ہر خاندان میں بچے کی اولین درسگاہ ماں کی گود ہوتی ہے، خواتین کو بااختیار بنائے بغیر معاشرے میں مقام حاصل کرنا مشکل ہے،صدرمملکت ڈاکٹر عارف علوی کا خواتین کے عالمی دن کے موقع پر ایوان صدر میں منعقدہ تقریب سے خطاب

اسلام آباد ۔ 8 مارچ (اے پی پی) صدرمملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا ہے کہ ہر خاندان میں بچے کی اولین درسگاہ ماں کی گود ہوتی ہے، خواتین کو بااختیار بنائے بغیر معاشرے میں مقام حاصل کرنا مشکل ہے، عورت کی صحت، تعلیم، گھراورعوامی مقامات پر تحفظ اور معاشی اور وراثتی حقوق کی فراہمی معاشرے کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے، جید علمائے کرام احکامات الہی کے حوالے سے معاشرے میں خواتین کو حقوق دلانے میں اپنا مؤثر کردار ادا کریں۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے خواتین کے عالمی دن کے موقع پر ایوان صدر میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ صدر ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ اداروں میں خواتین کو سہولیات فراہم کرنا بہت ضروری ہے۔ وراثت کا واحد قانون ہے جس میں مقدمہ کسی عدالت میں بھی ہو توخواتین وفاقی محتسب میں اپنی شکایات لیکر آسکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہر خاندان میں بچے کی اولین درسگاہ ماں کی گود ہوتی ہے ہمیں اپنے بچوں کی تعلیم، تربیت اور اخلاقیات پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی ایک تاریخ ہے’ ایک وہ سیاسی تاریخ ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے سیاسی اکابرین نے کس طرح انگریز اور ہندو متعصب سیاستدانوں سے آزادی حا صل کی اور دسری جانب سر سید احمد خان کی شخصیت ہے جنہوں نے کہا کہ علم حاصل کرو اور علم حاصل نہیں کرو گے تو دیگر اقوام کے مقابلے میں پیچھے رہ جائو گے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں تعلیم کے میدان میں خواتین مردوں کے مقابلے میں آگے ہوتی ہیں لیکن عملی زندگی میں خواتین پیچھے رہ جاتی ہیں اس کی وجہ ان کا تعلیم سے فراغت کے بعد گھر بیٹھ جانا ہے جو لمحہ فکریہ ہے اس لئے ہمیں خواتین کو پیشوں میں مواقع دینے کی ضرورت ہے تاکہ معاشرہ ترقی کر سکے۔ ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ خواتین ہر شعبے میں نمایاں کردار ادا کر رہی ہیں تعلیم کے شعبے میں بھی عورتیں اپنی قابلیت کا لوہا منوا رہی ہیں لیکن پھر بھی ان کی تعداد بہت کم ہے ہمیں اداروں میں خواتین کو سہولیات فراہم کرنا بہت ضروری ہے۔ صدر نے کہا کہ ترقی یافتہ ملکوں میں خواتین کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں تنازعات ہوتے ہیں لیکن ان تنازعات سے مواقع پیدا کرنے ہوتے ہیں اور ایسا کرنے سے منزلیں متعین ہو جاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ابھی تک ایک فیصد خواتین میں ورک پلیس پر ہراساں کرنے کے واقعات کی رپورٹ کرنے کی ہمت پیدا ہوئی ہے، مائوں بہنوں اور بیٹیوں کو کہنا چاہتا ہوں کہ آپ رپورٹ نہیں کریں گی تو تبدیلی کی رفتار کم رہے گی۔انہوں نے کہا کہ خواتین کو بااختیار بنائے اور انہیں معاشی اور وراثتی حقوق دیئے بغیر معاشرے میں مقام حاصل کرنا مشکل ہے۔ صدر مملکت نے کہا کہ قرآن مجید فرقان حمید میں خواتین کے نام سے دو سورتیں سورة مریم اور سورة نساء موجود ہیں اور قرآن میں خواتین کی وراثت پر بہت زور دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مغرب ہم پر تنقید کرتا رہتا ہے لیکن بتانا چاہتا ہوں کہ یورپ میں19ویں اور 20 ویں صدی تک وراثت کا قانون ہی موجود نہیں تھا اور عورت کبھی کبھار ملکہ بن جاتی تھی لیکن اسے وراثت نہیں ملتی تھی۔ انہوں نے صوبوں کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ 95 فیصد خواتین کو وراثت نہیں دی جا رہی جو اسلامی تعلیمات کی کسی بھی طور عکاسی نہیں بلکہ فرسودہ رسم و رواج کی وجہ سے ہے۔ صدر مملکت نے کہا کہ اس پلیٹ فارم پر علمائے کرام کو بلا کر کہا کہ خواتین کے وراثت پر اتنی بات کریں کہ آپ کی زبان تھکنی نہیں چاہیے ۔ صدر مملکت نے کہا کہ وزیر قانون سے بات کی ہے کہ ایسا قانون متعارف کرائیں کہ دو سال کی پابندی لگا دی جائے کہ کوئی خاتون اپنی وراثتی جائیداد کسی کو گفٹ نہیں کر سکے گی لیکن ان کا کہنا تھا کہ آئین میں اس کی گنجائش نہیں ہے۔ صدر مملکت نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ اس قسم کے معاشی و معاشرتی مسائل کے لئے قوانین میں لچک ہونی چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ خواتین اگر معاشرے کے ساتھ چلتی ہے تو قلم اور تلوار سے زیادہ طاقتور ہے۔ صدر ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ عورت کی صحت، تعلیم، گھراورعوامی مقامات پر تحفظ اور معاشی اور وراثتی حقوق کی فراہمی معاشرے کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے احساس کفالت یا بی آئی ایس پی کی اعانت خواتین کو موبائل فون کے ذریعے ڈیجیٹل ادائیگی سے ہونی چاہیئے۔تقریب کے دوران وفاقی محتسب تحفظ نسواں کام کی جگہوں پر خواتین کی ہراسگی کی طرف سے زندگی کے مختلف شعبوں میں کارہائے نمایاں سرانجام دینے والی ممتاز خواتین کی خدمات کو اجاگر کرنے کے لئے دستاویزی فلم کی بھی عکاسی کی گئی۔ وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے قومی صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ملک کی ان تمام خواتین کو خراج تحسین پیش کیا جنہوں نے اپنے حقوق کی بالادستی اور تمام رکاوٹوں کے خلاف کام کرتے ہوئے معاشرے اور دنیا کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں زچگی کے دوران اموات کی شرح خطر ناک حد تک زیادہ ہے جس کا 100 فیصد روک تھام ممکن ہے۔ ملک بھر سے 90لاکھ حاملہ خواتین میں سے 50فیصد خون کی کمی کا شکار ہوتی ہیں۔اور 40فیصد بچوں کا بروقت علاج نہ کیا جائے تو وہ زندگی بھر کی پچیدگیوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے سماجی تحفظ و تخفیف غربت ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے کہا ہے کہ کام کی جگہ پر خواتین کو ہراساں کرنے کے حوالے سے تحفظ فراہم کرنے والے وفاقی محتسب کو چاہئے کہ نجی اداروں کو اس بات کا پابند بنائیں کہ وہ خواتین کیلئے ہراسگی سے پاک کام کیلئے سازگار ماحول فراہم کریں۔ احساس پروگرام سے متعلق انہوں نے کہا کہ حکومت خواتین کی بہبود اور ان کے معاشی تحفظ کیلئے پرعزم ہے۔انہوں نے کہا کہ قانون کے تحت خواتین کو وراثتی حقوق حاصل ہیں، ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ خواتین کو ملکیتی حقوق دیئے گئے ہیں۔ حکومت کے مختلف پروگراموں پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کفالت پروگرام میں 100 فیصد خواتین کو شامل کیاگیا ہے، انکم پروگرام سے 60 فیصد خواتین مستفید ہو رہی ہیں جبکہ وزیراعظم کے تعلیمی وظائف پروگرام میں 51 فیصد کوٹہ خواتین کے لئے مختص کیا گیا ہے اس کے علاوہ 50 فیصد خواتین کی قرضوں کی سہولت میں شمولیت کو یقینی بنایا گیا ہے۔ ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے کہا کہ یہ مردوں کا سلوک ہے جس سے اس بات کو یقینی بنایا جاسکتا ہے کہ معاشرے میں خواتین کس قدر خوشحال ہوں گی۔ وفاقی متحسب کشمالہ طارق نے اپنے ادارہ کی کارکردگی کا جائزہ پیش کیا اورکہا کہ یہ ادارہ گزشتہ دس برس سے خواتین کو کام کی جگہوں میں ہراسگی سے پاک ماحول کی فراہمی کو یقینی بنا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ خواتین تبدیلی کا اصل محرک ہیں جب وہ ذریعہ معاش باعزت طریقہ سے کماتی ہیں تو اس سے اپنے بچوں کا پیٹ پالتی ہیں۔انہوں نے معاشرتی رویوں سے متعلقہ پچیدہ مسائل کو حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ عوام الناس میں آگاہی کیلئے میڈیا کلیدی کردار ادا کرسکتاہے۔کشمالہ طارق نے کہا کہ خواتین کو زندگی کے مختلف شعبوں میں حصہ لینے کی حوصلہ افزائی ہونا چاہئے۔یہ مردوخواتین کے درمیان تنازعہ نہیں بلکہ دونوں کا مل کر کوششیں کرنا معاشرے کی خوشحالی کا سبب ہے۔