چار کر رکھا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان نے دہشت گردی کیخلاف بہت قربانیاں دی ہیں۔افغان جنگ سے پاکستان براہ راست متاثر ہوا ہے جبکہ پاکستان کی معیشت کو 150ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔