ہمارے آئین میں پاکستان میں بسنے والے تمام مذاہب کے لوگوں کو مساوی حقوق کا سماجی معاہدہ موجود ہے، ہمارا مذہب بھی اس کا درس دیتا ہے، پاکستان میں مندر، مسجد، چرچ سمیت اپنے اپنے مذہبی مقامات پر جانے میں آزادی کا وعدہ ریاست اور قائداعظم نے کیا، صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا ایوان صدر میں اقلیتوں کے قومی دن کے موقع پر تقریب سے خطاب

198
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا ایوان صدر میں اقلیتوں کے قومی دن کے موقع پر تقریب سے خطاب

اسلام آباد ۔ 11 اگست (اے پی پی) صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا ہے کہ ہمارے آئین میں پاکستان میں بسنے والے تمام مذاہب کے لوگوں کو مساوی حقوق کا سماجی معاہدہ موجود ہے، ہمارا مذہب بھی اس کا درس دیتا ہے، پاکستان میں مندر، مسجد، چرچ سمیت اپنے اپنے مذہبی مقامات پر جانے میں آزادی کا وعدہ ریاست اور قائداعظم نے کیا، بھارت خطے میں مذہبی منافرت بڑھانے میں بطور ریاست ملوث ہے، کووڈ۔19 کے دوران حکومتی پالیسی سے ہمارا سر فخر سے بلند ہو گیا ہے، دنیا اس سے سیکھنے کا اعتراف کر رہی ہے، اسلامی تاریخ اقلیتوں کے ساتھ اچھے سلوک کی گواہی دیتی ہے، ہماری ریاست کورونا وباء کے دوران آئین میں موجود سماجی معاہدے پر پوری اتری، بیروزگاروں کی مدد کیلئے حکومت نے سب سے بڑا احساس پروگرام شروع کیا، عمران خان ہمیشہ اقلیتوں کے حقوق کے داعی رہے۔ وہ منگل کو ایوان صدر میں اقلیتوں کے قومی دن کے موقع پر منعقدہ تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔ اس موقع پر وفاقی وزیر مذہبی امور پیر نور الحق قادری نے بھی خطاب کیا جبکہ قومی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین چیلارام، اراکین قومی اسمبلی، خاتون اول اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے اقلیتی افراد نے شرکت کی۔ اس موقع پر اقلیتوں کے قومی دن کا کیک بھی کاٹا گیا۔ صدر مملکت نے اپنے خطاب میں اقلیتوں کے عالمی دن کے موقع پر پاکستان میں بسنے والی تمام اقلیتوں کو مبارکباد دیتے ہوئے تقریب میں آمد پر ان کو خوش آمدید کہا۔ انہوں نے کہا کہ ہر سال اقلیتوں کا قومی دن منایا جاتا ہے جس کا مطلب ہمارے اکابرین نے اقلیتوں کے تحفظ اور مساوی حقوق کے حوالے سے جو وعدے کئے تھے ان کا اعادہ کرنا ہے۔ تصور پاکستان کی بنیاد اسلام، قرآن کی تعلیمات اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسوہ حسنہ ہے، ہمیں ان کے بتائے ہوئے راستے کو پختہ کرنا ہے یہی انصاف کا راستہ ہے، اسلامی تاریخ اقلیتوں کے ساتھ اچھے سلوک کی گواہی دیتی ہے، حضورۖ نے اقلیتوں پر ظلم کرنے والے کی روز قیامت خود شکایت کرنے کا کہا، انہوں نے اپنی زندگی میں اس کا عملی مظاہرہ بھی کیا کہ جب ایک غیر مسلم خاتون راستے میں ان پر کوڑا کرکٹ پھینکا کرتی تھی جب ایک دو روز ان پر یہ کوڑا کرکٹ نہیں پھینکا گیا تو وہ اس خاتون کی بیمار پرسی کرنے ان کے گھر چلے گئے اس کے علاوہ مسیحی برادری کے ساتھ انصاف کی بھی واضح مثالیں ہیں۔ حضرت عمر کے دور میں بھی مسیحیوں سے سلوک کا تعین کیا گیا۔ صدر مملکت نے کہا کہ برصغیر میں جب انگریز آئے تو یہاں پر انہو ںنے مذہبی ہم آہنگی کے ٹکڑے کئے۔ قائداعظم محمد علی جناح نے کانگریس میں رہ کر بھرپور کوشش کی کہ ہندو اور مسلم اکٹھے رہیں تاہم انہیں جلد ہی اس بات کا ادراک ہو گیا کہ ہندو اور مسلمانوں میں گہرا نفاق پایا جاتا ہے یہ اکٹھے نہیں رہ سکتے توپھر انہوں نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی۔ عارف علوی نے کہا کہ بھارت خطے میں مذہبی منافرت بڑھانے میں بطور ریاست ملوث ہے۔ کیپیٹل اینڈ آئیڈیالوجی نامی کتاب میں اس کا ثبوت ہے کہ گزشتہ پانچ سال میں سب سے زیادہ مذہبی تفریق بھارت میں ہوئی ہے۔ اقلیتوں کیخلاف سٹیزن ایکٹ کی منظوری اور کشمیر میں جو کیا گیا وہ پتہ نہیں اپنی ایک اور تاریخ لکھنا چاہتے ہیں، ہمیں اس سے سبق سیکھنا چاہئے، یہ تباہی کا راستہ ہے۔ صدر مملکت نے کہا کہ کووڈ۔19 کے حوالے سے کامیاب پالیسی پر ہمارا سر فخر سے بلند ہوتا ہے، وزیراعظم عمران خان اس دوران مکمل لاک ڈائون نہ کرنے پربضد رہے اور انہوں نے کہا کہ اگر مکمل لاک ڈائون ہو گا تو غریب طبقہ کا گزارا کیسے ہو گا، ہماری ریاست سماجی معاہدے پر پوری اتری، بیروزگاروں کی مدد کیلئے انہوں نے سب سے بڑا احساس پروگرام شروع کیا،200 ارب روپے کے اس پروگرام پر کسی نے اعتراض نہیں اٹھایا جبکہ انہوں نے بھارتی وزیراعظم مودی کو بھی کہا کہ وہ ہم سے سیکھ لیں۔ صدر مملکت نے کہا کہ ہمارے آئین میں یہ سماجی معاہدہ موجود ہے کہ یہاں بسنے والوں کو مساوی حقوق دیئے جائیں گے۔ پاکستان میں مندر، مسجد، چرچ سمیت اپنے اپنے مذہبی مقامات پر جانے میں آزادی کا وعدہ ریاست اور قائداعظم نے کیا۔ ہمیں اس پر پورا اترنا پڑے گا، عمران خان سیاست میں آنے سے پہلے ہی اقلیتوں کے انصاف کیلئے کوشاں رہے، ہم نے پاکستان میں 72 سال میں یہ سیکھا ہے کہ اگر اپنی آبادیاں توڑو گے تو معاشی، سماجی اور سیاسی حالات خراب ہونگے، قومیں اتحاد سے بنتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے یہ سیکھا ہے کہ خوشی اور غمی میں ساتھ دینے والوں کو لوگ ووٹ بھی دیتے ہیں، ہمارے پڑوسی ملک نے مکمل لاک ڈائون کیا، لوگوں کی مشکلات کا خیال نہیں رکھا، اس لئے وہاں برکت نہیں ہوئی جبکہ ہم نے اس کے برعکس سمارٹ لاک ڈائون کی پالیسی اختیار کی، اس سے برکت ہوئی، علماء کے ساتھ بیٹھ کر ہم نے مساجد میں ایس او پیز کے ساتھ تراویح کا بھی اہتمام کیا۔ انہوں نے کہا کہ اگرسب کو ساتھ لیکر چلیں گے تو برکت بھی ہوگی اور اتفاق بھی پیدا ہو گا، ہمیں اقلیتوں کے حوالے سے ہمیشہ محتاط رہنا چاہئے کہ نفرت پھیلانے والی چھوٹی چنگاری بھی بڑی آگ کا سبب بن سکتی ہے۔ اگر ہم محتاط رہیں گے تو کوئی آگ ایسی نہیں جو روکی نہ جا سکے، مذہبی منافرت ایک چنگاری ہے ۔ عمران خان ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں جہاں اقلیتوں کو مکمل حقوق حاصل تھے، اگر اقلیتوں کے حوالے سے کوئی مسئلہ ہو تو اس پر ہمیں فوری ردعمل دینا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اچھی مثالوں کو لیکر آگے بڑھنا چاہئے، پارلیمنٹ میں موجود اقلیتوں کے نمائندوں کا یہ فرض ہے کہ وہ اقلیتوں کے حقوق کیلئے پہلے کی طرح آواز اٹھائیں، ہم نے ہمیشہ ان کو آواز اٹھاتے دیکھا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کا یہ وژن ہے کہ ہم دنیا کو دکھائیں گے کہ پاکستان میں اقلیتوں کو کیسے مساوی اور برابر کے حقوق حاصل ہیں۔ کووڈ۔19 کے دوران دنیا نے ہم سے سیکھنا شروع کر دیا ہے، جاپان اور فلپائن نے کہا کہ پاکستان کی کووڈ۔19 کی پالیسی سے سیکھنا چاہئے۔ امید ہے کہ جلد پاکستان دنیا کی قیادت کرے گا، اسلام نے بہت عرصہ قبل میرے لئے میرا دین ، تمہارے لئے تمہارا دین کا تصور دیا۔ وفاقی وزیر مذہبی امور پیر نور الحق قادری نے کہا کہ بابائے قوم نے قیام پاکستان کے محض تین روز قبل 11 اگست کو پاکستان میں بسنے والے تمام مذاہب کے حقوق کے حوالے سے راستہ دکھا دیا، پاکستان کا آئین اور مذہب اسلام اقلیتوں کے تحفظ اور مذہبی آزادیوں کے واضح احکامات دیتے ہیں، پاکستان مذہبی آزادیوں کیلئے خطے میں سب سے محفوظ ملک ہے۔ اقلیتوں کی مذہبی آزادی کا احترام ہماری ذمہ داری اور مساوی حقوق بنیادی حق ہے۔ عمران خان جب ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں تو اس ریاست میں مذہبی آزادیوں کی گارنٹی ہے، آج عمران خان کی حکومت میں اقلیتوں کیلئے پاکستان محفوظ تر ملک ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ جو رویہ رکھا جا رہا ہے وہ سب کے سامنے ہے، بھارت نے کشمیریوں کو ایک سال سے اندھے کنویں کی طرح رکھا ہوا ہے، نہ کشمیریوں تک کسی کی آواز پہنچتی ہے اور نہ کشمیریوں کی آواز کسی تک پہنچتی ہے۔