پی ٹی وی، ریڈیو اور اے پی پی کو عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کر رہے ہیں، ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ڈیجیٹل ایڈورٹائزنگ پالیسی تیار کی جا رہی ہے، وفاقی وزیر اطلاعات چوہدری فواد حسین کی سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کے اجلاس میں گفتگو

95

اسلام آباد۔24جون (اے پی پی):وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات چوہدری فواد حسین نے کہا ہے کہ پی ٹی وی، ریڈیو اور اے پی پی کو عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جا رہا ہے، نئی ٹیکنالوجی اور نئے پروگرام لا رہے ہیں، ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ڈیجیٹل ایڈورٹائزنگ پالیسی تیار کی جا رہی ہے، کیبل کی ڈیجیٹلائزیشن کے عمل سے چینلز کی ریٹنگ میں شفافیت آئے گی، ہم پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کی طرف جا رہے ہیں، پاکستان میڈیا چینلز کو عالمی سیاست اور مسائل پر توجہ دینی چاہئے۔

وہ جمعرات کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کے اجلاس میں گفتگو کر رہے تھے۔ اجلاس کی صدارت کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر فیصل جاوید نے کی۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات نے کہا کہ پاکستانی چینلز عالمی سیاست اور مسائل پر توجہ نہیں دے رہے، ملکی نیوز چینلز پر صرف ملکی سیاست پر ہی بات ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بھارتی حکومت نے مقبوضہ جموں و کشمیر پر آل پارٹیز کانفرنس طلب کی لیکن پاکستانی ٹی وی چینلز پر اس بارے میں کوئی بات نہیں ہوئی۔ انہوں نے کمیٹی کو بتایا کہ اے پی پی کو ڈیجیٹل نیوز ایجنسی بنا رہے ہیں، اس کا فائدہ پاکستانی میڈیا کو بھی ہوگا،

وزارت کے ڈیجیٹل میڈیا ونگ کو اے پی پی میں ضم کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت اے پی پی کو رائٹرز اور ایجنسی فرانس پریس (اے ایف پی) کے برابر لانے کیلئے پرعزم ہے۔ چوہدری فواد حسین نے کہا کہ اے پی پی کا ایک مضبوط نیٹ ورک ہے جسے اچھی مقامی خبروں اور سیاحت کے فروغ کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ چھ ماہ کے اندر انگلش چینلز کا آغاز کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ٹیلی ویژن کو ایچ ڈی پر منتقل کیا جا رہا ہےبچوں کے لئے کڈز چینل بھی جلد شروع کیا جائے گا۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ ریڈیو پاکستان کو ڈیجیٹلائز کیا جائے گا اور اس میں جدید ٹیکنالوجی متعارف کرائی جائے گی۔ ہم پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کی طرف جا رہے ہیں، نئی ٹیکنالوجی اور نئے پروگرام لا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت ریڈیو پاکستان پر تقریباً ایک ارب روپے کے واجبات ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ریڈیو پاکستان کی پراپرٹیز کو اس کے مفاد میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ ریڈیو پاکستان کے ملازمین کو وزیراعظم کی ہائوسنگ سکیم کے تحت گھر فراہم کرنے پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔

وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ بدقسمتی سے قبضہ مافیا نے سرکاری اراضی پر قبضے کر رکھے ہیں۔ اس حوالے سے وفاقی کابینہ نے سرکاری زمینوں پر قبضے واگذار کروانے کے لئے پبلک پراپرٹی ریموول آف انکروچمنٹ بل 2021ءمتعارف کرانے کی منظوری دی ہے۔ اس قانون کے تحت وفاقی حکومت کی جانب سے ایک افسر مقرر کیا جائے گا جو سرکاری اراضی پر قابض افراد کو شوکاز نوٹس جاری کرے گا اور غیر تسلی بخش جواب کی صورت میں اراضی کی واگذاری کے لئے اقدامات لینے کا مجاز ہوگا۔ وہ ضروری اقدامات بھی اٹھا سکے گا جس میں سزا اور جرمانے بھی شامل ہیں۔

وفاقی وزیر نے کمیٹی کو بتایا کہ کیبل نیٹ ورک کو بھی ڈیجیٹلائز کیا جا رہا ہے، اس حوالے سے پالیسی وفاقی کابینہ کی جانب سے پہلے ہی منظور کی جا چکی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس پالیسی سے چینلز کی کوالٹی اور تعداد کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ ڈیجیٹلائزیشن کے عمل سے چینلز کی ریٹنگ کا عمل بھی شفاف ہوگا۔

انہوں نے کمیٹی کو بتایا کہ پاکستان میں تقریباً 2.4 ملین افراد ٹی وی چینلز دیکھتے ہیں اور کیبل کی ڈیجیٹلائزیشن سے ٹی وی چینلز پر تصویر کا رزلٹ بھی واضح ہوگا۔ انہوں نے بتایا کہ ملک میں 54 فیصد افراد سپورٹس چینلز دیکھتے ہیں جبکہ دوسرے نمبر پر تفریحی چینلز دیکھے جاتے ہیں اور صرف 10 سے 15 فیصد لوگ نیوز چینلز دیکھتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ تعلیمی چینلز کے لئے لینڈنگ چارجز کو صفر کر دیا گیا ہے اور اس اقدام سے چینلز کی تعداد میں اضافہ ہوگا۔ انہوں نے بتایا کہ ڈیجیٹل باکس کے ذریعے صارفین کو اس وقت ملک میں موجود تقریباً 190 سے 200 چینلز دیکھنے کا موقع ملے گا۔

وفاقی وزیر اطلاعات نے بتایا کہ بھارت میں تقریباً 1100 چینلز چل رہے ہیں اور پاکستان کو چینلز کی تعداد 700 سے بڑھانا ہوگی۔ انہوں نے بتایا کہ کیبل آپریٹرز کو پہلی مرتبہ کونٹینٹ خریدنے کی اجازت دی گئی ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ فلمی صنعت کی بحالی کے لئے بھی کام جاری ہے، جامع فلم پالیسی تیار کی ہے، سعودی عرب، ترکی اور چین سے اشتراک اس ضمن میں سودمند ثابت ہو سکتا ہے۔

کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر فیصل جاوید نے اجلاس کو بتایا کہ کمیٹی کی جانب سے صحافیوں کی بہبود کے لئے ایک بل منظور کیا گیا تھا لیکن بدقسمتی سے اپوزیشن نے اس کی مخالفت کی۔وفاقی وزیر نے کمیٹی کاآئندہ اجلاس کراچی میں منعقد کرنے کی تجویز دی اور کہا کآئندہ اجلاس میں پروڈیوسرز ایسوسی ایشنز کو بلا کر فلم پالیسی پر بریفنگ رکھیں جس سے تمام اراکین نے اتفاق کیا۔

چیئرمین کمیٹی سینیٹر فیصل جاوید نے کہا کہ فلم انڈسٹری کو برقرار رکھنے کیلئے کم سے کم 100 فلموں کی ضرورت ہوتی ہے لیکن ہمارے ہاں سال میں صرف 24 فلمیں بنتی ہیں جبکہ اس کے برعکس بالی ووڈ میں 1800 فلمیں بنتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ قائمہ کمیٹی سے فلموں اور ایڈورٹائزنگ پالیسی پر رائے مانگی جاسکتی ہے۔ پریس کلب کی ریگولیٹری باڈی سے متعلق بھی رائے طلب کی جاسکتی ہے۔ وزارت اطلاعات و نشریات کی درخواست پر قائمہ کمیٹی کی رضامندی سے چیئرمین کمیٹی سینیٹر فیصل جاوید نے این سی او سی کو ایس او پیزکے ساتھ ملک بھر میں سینما گھر کھولنے کی سفارش کر دی۔

وفاقی سیکریٹری اطلاعات و نشریات شاہیرہ شاہد نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ اس وقت وزارت کے زیر انتظام 18 ادارے کام کر رہے ہیں جس میں کارپوریشنز بھی شامل ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اس وقت شالیمار ریکارڈنگ اینڈ براڈ کاسٹنگ کمپنی (ایس آر بی سی) کے پاس پانچ ٹی وی چینلز ہیں جن میں ایک ٹی وی چینل اے ٹی وی چل رہا ہے اور 8 ایف ایم چینلز کام کر رہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ بہت جلد ایس آر بی سی کا ٹی آر ٹی اور الجزیرہ کی طرز پر ایک انگریزی چینل لانچ کیا جا رہا ہے۔ اس موقع پر سینیٹر عرفان صدیقی نے وفاقی وزیر کو بتایا کہ صحافیوں کو مسائل کا سامنا ہے، ان کو کمیٹی میں بلا کر ان کے مسائل سنے جائیں۔ کمیٹی کے اجلاس میں معلومات تک رسائی ترمیمی بل 2021ءکے محرک کی عدم دستیابی کے باعث بل کو موخر کردیا گیا۔

کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹرز عرفان الحق صدیقی، بیرسٹر علی ظفر، عون عباس، انور لال دین، محمد طاہر بزنجو کے علاوہ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری اور وزارت کے دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔