اسلام آباد۔26جنوری (اے پی پی):وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ کورونا وائرس کی وبا کے باوجود پاکستان معاشی طور پر بحالی کی جانب گامزن ہوا ہے،نجی شعبے کے تعاون سے دیرپا ترقی کے ایجنڈے 2030 کے اہداف کا حصول ممکن بنایا جا سکتا ہے،دنیا کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے حکمت عملی وضع کرنا ہو گی،کرپٹ لیڈرشپ، ترقی پذیر ممالک کا سب سے بڑا المیہ ہے،ہمیں ملک کو آگے لے جانے کیلئے سوچ کے دھارے میں تبدیلی لانی ہوگی،5.4 فیصد گروتھ کافی نہیں ،ہمیں اسے آگے لے کر جانا ہے۔
بدھ کو وزارتِ خارجہ میں "پائیدار ترقی میں نجی شعبے سے استفادہ” کے عنوان سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ ہمیں مثبت انداز میں آگے بڑھنے کیلئے مختلف سوچ اپنانا ہو گی۔ماضی کی غلطیوں کو بار بار دہرا کر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ گذشتہ دو سالوں میں کورونا وائرس کی وبا کے باوجود پاکستان معاشی طور پر بحالی کی جانب گامزن ہوا ہے اور ورلڈ بینک نے اس کی توثیق کی ہے۔2018 میں جب ہم نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی تو تمام معاشی اشارے منفی میں تھے،ہم، 20 ارب ڈالر کے اقتصادی فرق کو پورا کرنے کیلئے فوری کاوشیں بروئے کار لائے۔میں نے ریاض ابوظہبی، اور بیجنگ کے دورے کیے،انہوں نے ہماری معاونت کی مگر وہ ہماری فوری ضروریات کو پورا کرنے کیلئے کافی نہ تھی،چنانچہ ہمیں آی ایم ایف سے رجوع کرنا پڑا۔آج ہم اس ملک میں پائیدار ترقی کی بات کر رہے ہیں جو ابھی تک آئ ایم ایف پروگرام کا حصہ ہے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اسی کی دہائی میں ہماری ترقی 6 فیصد کو چھو رہی تھی لیکن بعد میں یہ شرح برقرار نہیں رہ سکی،ہمیں اس گروتھ کی شرح کو دیرپا بنانے کیلئے اقدامات کرنا ہوں گے۔آج 5.4 فیصد گروتھ کو کافی نہیں کہا جاسکتا ہمیں اسے آگے لے کر جانا ہے۔ہمیں آؤٹ آف باکس سوچ کو آگے بڑھانا ہو گا اور دنیا کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے حکمت عملی وضع کرنا ہو گی۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہماری حکومت نے قومی سلامتی پالیسی کا اجراء کیا جس کا بنیادی جزو اقتصادی سکیورٹی ہے۔
مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ترقی پذیر دنیا 2030 کے پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول میں تاحال بہت پیچھے ہے۔ہماری حکومت نے یونیورسل صحت کارڈ کا اجراء کیا جس کے تحت پاکستان کے ہر خاندان کو ہیلتھ انشورنس کی ضمانت دیتی ہے۔ہمیں ادراک ہے کہ بیماری کا ایک جھٹکا کسی بھی خاندان کو غربت کی لکیر سے نیچے لے جا سکتا ہے،یہ صحت کارڈ، ہر فرد کو احساس تحفظ فراہم کرتا ہے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ آج ہمیں سرمایہ کاری 16 فیصد حجم کے ساتھ درکار ہے جبکہ ہمارا موجودہ حجم 2 فیصد ہے،ہمیں مطلوبہ حجم کے حصول کے لیے کچھ الگ اپروچ اپنانا ہو گی۔انہوں نے کہا کہ صحت کارڈ کے ذریعے صحت کے شعبہ میں پرائیویٹ سرمایہ کاری کو فروغ ملے گا۔انہوں نے کہا کہ ہمیں ہر دفعہ آئ ایم ایف کی جانب سے بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا مشورہ دیا جاتا ہے، ہمیں توانائی کے شعبے میں نئی سوچ کو ترویج دینا ہو گی۔ہمیں دیکھنا ہے کہ وسائل کے فرق کو کیسے کم کیا جا سکتا ہے ۔
مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا کہ زرعی شعبے میں بجلی کی کھپت کو پورا کرنے کیلئے، شمسی توانائی کو بروئے کار لا کر اس پر قابو پایا جا سکتا ہے،مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا کہ کرپٹ لیڈرشپ، ترقی پذیر ممالک کا سب سے بڑا المیہ ہے،ہمیں ملک کو آگے لے جانے کیلئے سوچ کے دھارے میں تبدیلی لانی ہو گی۔پارلیمنٹ میں تعلیم یافتہ لیڈرشپ کی موجودگی اور صحت مند مباحثے سے صورتحال میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ لوکل گورنمنٹ سسٹم کو فعال اور مستحکم بنانا ناگزیر ہے،ہماری کوشش ہے کہ عوام ڈسٹرکٹ کونسل کے نمائندگان کو براہ راست منتخب کریں۔محدود الیکٹورل کالج کے ذریعے مطلوبہ نتائج کا حصول ممکن نہیں ہو سکتا۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہمیں درپیش چیلنجز نئے نہیں ہیں ہمیں ان چیلنجز سے نمٹنے کیلئے نئی اپروچ کی ضرورت ہے، یہی وہ نئی اپروچ ہے جسے ہم دنیا بھر میں پاکستان کے 114 سفارت خانوں میں بروئے کار لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔وزیر خارجہ نے کہا کہ پبلک سیکٹر تنہا ان اہداف کو حاصل نہیں کرسکتا لیکن نجی شعبے کے تعاون سے دیرپا ترقی کے ایجنڈے 2030 کے اہداف کا حصول ممکن بنایا جا سکتا ہے۔