پی ڈی ایم کے مطالبات غیر آئینی اور غیر جمہوری ہیں۔مطالبہ قبول نہیں،دھمکیوں سے بات نہیں ہوگی۔وزیر اعظم مستعفی ہونگے اور نہ ہی اسمبلی تحلیل ہوگی، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی پریس کانفرنس

اسلام آباد۔15دسمبر (اے پی پی):پاکستان تحریک انصاف کے وائس چیئرمین و وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ( پی ڈی ایم) کے مطالبات کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ پی ڈی ایم کے مطالبات غیر آئینی اور غیر جمہوری ہیں۔مطالبہ قبول نہیں،دھمکیوں سے بات نہیں ہوگی۔وزیر اعظم مستعفی ہونگے اور نہ ہی اسمبلی تحلیل ہوگی۔لاہور کے جلسے میں کوئی نئی بات نہ تھی یہی باتیں وہ گذشتہ جلسوں میں کر چکےہیں۔پی ڈی ایم میں استعفوں کے معاملے پر ابہام ہے۔لانگ مارچ کے حوالے سے بھی پی ڈی ایم میں اتفاق نہیں ہے۔ بلاول سے کہتا ہوں کہ بیٹا سیاست میں دروازے بند نہیں ہوتے آپ کو ابھی تربیت کی ضرورت ہے۔منگل کو یہاں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ 13 دسمبر کے بعد پی ڈی ایم میں افراتفری پھیلی ہوئی ہے اور کافی مایوسی کا شکار ہے۔انہوں نے انتہائی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ہم نے ان سے گذازش کی کہ کرونا وبا کی دوسری لہر شدت اختیار کر رہی ہے اموات میں اضافہ ہو رہا ہے،لیکن ہماری گذازش ہر کوئی توجہ نہ دی۔وزیر خارجہ نے کہا کہ لاہور کے جلسے میں کوئی نہیں بات نہ تھی یہی باتیں وہ گذشتہ جلسوں میں کر چکے۔میں واضح طور پر اندر کی بات کہہ رہا ہوں کہ استعفوں کے معاملے پر ان کے اندر ابہام ہے۔پیپلز پارٹی میں فیصلہ کن قوت نہ جلسے میں تھی اور نہ پی ڈی ایم کے اجلاس میں تھی۔انہوں نے کہا کہ بلاول تو دکھاوے کے لیے ہے پیپلز پارٹی کے فیصلے آج بھی آصف زرداری کرتے ہیں اور انہوں نے ابھی تک استعفوں کا فیصلہ نہیں کیا جبکہ مسلم لیگ ن میں استعفوں کے حوالے سے دو دھڑے ہیں ایک مریم صاحبہ کا ہے اور دوسرا شہباز شریف کا ہے دونوں میں یکسوئی نہیں ہے۔وزیر خارجہ نے کہا کہ اگر اپوزیشن کا استعفوں پر اتفاق ہے اور آپ سنجیدہ ہیں تو 31 تاریخ تک آپ کے استعفے اسپیکر کے پاس ہونے چاہئیں۔انہوں نے کہا کہ لانگ مارچ کے حوالے سے بھی پی ڈی ایم میں اتفاق نہیں ہے۔
جاتی امرا میں ہونیوالی نشست میں کہا گیا کہ پہلی فروری کو پی ڈی ایم کا اجلاس بلایا جائے گا اور تاریخ کا اعلان کیا جائے گا۔13 تاریخ کو کارکنوں کو دعوت دی گئی اور کارکن آ گئے عوام کو لانے میں پی ڈی ایم ناکام رہی۔اگر لاہور والے بھی آ جاتے تو پی ڈی ایم کو مایوسی نہ ہوتی،لاہور سیاست کا مرکز ہے لاہوریوں نے ان کو اپنا فیصلہ سنا دیا،اگر ان کے جلسے میں جان ہوتی تو اسٹاک مارکیٹ کریش کر رہی ہوتی گین نہ کر رہی ہوتی۔پی ڈی ایم اس پر غور نہیں کر رہے کہ عوام نے ان کے بیان کو مسترد کیوں کیا لیکن یہ اپنی ناکامیوں کی ذمہ داری میڈیا پر ڈال رہے ہیں۔وزیر خارجہ نے کہا کہ لاہور ڈیکلریشن سامنے آیا جس میں الٹی میٹم دیا گیا کہ 31 جنوری تک وزیر اعظم پاکستان مستعفی یو جائیں۔بلے کے نشان کو ایک کروڑ ستر لاکھ ووٹ پڑا ہے وہ آپ کے کہنے پر مستعفی ہو جائیں؟آپ اپنے مطالبے وہ کریں جو آئین اور جمہوریت سے مطابقت رکھتے ہوں۔ایک شخصیت جن کے پاس عوام کا مینڈیٹ ہے وہ آپکی خواہش پر مستعفی ہو جائیں۔وزیر خارجہ نے کہا کہ 2013 کے انتخابات پر ہمیں بھی اعتراضات تھے پیپلز پارٹی نے کیا نہیں کہا تھا کہ 2013 کے انتخابات آر او الیکشنز ہیں اس طرح دیگر جماعتوں نے بھی اعتراضات اٹھائے لیکن آپ تو مستعفی نہیں ہوئے؟جب پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون اپنی ٹرن مکمل کرتے ہیں تو پی ٹی آئی کیوں مستعفی ہو جائے۔اگر آپ کو آج پی ٹی آئی کا مینڈیٹ منظور نہیں اور آپ تازہ انتخابات چاہتے ہیں فرض کریں آپ کو مینڈیٹ ملتا ہے تو پی ٹی آئی اسے کیوں تسلیم کریگی؟انہوں نے کہا کہ آپ اگر بے یقینی کی کیفیت کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں تو آپ نے سوچا معیشت کا کیا ہو گا؟آج معیشت بہتر ہو رہی ہے قوم آپ کے مقاصد جان چکی ہے اسی لیے انہوں نے آپ کی کال پر کان نہیں دھرے۔وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ بلاول نے اپنی تقریر میں کہا کہ گفتگو کا وقت چکا دوسرے دن وہ پریس کانفرنس میں کہتے ہیں کہ گفتگو ہو سکتی ہے لیکن اسمبلیوں کو پہلے تحلیل کیا جائے؟آپ کا یہ مطالبہ ہمیں قابلِ قبول نہیں ہے دھمکیوں سے تو بات نہیں ہو گی۔وزیر خارجہ نے بلاول کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بیٹا سیاست میں دروازے بند نہیں ہوتے آپ کو ابھی تربیت کی ضرورت ہے،آپ اپنے نانا سے سیکھ سکتے ہیں 1977 میں جب ان کے خلاف تحریک شروع کی گئی تو انہوں نے مذاکرات کی دعوت دی۔پی ڈی ایم سے متعلق وزیر خارجہ نے کہا کہ یہ اتحاد غیر فطری ہے اس کے پیچھے کوئی دوررس سوچ نہیں ہے۔یہ رویہ جمہوریت کیلئے نقصان دہ ہے تاریخ سے سبق سیکھیے جمہوریت ایک دفعہ نہیں کئی دفعہ ڈی ریل ہوئی،سیاست میں ڈھٹائی نہیں ہوتی بلکہ راستے تلاش کیے جاتے ہیں۔وزیر خارجہ نے کہا کہ
ہندوستان نے پاکستان کو فاٹف گرے لسٹ سے بلیک لسٹ میں دھکیلنے کی کوشش کی ہم نے اپوزیشن کو دعوت دی کہ پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے کیلئے آئیے ہم مل کر قانون سازی کریں لیکن انہوں نے فیٹف قوانین کو نیب کے قوانین میں ترمیم سے مشروط کر دیا۔وزیر خارجہ نے کہا کہ میں نے گذازش کی کہ آپ کے مطالبے پر بات ہو سکتی ہے لیکن اس کو نیب قوانین سے مشروط مت بنائیے۔انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم کا بیانیہ پٹ چکا لاہور پنجاب کا گڑھ ہے آپ نے تمام وسائل کا رخ لاہور کی طرف موڑا لیکن لاہور کے لوگ باشعور ہیں انہوں نے قومی مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے آپ کے بیانیے کو رد کیا۔ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم کشمیر کے مسئلے کو اٹھاتے ہیں اور آپ جلسوں اور احتجاج کے ذریعے توجہ ہٹاتے ہیں،ہم افغانستان میں قیام امن کیلئے کوشاں ہیں اور آپ امن عامہ کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیر خاجہ نے کہا کہ اتوار کے دن وزیر اعظم ریلیکس موڈ میں تھے اور گھر میں دھوپ سینک رہے تھے انہیں اطلاعات مل رہی تھیں کہ لاہور میں کیا ہو رہا ہے۔کرونا وبا سے بچاو¿ کیلئے حفاظتی ایس او پیز پر عملدرآمد سب کی بہتری میں ہے۔میں نے کابینہ میں بھی کہا کہ انہیں قلعہ کہنہ باغ میں جلسہ کرنے دیں تاکہ ان کی قلعی کھل جائے۔وزیر خارجہ نے کہا کہ
میری رائے یہ ہے کہ ہم نے گذشتہ تجربات سے بہت سیکھا ہے تیسری قوت جس کا نام لیا جا رہا ہے وہ اپنی پیشہ وارانہ زمہ داریاں نبھا رہے ہیں کرونا وبا ہو یا قدرتی آفات ہوں وہ اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہاں کچھ لوگوں کے ذاتی مفادات ہیں جن پر مقدمات ہیں انہیں رعایت درکار ہے باقی سب ایسے نہیں ہیں انہیں اپنی جماعتوں کے قائدین کو سمجھانا چاہیے۔وزیر خارجہ نے کہا کہ اسپیکر نے اپوزیشن کی تمام پارلیمانی جماعتوں کے قائدین کو دو دفعہ دعوت دی کہ آئیے کرونا کے حوالے سے مشترکہ حکمت عملی وضع کریں لیکن انہیں قابلِ قبول نہیں تھا۔پاک سعودی تعلقات کے حوالے سے وزیر خارجہ نے کہا کہ سعودی عرب کے ساتھ ہمارے دیرینہ برادرانہ تعلقات ہیں انہوں نے ہمیشہ مشکل وقت میں ہماری مدد کی ہم ان کے شکر گزار ہیں۔جب ہمیں ضرورت تھی تو سعودیہ نے تین ارب ڈالر بیلنس آف پے منٹ کے طور پر رکھوائی