ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم خان سوری کی نیشنل ڈائیلاگ فورم کے ‘لیڈرز انٹرن شپ پروگرام 2021’ کے شرکاء کے وفد سے ملاقات

78

اسلام آباد۔30جنوری (اے پی پی):ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم خان سوری نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ پاکستان کا سب سے بڑا قانون ساز ادارہ ہے جس میں قانون سازی کے لیے پورے ملک سے منتخب عوامی نمائندے آتے ہیں، عالم اسلام میں پاکستان کی سب سے الگ حیثیت ہے جو کہ دو قومی نظریے اوراسلام کے نام پر بناہے،حضور نبی اکرم ﷺ نے سب سے پہلے مدینہ کی ریاست بنائی جو پہلی فلاحی اسلامی ریاست تھی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ہفتہ کو پارلیمنٹ ہاؤس کے دورے پر آئے ہوئے نیشنل ڈائیلاگ فورم کے ‘لیڈرز انٹرن شپ پروگرام 2021’ کے شرکاء کے وفد سے باتیں کرتے ہوئے کیا، وفد کے شرکاء میں پاکستان کی مختلف یونیورسٹیوں کے طلباء اور طالبات شامل تھے، وفد کے شرکاء نے قومی اسمبلی کا دورہ کیا اور قومی اسمبلی کے اجلاس کی کاروائی بھی دیکھی۔ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی نے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مختلف ادوار میں مسلمان آبادیوں پر مشتمل بہت سے ممالک تھے لیکن مملکت پاکستان کو 1947 مین ہمارے بزرگوں نے صرف اس مقصد کے لیے حاصل کیا تھا کہ ہم اسلام کی تعلیمات کے مطابق اپنی زندگیاں گزار سکیں جہاں ہم اقتصادی، معاشی، سماجی اور مذہبی طور پر آزاد مسلمانوں کی حیثیت سے اپنی زندگی گزاریں جو کہ ہم 1947 سے پہلے نہیں گزار سکتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان بنانے میں قائد اعظم محمد علی جناح کی انتھک محنت، علامہ اقبال کی سوچ اور برصغیر کے مسلمانوں کی بے شمار قربانیاں شامل تھیں۔ 1947 سے پہلے مسلمانوں کو بہت تنگ کیا جاتا تھا اور اپنی زندگیاں اسلام کے مطابق گزارنے پر بدترین دباؤ میں تھے، پاکستان کی بنیاد دو قومی نظریے پر رکھی گئی کہ مسلمان اور ہندو دو الگ قومیں ہیں جن میں کچھ بھی مشترک نہیں ہے اور مسلمانوں کو اپنے لیے ایک الگ ملک اور شناخت چاہیے۔ اس حوالے سے پاکستان دنیا کا واحد اسلامی ملک ہے جو کہ ایک نظریے کی بنیاد پر بنا۔ قاسم خان سوری نے کہا کہ پاکستان کی 65 فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے کسی بھی مسلم ملک میں نوجوانوں کی اتنی بڑی تعداد ہے اور آپ تمام نوجوان پوری مسلم امہ کی نمائندگی کرتے ہو آپ لوگوں سے بہت سی امیدیں وابستہ ہیں انشاء اللہ آنے والے وقتوں میں آپ میں سے بہت سے اس قانون ساز ادارے میں منتخب ہو کر آئیں گے اور قانون سازی عمل میں حصہ لیں گے، آپ سب نے پاکستان کے بہتر مستقبل اور پوری مسلم امہ کی قیادت کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرو گے۔ ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ کورونا وائرس کی عالمی وبا میں ترقی یافتہ ممالک جو کہ ریسرچ میں بہت آگے نکل چکے ہیں اور عوامی صحت، تعلیم، تربیت پر بے تحاشا پیسہ خرچ کرتے ہیں وہ بھی اس وبائی مرض کا مقابلہ نہیں کر سکے اور ان کے میڈیکل سسٹمز بے بس ہو گئے لاکھوں کی تعداد میں ہلاکتیں ہوئیں معیشتیں تباہ ہو گئیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان جو کہ ایک ترقی پذیر ملک ہے اور سابقہ حکمرانوں کی غلط پالیسیوں اور کرپشن کی وجہ سے بری طرح سے مقروض ہے اور صحت، تعلیم و تربیت پر کسی بھی دور میں اتنا پیسہ نہیں لگایا گیا جتنا لگنا چاہیے تھا۔ الحمدللہ موجودہ حکومت نے اللہ تعالیٰ کی مدد سے وزیراعظم عمران خان کی قیادت اور بہترین پالیسیوں کے باعث اس وبا پر قابو پایا اور جانی، اقتصادی و معاشی نقصانات باقی دنیا کے مقابلے میں بہت کم ہوئے۔ ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کا کہنا تھا کہ وبا کے دوران پاکستان میں جی ڈی پی گروتھ صرف 5 فیصد کم ہوئی جبکہ ہمارے ہمسایہ ملک ہندوستان میں جی ڈی پی میں 11 فیصد کمی آئی ہے جبکہ برطانیہ میں 7 فیصد ، یورپ میں 5،6 فیصد ، خطے کے ممالک میں سری لنکا اور بنگلہ دیش میں بھی 5،6 فیصد کمی واقع ہوئی۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت نے اس وبائی مرض کے دوران انڈسٹریز کو پیکیجز دیے کنسٹرکشن انڈسٹری کو بڑا ریلیف اور پیکج دیا، ہماری ایکسپورٹ 7.5 فیصد بڑھی، سب سے بڑی کامیابی کورونا کے دوران پاکستان بہت سی چیزوں میں خود کفیل ہو گیا ہم نے ایٹم بم بنایا ہوا تھا لیکن ہم وینٹی لیٹر نہیں بنا سکتے تھے جب ہم ہے مشکل وقت آیا تو ہم نے وینٹی لیٹرز بنائے ماسک تک پوری دنیا چین سے امپورٹ کرتی تھی لیکن ہم نے نہ صرف ماسک بنائے ڈاکٹرز کے لیے حفاظتی کٹس بنائیں بلکہ آج ہم یہ سب ایکسپورٹ کر رہے ہیں، ہم نے اس سخت وقت میں بہت سی کامیابیاں حاصل کیں۔قاسم خان سوری نے کہا کہ دنیا میں وہ ملک آگے جاتا ہے جو اپنی چیزیں ایکسپورٹ کرتا ہے اپنی بنائی ہوئی چیزیں دوسرے ممالک میں بیچتا ہے۔ اس سے پہلے ہم ہر چیز چین سے منگواتے تھے لیکن اب ایسا نہیں ہے ہم نے کاروباری طبقے کو سہولیات اور مراعات دیں تاکہ وہ پاکستان کی چیزیں ایکسپورٹ کریں اور الحمدللہ آج پاکستان دنیا کی بڑی انٹرنیشنل ںرانڈز بنا کر ایکسپورٹ کر رہا ہے جو کہ انٹرنیشنل مارکیٹ میں دوسری بڑی ںرانڈز کا مقابلہ کر رہی ہیں۔ ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کا مزید کہنا تھا کہ کووڈ لاک ڈاؤن کے دوران ہماری حکومت نے احساس پروگرام کے تحت غربت کی لکیر سے نیچے لوگوں میں 12 ہزار کے حساب سے کیش رقوم تقسیم کیں اور صاف و شفاف طریقے سے یہ رقم 1 کروڑ 67 لاکھ خاندانوں تک پہنچائے۔انہوں نے کہا کہ ہم نے فیٹف بل اس وقت پاس کروایا جب پاکستان گرے سے بلیک لسٹ میں شامل ہونے جا رہا تھا ہم پر اقتصادی پابندیاں لگنے والی تھیں اور بین الاقوامی قانون کے تحت باقی دنیا کے ساتھ ہمارے لین دین بند ہونے والا تھا۔ قاسم خان سوری نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے زیادہ سیمنٹ پچھلے چند میں فروخت ہوا جس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں اقتصادی و معاشی سرگرمیاں شروع ہو گئی ہیں۔ پاکستان کی تاریخ کی سب سے زیادہ گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی فروخت پچھلے چند ماہ میں ہوئیں جو کہ ایک مثبت چیز ہے۔ ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ جنوبی بلوچستان کے 9 پسماندہ ترین اضلاع تربت، خضدار، مند، بلیدہ، تمپ، آواران، پنجگور، گوادر اور پسنی کے لیے ایک بہت بڑے پیکج کا تاریخی اعلان کیا تاکہ وہاں کے لوگوں کی زندگی میں تبدیلی آئے اور یہ علاقے اقتصادی طور پر مضبوط ہوں اور پچھلی حکومتوں کی طرح بلوچستان کے عوام کو سبز باغ نہیں دکھائے، 600 ارب روپے کے جنوبی بلوچستان پیکج میں 540 ارب روپے وفاقی حکومت دے رہی ہے اور شمالی بلوچستان پیکج پر کام ہو رہا ہے، 47 سال کے بعد کوئی منتخب وزیراعظم ان علاقوں میں گیا ہے۔ قاسم خان سوری نے کہا کہ ہماری حکومت نے وزیرستان اور فاٹا کے عوام کو ان کے مساوی حقوق دیئے ہم نے فاٹا کو نمائندگی دی اور صوبہ خیبرپختونخواہ میں شامل کیا سب سے بڑا تاریخی اقدام وہاں پر صوبائی اسمبلی کے انتخابات تھے، پوری کوشش ہے کہ ہم پاکستان کو مضبوط کریں اور ایک قوم بنائیں۔ ہم سب کو ایک پاکستانی سوچ کی طرف جانا ہے پٹھان، بلوچ، سندھی، پنجابی کی الگ الگ سوچ کو ختم کرنا ہے اور اس سوچ کو پروان چڑھانا ہے کہ ہم ایک مسلم امہ کے نمائندے ہیں۔ ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی نے وفد کے شرکاء سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تعلیمی اداروں میں سلیبس ایک ہونے جا رہا ہے پورے ملک میں 1 تا 5 کلاس سلیبس جلد ہی ایک ہو جائے گا۔ آپ سب نے اپنی اپنی تعلیم میں بھرپور محنت کرنی ہے آپ سب خوش قسمت طالب علم ہیں کہ آپ کے والدین اتنے بڑے تعلیمی اداروں میں آپ کو پڑھا رہے ہیں اور آپ کے مستقبل پر اتنا خرچ کر رہے ہیں، آج بھی ڈھائی سے تین کروڑ بچے غربت کے باعث اسکولوں میں نہیں جا سکتے ہیں اس لیے آپ سب پر بہت بڑی زمہ داری عائد ہوتی ہے کہ آپ نے اپنے اپنے شعبوں میں محنت کرنی ہے اور اپنے والدین اور ملک کا نام روشن کرنا ہے، دنیا میں کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے اور وہی شخص آگے جاتا ہے جو محنت کرتا ہے۔