کابینہ ، نیب، آئی بی و دیگر اداروں کو ختم کرنے کے اپوزیشن کے مطالبات کٹوتی کی تحاریک نہیں، این آر او کی درخواستیں تھیں ، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ اور کٹوتی کی تحریک میں اس کی مخالفت دورنگی ہے، ڈاکٹر بابر اعوان

56

اسلام آباد۔26جون (اے پی پی):وزیراعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان نے کہا ہے کہ کابینہ کو اس پارلیمان سے کنٹرول کیا جاتا ہے کسی دوسرے ملک سے نہیں، اپوزیشن کی جانب سے کابینہ، نیب، آئی بی سمیت دیگر اداروں کی بندش کی بات دراصل گرینڈ این آر او کے لئے درخواستیں ہیں، موجودہ حکومت نے اپنے اخراجات میں نمایاں کمی کی ہے جبکہ اپوزیشن کی جانب سے کابینہ ڈویژن کے ماتحت اداروں کی کارکردگی کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

ہفتہ کو قومی اسمبلی میں کابینہ ڈویژن سے متعلق کٹوتی کی تحاریک پر بحث سمیٹتے ہوئے وزیراعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان نے کہا کہ ورلڈ کپ کی توہین قابل مذمت ہے، یہ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں کروڑوں کرکٹ شائقین کی توہین ہے، ایوان میں پارلیمانی گفتگو ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ توقع تھی کہ اپوزیشن کی طرف سے بجٹ پر کٹوتی کی تحریک آتی تاہم جو تحاریک آئی ہیں وہ اقتدار اور کرسی کی جانب شارٹ کٹ کی تحریکیں تھیں۔ انہوں نے کہا کہ کفایت شعاری کی مہم وزیراعظم عمران خان نے شروع کی، اس مہم میں سپیکر قومی اسمبلی کی قیادت میں پارلیمان نے بھی حصہ لیا اور تین برسوں میں تیسری بار سپیکر نے کفایت شعاری کرکے خزانے میں پیسے واپس جمع کرائے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان اپنے گھر میں رہتے ہیں۔ انہوں نے اپنے گھر کے قریب سڑک کو بھی اپنے خرچے پر بنایا ہے۔

شرم ان لوگوں کو آنی چاہیے جنہوں نے اپنے گھر کی دیوار پر قوم کے 83 کروڑ روپے خرچ کئے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے پانچ پانچ پی ایم آفس اور دس دس سی ایم آفس نہیں بنائے۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کی جانب سے کابینہ ، نیب، آئی بی ، ایسٹ ریکوری یونٹ، پیپرا اور این ڈی ایم اے کے اداروں کو ختم کرنے کے مطالبات آئے ہیں درحقیقت یہ کٹ موشن نہیں بلکہ گرینڈ این آر او کی درخواستیں تھیں جسے وزیر خزانہ نے نو کہہ کر مسترد کردیا ہے۔

وزیر خزانہ نے گرینڈ این آر او کے مطالبے پر حکومت کی جانب سے انکار کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسٹ ریکوری یونٹ کے سربراہ تنخواہ نہیں لیتے۔ آہوں، سسکیوں اور اس سے ملتی جلتی آوازیں اس لئے آئی ہیں کیونکہ موجودہ دور میں 10 ہزار ارب سےزیادہ ریکوریاں سندھ سے ہوئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت قومی سلامتی سے متعلق اداروں بشمول آئی بی کو مضبوط کر رہی ہے۔ قوم سازی کے اداروں کے لئے بہت تھوڑے پیسے رکھے ہیں اس میں اضافہ ہونا چاہیے، دنیا کی معیشتیں سکڑ رہی ہیں جبکہ ہماری معیشت بڑھوتری دکھا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کی کٹوتی کی تحاریک زیادہ تر عمومی نوعیت کی تھیں، وزرا، معاونین خصوصی اور مشیروں کی تعیناتی پر سوال اٹھایا گیا ہے۔

مشیروں اور معاونین خصوصی کا تقرر آئین کے مطابق کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر بابر اعوان نے کہا کہ ماضی میں روٹی کپڑا اور مکان کے وعدے کئے گئے تھے، کووڈ۔ 19 کے دوران احساس پروگرام خطے کی تاریخ کا پہلا شفاف پروگرام بنا جس میں غریب لوگوں کو روٹی اور کپڑے کے لئے چاروں صوبوں میں ان کے گھروں میں پیسے بھجوائے گئے۔ رقوم کی منتقلی میں جن اداروں نے اپنا کردار ادا کیا ان میں این ڈی ایم اے بھی شامل ہے۔ 73 برسوں میں پہلی بار غریب لوگوں کو گھروں کی فراہمی کے لئے ہائوسنگ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا اور اس کے لئے پارلیمنٹ سے ایکٹ کی منظوری دی گئی۔

دیہات کے لوگوں کو جھونپڑوں اور ٹینٹ کی بجائے اپنے گھر کی تعمیر کے لئے 3 سے 5 لاکھ اور شہر میں رہنے والے لوگوں کو 7 لاکھ روپے سے زیادہ کے آسان قرضے پہلی بار فراہم کئے جارہے ہیں۔ پورے پاکستان میں ہائوسنگ کے فلیگ شپ پروگرام کے تحت گھروں اور اپارٹمنٹس کی تعمیر جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک فاضل رکن نے کہا ہے کہ کابینہ انڈر کنٹرول ہے، کابینہ اس ہائوس کے کنٹرول میں ہے، سرحد کے پار سے اسے کوئی کنٹرول نہیں کر سکتا۔ انہوں نے کہا کہ ایک جانب اپوزیشن کی جانب سے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافے کے مطالبات آتے ہیں جبکہ کٹوتی کی تحریک کے ذریعے اس کی مخالفت کی جاتی ہے، یہ دو رنگی چھوڑنا ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ایک فاضل رکن نے شاخوں پر الو کے بیٹھنے کا ذکر کیا ہے۔

سارے الو اس وقت لندن میں ہیں۔ پاکستان میں کسی بھی شاخ پر الو کے بیٹھنے کی گنجائش نہیں ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی رانا تنویر نے کٹوتی کی تحاریک پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ 3 سالوں میں حکومت کی کارکردگی سب کے سامنے ہے۔ وفاقی کابینہ 50 ارکان سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ ترجمانوں کی ایک بڑی تعداد بھی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اس وقت پوسٹ آفس کا کردار ادا کر رہی ہے۔ اوگرا، پیپرا اور نیپرا کی کارکردگی میں کمی آئی ہے حالانکہ یہ ریگولیٹری ادارے ہیں۔ اسی طرح پیمرا اور نیب کی کارکردگی پر بھی غور کرنا چاہیے۔ ان اداروں کا احتساب کرنا ضروری ہے۔

ایف بی آر کو گرفتاریوں کا اختیار نہیں دینا چاہیے۔ پیپلز پارٹی کے رکن عبدالقادر پٹیل نے کہا کہ کابینہ ڈویژن ایک پھیلا ہوا موضوع ہے۔ گھروں اور روزگار کے وعدوں پر عمل نہیں کیا گیا۔ کووڈ۔19 کے لئے بیرونی معاونت کی آڈٹ رپورٹ میں بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ رکن قومی اسمبلی شاہدہ اختر علی نے کہا کہ بیروزگاری کے سنگین حالات ہیں، پبلک سروس کمیشن کو اربوں روپے دیئے جارہے ہیں اس کے باوجود امتحانات کے لئے نجی اداروں کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں اور یہ ادارے ملازمت کے لئے درخواستیں دینے والوں سے پیسے وصول کرتے ہیں۔ پبلک سروس کمیشن کو یہ امتحانات لینا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ شہری ہوا بازی ڈویژن کو تقسیم کرنا چاہیے۔ این ڈی ایم اے کا آڈٹ ظاہر ہونا چاہیے۔

آغا حسن بلوچ نے کہا کہ کابینہ ڈویژن اہمیت کا حامل ہے، احتساب بلا تفریق اور سب کا ہونا چاہیے۔ گوادر سی پیک کا گیٹ وے ہے مگر وہاں کا ایم پی اے پابند سلاسل ہے۔ بلوچستان کے نوجوانوں کے لئے تعلیمی وظائف ختم کئے جارہے ہیں۔ جعلی ڈومیسائل پر نوکریاں دی جارہی ہیں۔ طاہرہ اورنگزیب نے کہا کہ وزیراعظم نے کفایت شعاری کا وعدہ کیا تھا تاہم اس کے برعکس اخراجات میں اضافہ ہوا ہے۔ دو کروڑ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے ہیں۔ ناز بلوچ نے کہا کہ کفایت شعاری کے وعدے کے برعکس کابینہ، مشیروں اور معاونین خصوصی کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ نیب سفید ہاتھی ہے اس پر اربوں روپے خرچ ہو رہے ہیں تاہم ریکوریز کی تعداد بہت کم ہے۔ کامیاب جوان پروگرام کی ویب سائٹ پر 20 لاکھ سے کم قرضے کی درخواستیں موصول نہیں ہو سکتیں۔