اسلام آباد۔15ستمبر (اے پی پی):نگراں وفاقی وزیر خزانہ، محصولات و اقتصادی امورڈاکٹرشمشاداخترنے کہاہے کہ کلی معیشت کے اشاریوں میں بہتری سے معیشت کی بحالی کی عکاسی ہورہی ہے، ٹیکس کے نظام کو مرکزی دھارے میں لایا جارہاہے، ٹیکس کی بنیادمیں وسعت کیلئے قانون سازی کے علاوہ ایف بی آرکومضبوط بنانا ہوگا،معیشت کودستاویزی بنانا وقت کی ضرورت ہے ،خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے تحت تمام متعلقہ شراکت دارمشاورت اورشفافیت کے ساتھ کام کررہے ہیں، دنیاکا کوئی بھی ملک کرنسی سے کھیلنے کی اجازت نہیں دیتا۔
وہ جمعہ کویہاں وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات مرتضیٰ سولنگی، وفاقی وزیر محمدعلی اوردیگرکے ہمراہ پریس کانفرنس کررہی تھی، پرنسپل انفارمیشن آفیسرعاصم کچھی بھی اس موقع پرموجودتھے۔ وزیر خزانہ نے کہاکہ نگران حکومت کومسائل ورثہ میں ملے ہیں مگرہم ان سے گھبرانہیں رہے بلکہ ایک ایک کرکے ان چیلنجوں اورمشکلات پرقابو پانے کی کوشش کررہے ہیں، ہماری کوشش اورطریقہ کاریہ ہے کہ ان مسائل کودانش مندانہ اوراحسن اندازمیں حل کیا جاسکے۔ہماری کوشش ہے کہ اخراجات پرقابو پایا جائے اوران میں کمی لائی جائے جبکہ محصولات میں اضافہ کیلئے اقدامات کئے جائے، اخراجات میں کمی اورمحصولات میں اضافہ سے بہتری آسکتی ہے۔
نگراں وزیر خزانہ نے کہاکہ کلی معیشت کے اشاریوں میں بہتری آرہی ہے، معاشی اشاریوں سے معیشت کی بحالی کی اشارے مل رہے ہیں، صارفین کیلئے قیمتوں کاحساس اشاریہ مئی کے 38 فیصدکی شرح سے کم ہوکر26.2 فیصدکی سطح پرآگیا ہے، اس سے واضح ہورہاہے کہ ہم مشکلات سے نکل رہے ہیں اورقیمتوں میں استحکام آرہاہے، آنیوالے دنوں میں اس میں مزید بہتری آئیگی۔انہوں نے کہاکہ پیداواری شعبہ میں بہتری آرہی ہے، ہمیں امیدہے کہ زراعت کے شعبہ میں چھوٹی اوربڑی فصلوں کی اچھی پیداوارآجائیگی اورہمارے ذخائر بہترہوجائیں گے اس سے مجموعی معیشت پراثرات مرتب ہوں گے،
اسی طرح سیمنٹ اوردیگرشعبوں میں بھی بہتری آئی ہے، خدمات کاشعبہ متحرک ہے اوریہ شعبہ کئی دیگرشعبوں کے ساتھ منسلک ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ مانیٹری پالیسی کمیٹی نے شرح سود کوبرقراررکھا ہے ،اس سے بھی بہتری آئیگی، قرضہ لینے کی لاگت کم ہوگی اورصنعتوں کوریلیف ملے گا۔وزیر خزانہ نے کہاکہ عالمی بینک اورایشیائی ترقیاتی بینک کے ساتھ مختلف منصوبوں کو فاسٹ ٹریک پرمکمل کرنے کیلئے ہماری بات چیت چل رہی ہے، ہمیں عالمی بینک سے مختلف منصوبوں کیلئے دو ارب ڈالرکی معاونت ملے گی، اسی طرح ایشیائی ترقیاتی بینک نے رائز پروگرام کو فاسٹ ٹریک پرمکمل کرنے سے اتفاق کیاہے۔
نگراں وزیر خزانہ نے کہاکہ ہماری کوشش ہے کہ ان شعبوں پرتوجہ دی جائے جس سے لوگوں کوزیادہ سے زیادہ فائدہ ہوں، ہم براہ راست بیرونی سرمایہ کاری میں اضافہ کیلئے اقدامات کررہے ہیں جس کے اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔نگراں وزیر خزانہ نے کہاکہ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائرمستحکم ہیں، حکومت نے ایکسچینج کمپنیوں میں اصلاحات کی ہے جبکہ سمگلنگ کے خاتمہ کیلئے بھی ملک بھرمیں اقدامات جاری ہیں اس سے روپیہ کی قدرمیں بہتری آئی ہے۔انہوں نے کہاکہ حکومت نے بینکنگ ذرائع سے زرمبادلہ ارسال کرنے کیلئے 80 ارب روپے میں سے 20 ارب روپے آج جاری کئے ہیں
،ایکسپورٹ اینڈامپورٹ بینک کوآپریشنلائز کیاجارہاہے۔ نگراں وزیر خزانہ نے کہاکہ کسٹم ڈیوٹی میں کمی آئی ہے تاہم ایف بی آر نے جاری مالی سال کے پہلے دوماہ میں اپنے ہدف سے زیادہ محصولات اکھٹاکیا ہے،ہماری صنعتوں کیلئے درآمدات ضروری ہے اس لئے اس پرزیادہ ٹیکس نہیں لگاسکتے، انہوں نے کہاکہ ریونیوکے مسائل ڈھانچہ جاتی ہے، ٹیکس گزاروں اورٹیکس نیٹ میں اضافہ ضروری ہے، ایف بی آرمیں اس حوالہ سے کام ہورہاہے، آئی ایم ایف کے ساتھ جو اہداف ہیں وہ مکمل کئے جائیں گے، ہماری کوشش ہے کہ ٹیکس کے نظام کو ایک دھارے میں لایا جائے۔ایک سوال پرانہوں نے کہاکہ اس وقت کرنسی کی قدرکیلئے جو اقدامات کئے جارہے ہیں، اس میں ایکسچینج کمپنیوں کیلئے ضابطہ جاتی قواعد کومضبوط بنایا جارہاہے،
اس کے ساتھ زرمبادلہ کی سمگلنگ اورذخیرہ اندوزی کیلئے اقدامات کاسلسلہ جاری ہے کیونکہ کوئی بھی ملک کرنسی سے کھیلنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل سے متعلق سوال پرانہوں نے کہاکہ کونسل کے تحت تمام متعلقہ شراکت دارمشاورت اورشفافیت کے ساتھ کام کررہے ہیں، زراعت اورآئی ٹی سمیت مختلف شعبوں پرتوجہ دی جارہی ہے،ہماری کوشش ہے کہ ملک میں کاروبار اورسرمایہ کاری کیلئے سازگارماحول فراہم کیا جائے۔ایک سوال پرانہوں نے کہ 18 ویں ترمیم کے تحت وسائل کی منتقلی صوبوں کوہوئی ہے، سندھ حکومت کے ساتھ وسائل کی تخصیص میں کوئی زیادتی نہیں ہوئی۔
آئی ایم ایف کے تحت ہم نے سرکاری اخراجات کو شفاف رکھناہے،ہمارا بنیادی مقصدخسارے میں کمی لانا ہے۔انہوں نے کہاکہ پاکستان میں ٹیکس کے ڈھانچہ میں تضادات ہیں، ہمارے ٹیکس کی بنیادبہت کم ہے، ہم زراعت پرٹیکس عائدنہیں کرسکتے، اسی طرح ہمیں رئیل اسٹیٹ اور ریٹیل سیکٹر پر ٹیکس لاگوکرنے میں مشکلات ہیں، ہمیں ٹیکس کی بنیادمیں وسعت کیلئے قانون سازی کے علاوہ ایف بی آرکومضبوط بنانا ہوگا،معیشت کودستاویزی بنانا وقت کی ضرورت ہے،ہماراطریقہ کاریہی رہاہے کہ ہم ان لوگوں پرٹیکس عائدکرتے چلے آرہے ہیں جو پہلے سے ٹیکس دیتے ہیں،اس حوالہ سے نظام کوڈیجیٹائزڈکرنا بہت ضروری ہے۔