ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کیخلاف درخواست پر سماعت کیلئے سپریم کورٹ کا فل بینچ تشکیل دیا جائے،وفاقی وزیر قانون اور وزیر داخلہ پنجاب کی مشترکہ پریس کانفرنس

لاہور۔24جولائی (اے پی پی):وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اور وزیر داخلہ پنجاب عطااللہ تارڑ نے کہا ہے کہ ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کیخلاف درخواست پر سماعت کیلئے سپریم کورٹ کا فل بینچ تشکیل دیا جائے ،اہم نوعیت کے معاملات پر فل بینچ بیٹھتا ہے ،مسلم لیگ ن اداروں کیخلاف مہم چلانے پر یقین نہیں رکھتی ۔ان خیالات کا اظہار انہوں اتوار کے روز ماڈل ٹائون میں مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ بنیادی طور پر یہ مقدمہ آرٹیکل 63اے کی تشریح کا ہے ،سپریم کورٹ پہلے سے دائر درخواستوں کو یکجا کرکے اسے سنے ،سیاسی واہم نوعیت کے مقدمات کیلئے فل کورٹ کی آپشن ہونی چاہئے تاکہ انصاف ہوتا نظر آئے ۔انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے پانچ سابق صدور لطیف آفریدی،یٰسین آزاد،فضل حق عباسی،کامران مصطفی اور قلب عباس نے بھی یہی مطالبہ دہرایا ہے ۔

انہوں نے کہاکہ عدالت کا پانچ اور آٹھ رکنی بینچ آرٹیکل 63اے پر فیصلہ دے چکا ہے ،اب فل کورٹ ہی اس مقدمے کو سنے ،حمزہ شہبا ز کے وکلاء بھی یہ بات کہ رہے ہیں کہ مقدمہ کی ا ہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے فل کورٹ بیٹھایا جائے۔انہوں نے مزید کہا کہ ماضی میں سپریم کورٹ کے ایک جج کے بارے میں ریفرنس فائل ہوا، اس پر بھی فل کورٹ بنایا گیا تھا،12کروڑ عوام کے نمائندہ کو اگر گھر بھیجنا ہے تو عدالت درخواست کو سنجیدگی کے ساتھ سنے ۔وفاقی وزیر نے کہا کہ پرویز الہیٰ کی جانب سے سپریم کورٹ لاہوررجسٹری میں درخواست کیلئے رات پونے ایک بجے عدالت کو کھولا گیا اور عملہ بھی پہنچ گیالیکن درخواست تیار نہیں تھی،

ان کی پارٹی کے کئی لوگوں نے دیواریں پھلانگ کر عدالت میں داخل ہونے کی کوشش کی ۔انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان سے اپیل کی کہ اس اہم مقدمے کی سماعت کیلئے فل کورٹ بنچ تشکیل دیا جائے۔اس موقع پر وزیر داخلہ پنجاب عطااللہ تارڑ نے بھی ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کیخلاف پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ق) کی درخواست پر سماعت کیلئے سپریم کورٹ کے 3 رکنی بنچ بنانے پرتحفظات کا اظہار کرتے ہوئے فل بنچ کا مطالبہ کیا۔انہوں نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر نے پچھلے الیکشن کی گنتی بتائی،کسی نے تنازعہ نہیں بنایا،اہم نوعیت کے معاملات پر لارجر یا فل بنچ بیٹھتا ہے،

اس معاملے پر سپریم کورٹ کا فل بنچ بیٹھے اورسماعت کرے۔ عطا تارڑ نے کہا کہ ہم نے آئین کے مطابق کامیابی حاصل کی،25ارکان کو ڈی سیٹ کرکے ضمنی الیکشن کرائے گئے،ماضی کے کیسز میں فیصلے دیے گئے۔ انہوں نے کہا کہ کامیابی آئین اور قانون کے مطابق ہے ،25 ارکان کے ووٹ مسترد کرکے انہیں ڈی سیٹ کیا گیا ،ان پچیس ارکان کو پرویز الہی کو ووٹ ڈالنے کی کہاں ڈائریکشن ثابت ہوئی ،پرویز الہی کو تو پہلے رائونڈ میں صفر ووٹ پڑے تھے ، اس کیس میں فل بنچ بیٹھے اور اس معاملے کو سنے ۔ انہوں نے کہا کہ آئینی بحران پیدا کرنے والے کس منہ سے عدالت گئے ،پارٹی سربراہ کے اختیارات لا محدود ہیں ،(ق) لیگ ثابت کرے کہ پارلیمانی پارٹی نے ووٹ کے لیے ہدایت کی،آئین کی شقوں کی تشریح کے لیے فل کورٹ بنانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔

وزیر داخلہ پنجاب نے فواد چوہدری کے بارے میں کہا کہ اس نے زندگی میں کبھی سچ نہیں بولااور اس سے بہتر خوشامدی بھی کوئی نہیں ۔فواد چوہدری اور حماد اظہر الزامات پر مبنی مہم چلارہے ہیں ۔انہوں نے کہاکہ پارٹی سربراہ کو لامحدود اختیارات حاصل ہیں ،(ق)لیگ کی پارلیمانی پارٹی کہ اجلاس میں کو نسا فیصلہ ہوا، اس کا کوئی ثبوت نہیں جبکہ دعوی کیا جارہا ہے کہ 21جولائی کو پارلیمانی پارٹی کا اجلاس ہوا تھا۔انہوں نے کہاکہ (ق)لیگ کی پارلیمانی پارٹی کے سربراہ کے بارے میں پہلے کبھی نہیں سنا۔انہوں نے کہا کہ عمران خان پارٹی سربراہ کے طورپر جب پرویز الہیٰ کو ووٹ دینے کا کہتا ہے تو ہمارے 25ووٹ کم کردیئے گئے

جبکہ (ق)لیگ کی پارٹی کا سربراہ جب اپنے خط ذریعے حمزہ شہباز کو ووٹ دینے کی بات کرے تو اس پر احتجاج کیا جاتا ہے۔ایک سوال کے جواب میں وفاقی وزیر قانون نے کہا کہ( ق)لیگ سیکرٹری جنرل طارق بشیر چیمہ نے کہا کہ (ق)لیگ کے 10ارکان اسمبلی کو پہلے ہی زبانی بتا دیا گیا تھا اور پھر ٹی سی ایس کے ذریعے بھی پیغام بھجوایا گیا،اس میں کوئی ابہام نہیں ہے۔

انہوں نے ایک اور سوال کے جواب میں کہا کہ عدالت ایک فیصلہ جاری کرے گی کہ ٹرسٹی وزیر اعلیٰ کا مطلب کیا آئین پاکستان کا مطلب ہے کہ وزیر اعلیٰ اور اس کی کابینہ کے بغیر ہم صوبے کو نہیں رکھ سکتے۔انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم پاکستان کی عوام کی ہے ،(ن)لیگ اداروں اور عدالتوں کا احترم کرتی ہے۔ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جب پارٹی ہیڈ کہ رہا ہے کہ حمزہ شہباز کوووٹ دیں ،ڈپٹی سپیکر کی رولنگ آئینی اور قانونی ہے ،ابھی تک چوہدری شجاعت کالیٹر عدالت میں پیش نہیں کیا گیا،63اے کی تشریح فل کورٹ کرے تاکہ انصاف کے تقاضے پورے ہوسکیں۔