کسانوں کیلئے 1800ارب روپے کے تاریخی قومی زرعی پیکیج کا اعلان ، کسانوں کو 13 روپے فی یونٹ بجلی ،تین لاکھ سولر ٹیوب ویلز کیلئے بلاسود قرضے فراہم کریں گے، وزیراعظم شہباز شریف

اسلام آباد۔31اکتوبر (اے پی پی):وزیراعظم محمد شہباز شریف نے پاکستان کی معاشی ترقی کیلئے زرعی ترقی اور کسانوں کی بہبود کو ناگزیر قرار دیتے ہوئے کسانوں کیلئے 1800 ارب روپے سے زائد مالیت کے تاریخی قومی زرعی پیکیج کا اعلان کر دیا ہے جس کے تحت پانچ سال تک استعمال شدہ ٹریکٹر درآمد کئے جا سکیں گے، تین لاکھ ٹیوب ویلز کو سولر پر منتقل کرنے کیلئے بلاسود قرضے فراہم کریں گے، کسانوں کیلئے 13 روپے فی یونٹ فکسڈ قیمت پر بجلی فراہم کی جائے گی۔

پیر کو وزیراعظم آفس میں وفاقی وزر اء اسحاق ڈار، طارق بشیر چیمہ، رانا ثناء اﷲ، مریم اورنگزیب اور مرتضیٰ محمود کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ سیلاب سے 40 لاکھ ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہوئیں، وفاق نے 70 ارب روپے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور 18 ارب روپے این ڈی ایم اے کے ذریعے تقسیم کئے ہیں، کسانوں کو 1800 ارب روپے کے قرض دیئے جائیں گے جو گزشتہ سال کے مقابلہ میں 400 ارب روپے زیادہ ہیں، چھوٹے کاشتکاروں کے قرض میں ریلیف کیلئے 10 ارب 60 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں، متاثرہ علاقوں میں چھوٹے صوبوں کو صوبائی حکومت کے ساتھ مل کر 8 ارب 60 کروڑ روپے مہیا کئے جائیں گے، دیہی علاقوں میں بے روزگار نوجوانوں کو قرض پروگرام میں شامل کیا گیا ہے اس کیلئے 50 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں، اس پر 6 ارب 40 کروڑ روپے کی سبسڈی دی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ ڈی اے پی کا زرعی پیداوار بڑھانے میں کلیدی کردار ہے، ہم باہر سے مہنگی گیس خرید کر فرٹیلائزر کمپنیوں کو سستے داموں مہیا کرتے ہیں، اس پر ہم نے بات چیت کے بعد 2500 روپے فی بوری قیمت کم کرائی ہے، اس سے کاشتکاروں کو 58 ارب روپے کا فائدہ ہو گا، اب 11 ہزار 250 روپے فی بوری دستیاب ہو گی جو 14 ہزار روپے کے لگ بھگ تھی، جن وزراء اور افسروں نے یہ رقم کم کرائی ہے انہیں عوامی تحسین دی جائے گی۔

وزیراعظم نے کہا کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں کیلئے سرٹیفائیڈ بیج کے 12 لاکھ تھیلوں کی فراہمی کیلئے 13 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں اس میں وفاق اور صوبے 50، 50 فیصد حصہ ڈالیں گے، سیلاب زدہ علاقوں کے بے زمین ہاریوں کیلئے بلاسود 5 ارب روپے قرض سبسڈی دی جائے گی، پی آئی یو 4 ہزار سے بڑھا کر 10 ہزار تک کر دیا ہے جس کی بنیاد پر اب کاشتکار زیادہ قرض لے سکیں گے، ایس ایم ایز معیشت میں ریڑھ کی ہڈی ہوتے ہیں، ان کیلئے بینک قرض فراہم نہیں کرتے تھے، وزیر خزانہ بینکوں کو کہیں کہ وہ انہیں قرض فراہم کریں، ان کو اس حوالہ سے پابند کیا جائے کہ وہ ایس ایم ایز کو قرض دیں، بینک حکومتی بانڈز پر منافع لے کر اپنی آمدن کیلئے آسانیاں تلاش کرتے ہیں، ان کیلئے 10 ارب روپے کی سبسڈی دی جا رہی ہے، تین لاکھ ٹیوب ویلوں کو سولر پر منتقل کرنے کیلئے بلاسود قرضے دیں گے۔

وزیراعظم نے کہا کہ ایس ایم ایز کو زرعی شعبہ میں شامل کیا گیا ہے، پاکستان میں اس وقت ٹریکٹر پر اجارہ داری ہے، اس کی قیمت عام کاشتکار کی پہنچ سے باہر ہے، ٹریکٹر درآمد پر پابندی عائد کی گئی ہے، ہم نے ٹریکٹروں کی قیمتیں کم کرانے کی پوری کوشش کی لیکن ان کی جانب سے انکار کر دیا گیا، یہ ایک مشکل وقت تھا، ایسے وقت میں انہیں آگے بڑھنا چاہئے تھا، حکومت نے مجبور ہو کر یہ فیصلہ کیا ہے کہ پانچ سال تک استعمال شدہ ٹریکٹر درآمد کرنے کی اجازت دی جا رہی ہے، اس پر انہیں 50 فیصد ڈیوٹی میں چھوٹ دی جائے گی تاکہ زرعی شعبہ آگے بڑھے۔

وزیراعظم نے کہا کہ پانچ لاکھ ٹن یوریا درآمد کی جا رہی ہے جس میں سے 2 لاکھ ٹن آ چکی ہے، وزیر صنعت نے اس کی قیمت میں نمایاں کمی کرائی، گندم اور چینی کی درآمد اور برآمد کے حوالہ سے گزشتہ حکومت کا موجودہ حکومت سے موازنہ کر لیا جائے، تین لاکھ ٹن مزید یوریا کی درآمد کا انتظام کیا جا رہا ہے، پاکستان کی معیشت کو مضبوط بنانے کیلئے یوریا کی مد میں 30 ارب روپے سبسڈی مختص کی گئی ہے تاکہ کاشتکار کو سستی یوریا مل سکے۔

وزیراعظم نے کہا کہ ٹریکٹر سازی میں نئے انٹرپرینیور کا خیرمقدم کریں گے، انہیں بیرون ملک سے پرزوں کی درآمد پر ڈیوٹی میں 35 فیصد سے چھوٹ دے کر 15 فیصد کریں گے، ان کو مراعات دیں گے تاکہ ان کی حوصلہ افزائی ہو اور وہ یہاں سرمایہ کاریں کریں، 40 سال میں اس شعبہ سے اربوں روپے کمائے گئے، یہ طے تھا کہ مرحلہ وار ٹریکٹر اندرون ملک مکمل طور پر تیار کئے جائیں گے تاہم آج تک سو فیصد مقامی سطح پر ٹریکٹر تیار نہیں ہو رہے، ٹریکٹر کے تیار کنندگان کیلئے ضروری تھا کہ وہ مقامی سطح پر آلات کی تیاری کیلئے اقدامات اٹھاتے، 40 سال میں 90 فیصد تک ٹریکٹر کے پرزے مقامی سطح پر تیار ہو رہے ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ گذشتہ دور حکومت میں کھاد بلیک میں فروخت ہونے سے مل نہیں رہی تھی اس لئے مجبوراً باہر سے منگوانی پڑی، ہم نے 26 لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کا فیصلہ کیا جس میں سے 10 لاکھ آ چکی ہے، سب سے کم بولی دینے والوں سے بھی قیمت کم کرائی گئی اس پر متعلقہ وزراء کو شاباش دیتے ہیں، یہ قومی عزم کی مثال ہے، گندم کی ملک میں کمی نہیں ہو گی، صوبے جب چاہیں گے انہیں گندم فراہم کریں گے، ہم نے ڈالر بچانے کیلئے نجی شعبہ کو گندم درآمد کرنے کی اجازت نہیں دی کیونکہ جب اجتماعی کاوش ہو رہی ہے تو اس سے ڈالر باہر جانے سے بچ رہا ہے، جب اچھا وقت آئے گا تو نجی شعبہ درآمد کر سکتا ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان میں بجلی سے چلنے والے تین لاکھ ٹیوب ویل ہیں، ہم بڑے پیمانے پر سولر منصوبہ کی طرف جا رہے ہیں، 10 ہزار میگاواٹ بجلی کے حصول کا منصوبہ ہے، کاشتکاروں کو مہنگی بجلی سے نجات دلانے کیلئے تین لاکھ ٹیوب ویلوں کی سولر پر منتقلی کیلئے بلاسود قرضے فراہم کریں گے، اس پر سود حکومت ادا کرے گی، اگر گندم اور اجناس باہر سے درآمد کریں گے تو اس پر کروڑوں ڈالر باہر جائیں گے اور ہم اس کے متحمل نہیں ہو سکتے، حکومت نے تمام تر مشکلات کے باوجود پیکیج دیا ہے، چین کے دورہ پر سرمایہ کاروں کو پاکستان میں اس شعبہ میں سرمایہ کاری کی دعوت دوں گا، سولر لگانے کے بعد بجلی کا بل دینے کی بجائے کاشتکار قرض کی قسط فراہم کرے گا، یہ کاشتکار کیلئے بہت بڑا ریلیف ہے، یہ مخلوط حکومت کا بڑا فیصلہ ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ کاشتکار سے بجلی کی 13 روپے فی یونٹ فکسڈ قیمت لیں گے، اس پر 43 ارب روپے کی سبسڈی دی جائے گی، اس تاریخی پیکیج پر تمام اتحادی جماعتوں کے قائدین کو مبارکباد پیش کرتا ہوں، اس تاریخی پیکیج پر حرف با حرف عملدرآمد یقینی بنایا جائے گا، اس سے 4 سے 6 ماہ میں زرعی معیشت توانا ہونے سے قومی معیشت میں جان پڑے گی، پاکستان کی برآمدات میں اضافہ ہو گا۔

ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ معیشت کے حوالہ سے قرض چکانا ہمارا فرض تھا جس کیلئے ہم نے حقیر سی کوشش کی۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے 100 یونٹ تک بل معاف کئے اور اس کیلئے حمزہ شہباز شریف نے 100 ارب روپے رکھے تھے، اس پیکیج کو برباد کر دیا گیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ مافیا اور کارٹیل کو توڑنا خالصتاً صوبائی معاملہ ہے، پنجاب میں جب میری حکومت تھی تو آٹے کی قیمت میں معمولی اضافہ پر حکومت اور انتظامیہ حرکت میں آتی تھی، صوبائی حکومتیں پرائس کنٹرول کمیٹیوں کو فعال کریں اور بے جا منافع کا سدباب کریں، یہ خالصتاً صوبائی معاملہ ہے۔

ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ اس پیکیج کا مقصد اربوں ڈالر کی فوڈ امپورٹ کو کم کرنا ہے۔ اس موقع پر وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ کاشتکاروں کو جو پیکیج دیا گیا ہے یہ وقت کی ضرورت تھی، اس سے آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے معاہدہ پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ وزیراعظم نے ایک اور سوال کے جواب میں کہا کہ پاکستان اور بیرونی دنیا سے سرمایہ کاروں کیلئے پاکستان میں ٹریکٹر کی پیداوار کیلئے سرمایہ کاری کی کھلی پیشکش ہے، صوبوں کو توسیعی زراعت کے پروگرام کو بحال کرنا چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ کم قیمت پر گندم کی درآمد کا بنیادی مقصد عام آدمی کو ریلیف دینا ہے، ہم نے جو گندم پہلے خریدی وہ 500 ڈالر کے حساب سے تھی جبکہ اب اس کی قیمت میں مزید کمی ہوئی ہے اور اس کی قیمت 370 ڈالر پر آ چکی ہے، تیل کی درآمد پر ہمارے اربوں ڈالر صرف ہوتے ہیں، اس سے بچنے کیلئے مقامی سطح پر زرعی پیداوار بڑھانے کی ضرورت ہے۔ ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ این ڈی ایم اے کی جانب سے پنجاب کے متاثرہ علاقوں میں وفاق کی طرف سے 25 ہزار روپے فی خاندان فراہم کئے گئے جبکہ باقی صوبوں کی طرح متاثرین کو امدادی سامان بھی فراہم کیا گیا، یہ ریکارڈ کا حصہ ہے۔

گنے کی کرشنگ نہ ہونے کے حوالہ سے ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ وفاق چاہے گا کہ فوری طور پر یہ کرشنگ ملیں شروع کریں، یہ صوبائی معاملہ ہے، ہمارے دور پنجاب حکومت میں اس پر گہری نظر ہوتی تھی، ہمارے پاس سرپلس چینی شوگر ملوں کی کرشنگ سے مشروط ہو گی، احتجاج کرنے والے کاشتکاروں سے ہر سطح پر مذاکرات ہوئے۔ وزیراعظم نے کہا کہ اسحاق ڈار ایک منجھے ہوئے مالی ماہر ہیں، وہ بہت محنتی آدمی ہیں، ان کو مشکل سے راضی کرکے یہاں لائے ہیں، میں نے اپنے وزارت اعلیٰ کے دور میں جعلی زرعی ادویات کا قلع قمع کیا، صوبے اس حوالہ سے اپنا کردار ادا کریں۔