اسلام آباد۔24اگست (اے پی پی):انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹڈیز اسلام آباد (آئی ایس ایس آئی)کے چائنا پاکستان اسٹڈی سینٹر(سی پی ایس سی) نے ڈاکٹر رابعہ اختر کی تدوین کردہ اور فریڈرک ایبرٹ اسٹفٹنگ (ایف ای ایس)کی جانب سے شائع کردہ کتاب’چین پاکستان اقتصادی راہداری2030 سے آگے، اے گرین الائنس فار سسٹین ایبل ڈیویلپمنٹ’کی رونمائی کا اہتمام کیا۔ تقریب کے مہمان خصوصی سینیٹر مشاہد حسین سید تھے جبکہ پاکستان میں چینی سفارتخانے کے منسٹر کونسلر سو ہنگتیان مہمان خصوصی تھے۔
معزز مبصرین میں چین میں پاکستان کی سابق سفیر نغمانہ ہاشمی، ایسوسی ایٹ پروفیسر قائد اعظم یونیورسٹی ڈاکٹر سلمی ملک اورسابق سی ای او خیبر پختونخوا بورڈ آف انویسٹمنٹ ڈاکٹر حسن داد بٹ بھی شامل تھے۔ ڈی جی آئی ایس ایس آئی سہیل محمود نے اپنے خطاب میں پاکستان کی خارجہ پالیسی میں ہر موسم میں پاک چین اسٹریٹجک کوآپریٹو پارٹنرشپ اور چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کو اس کا مرکزی جزو قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک بی آر آئی کے فلیگ شپ منصوبے کے طور پر چین کے مغربی صوبوں کو پاکستان کے راستے بحیرہ عرب سے ملاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ منصوبہ توانائی کی قلت اور بنیادی ڈھانچے کے خسارے جیسے اہم مسائل کو حل کرنے اور علاقائی رابطوں کو بڑھانے جیسے اہم مسائل کو حل کرنے کے لئے پاکستان کے لئے تبدیلی کا باعث ہے۔
تجارتی راستوں کی بحالی اور اقتصادی انضمام کو فروغ دے کر سی پیک ایشیا، مشرق وسطی اور اس سے آگے پاکستان کے مرکزی گیٹ وے کی حیثیت سے پاکستان کی اہمیت کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ انہوں نے 11 سال قبل سی پیک منصوبوں کے آغاز سے حاصل ہونے والے ٹھوس نتائج پر بھی روشنی ڈالی۔ سفیر سہیل محمود نے مزید کہا کہ یہ کتاب پائیدار ترقی کو آگے بڑھانے کے لئے سی پیک کی صلاحیت کو اجاگر کرتی ہے۔ اس میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ کس طرح سی پیک کو عالمی پائیداری کے اہداف اور اقوام متحدہ کے پائیدار ترقیاتی اہداف(ایس ڈی جیز) کے ساتھ ہم آہنگ کرتے ہوئے ایک سبز ترقیاتی اقدام میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔
گرین ٹیکنالوجیز اور پائیدار طریقوں کو یکجا کرکے سی پیک نہ صرف اقتصادی ترقی کو آگے بڑھانے بلکہ ماحولیاتی انتظام میں بھی قائدانہ کردار ادا کرنے کے لئے تیار ہے۔ یہ نقطہ نظر ماحولیاتی استحکام کے ساتھ معاشی فوائد کو متوازن کرنے کی اسٹریٹجک کوشش کی عکاسی کرتا ہے ، اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ سی پیک خطے کی طویل مدتی ترقی میں مثبت کردار ادا کرے۔ اس تناظر میں، اپنی قابل عمل سفارشات کے ساتھ، کتاب ان مقاصد کو آگے بڑھانے کے لئے ایک مربوط روڈ میپ کے طور پر کام کر سکتی ہے۔ایف ای ایس کے کنٹری ڈائریکٹر فیلکس کولبیٹز نے اس جلد کے مدیر اور مصنفین کا شکریہ ادا کیا اور انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹڈیز اسلام آباد کی حمایت اور تعاون کو سراہا۔
انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ یہ کتاب نئے خیالات کو جنم دے گی، مزید تحقیق کی حوصلہ افزائی کرے گی اور سی پیک کے فریم ورک کے تحت پائیدار ترقی اور اس سے آگے کی بحث میں معنی خیز رہنمائی کرے گی۔ سابق سفیر نغمانہ ہاشمی نے کہا کہ حالیہ دنوں میں کہیں بھی اقتصادی یا رابطے کے منصوبے کو دیکھنا مشکل اور بہت سارے جذبات اور مباحثوں کو جنم دیتنے کے مترادف تھا۔ کئی حوالوں سے یہ بڑی طاقتوں کے درمیان بڑھتے ہوئے جیو پولیٹیکل اور جیو اسٹریٹجک تنا ئو کا نتیجہ تھا، جہاں بی آر آئی اور اس سے متعلقہ منصوبوں کو بھی نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ ایک چینی رہنما کے قول کا حوالہ دیاجس میں "حقائق سے سچائی تلاش” کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کتاب میں بی آر آئی اور سی پیک کی حمایت میں جوابی بیانیہ پیش کیا گیا ہے۔ یہ کتاب نہ صرف چیلنجوں پر بحث کرتی ہے بلکہ طویل مدتی حل بھی پیش کرتی ہے۔
ڈاکٹر سلمی ملک نے کہا کہ کتاب میں سی پیک کے سیاسی، جغرافیائی اور ماحولیاتی پہلوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہ سی پیک 2.0 کے حصے کے طور پر "گرین سی پیک” کی وکالت کرتا ہے اور پائیدار ترقیاتی اہداف(ایس ڈی جیز) اور اقوام متحدہ کے رہنما خطوط کے ساتھ منصوبوں کو ہم آہنگ کرکے پائیدار ترقی پر زور دیتا ہے۔ ڈاکٹر حسن داد بٹ نے اس بات پر توجہ مرکوز کی کہ کس طرح سی پیک کے اہم پہلوئوں میں سے ایک ماحول دوست خصوصی اقتصادی زونز(ایس ای زیڈز)کی ترقی ہے۔ انہوں نے سفارش کی کہ حکومت ایس ای زیڈز میں نجی شعبے کی سرمایہ کاری کو آسان بنانے کے لئے صحیح پالیسیوں میں حصہ ڈالے۔
کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے اس جلد کی مدیر ڈاکٹر رابعہ اختر نے کہا کہ یہ اقتصادی اعداد و شمار سے ہٹ کر سی پیک کے تحت اپنے مستقبل کا ازسرنو تصور کرنے اور اس بات پر توجہ مرکوز کرنے کا مطالبہ ہے کہ ترقی اور پائیداری کو کس طرح ہم آہنگ کیا جائے تاکہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر چل سکیں۔ سی پیک نہ صرف تجارت کی راہداری ہونی چاہیے بلکہ شعور کی راہداری اور گرین الائنس بنانے کے لیے ایک کلیدی سنگ میل ہونا چاہیے۔ سو ہنگتیان نے کہا کہ مصنفین کی لگن اور ان کے تفصیلی کام نے ایک شاہکار تیار کیا ہے جو آنے والے سالوں میں سی پیک پر ایک قابل قدر وسیلہ کے طور پر کام کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک پر عملدرآمد کے دوران چین اور پاکستان دونوں کو پائیداری کے چیلنجز کا سامنا تھا۔ ان منصوبوں کو پورا کرنے کے لیے پاکستان میں پائیدار توانائی ٹیکنالوجی کی برآمد اور مینوفیکچرنگ سمیت متعدد منصوبے شروع کیے گئے ہیں جن میں شمسی اور ونڈ پاور کے شعبے بھی شامل ہیں۔
مہمان خصوصی سینیٹر مشاہد حسین سید نے اپنے خطاب میں اعادہ کیا کہ کس طرح چین نے بڑے پیمانے پر اصلاحات کیں، جدت حاصل کی اور اب’پرامن ترقی’ پر توجہ مرکوز کر رکھی ہے۔ چین میں فارچیون 500 کمپنیوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے اور اس نے800 ملین لوگوں کو غربت سے نکالنے میں مدد کی ہے ، جو انسانی تاریخ کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ مغربی ممالک اور ان کے اتحادی تنقید کے باوجود چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کی اپنے بی 3 ڈبلیو اور آئی ایم ای سی جیسے دیگر منصوبوں میں نقالی کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ چین واحد ملک ہے جس نے اپنی ترقی سے دوسرے ممالک کی ترقی میں مدد کی ہے اور دوسرے ممالک کو توسیع یا نوآبادیات بنائے بغیر ان کی طاقت میں حصہ ڈالا ہے۔
انہوں نے سی پیک کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے اور اس کی سرسبز ترقی کے لئے مستقبل کے لائحہ عمل کی تجویز پیش کرتے ہوئے عظیم کام کرنے پر ایڈیٹر اور مصنفین کی تعریف کی۔ قبل ازیں ڈاکٹر طلعت شبیر نے کہا کہ یہ کتاب سی پیک کے 11 سال بعد ایک عکاس اور روڈ میپ دونوں کا کام کرتی ہے۔ اجلاس میں پاکستان کے بنیادی ڈھانچے اور معیشت کو تبدیل کرنے میں سی پیک کی قابل ذکر پیش رفت کا جائزہ لیا گیا ہے جبکہ 2030 کے بعد آنے والے چیلنجز اور مواقع کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔ اپنے اختتامی کلمات میں خالد محمود نے کہا کہ سی پیک کوئی اکیلا معاملہ نہیں ہے۔
یہ وسیع تر بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کی سرخیل ہے جو انسانی تاریخ کا سب سے بڑا اور سب سے زیادہ پرعزم بنیادی ڈھانچے کی ترقی کا منصوبہ ہے۔ اس منصوبے کو درحقیقت بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے جن میں بہت سے ممالک کی مخالفت بھی شامل ہے اور اس کے لئے ایک موثر جوابی بیانیہ تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ کتاب کی رونمائی کی تقریب میں سفارتکاروں، ماہرین تعلیم، تھنک ٹینک کے ماہرین، طلبا، کاروباری برادری اور میڈیا کے ارکان سمیت مختلف طبقوں نے شرکت کی۔