برلن۔12مارچ (اے پی پی):گزشتہ چار سال کے دوران امریکا کی طرف سے اسلحہ کی برآمدات میں 17 فیصد جبکہ یورپی ممالک کی طرف سے امریکی اسلحہ کی خریداری میں 20 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ڈی ڈبلیو نے انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی تازہ ترین رپورٹ کے حوالہ سے بتایا کہ امریکا نے اپنے ہتھیاروں کی مجموعی برآمدات میں گزشتہ چار سال کے دوران 17 فیصد کا اضافہ کیا ہے۔ ان ہتھیاروں میں سے زیادہ تر یورپی ممالک کو فروخت کئےگئے۔گزشتہ چار سال کے دوران امریکی اسلحہ ساز کمپنیوں نے 107 ممالک کو اسلحہ فروخت کیا ۔
ایس آئی پی آر آئی کے آرمز ٹرانسفر پروگرام کے ڈائریکٹر میتھیو جارج کے مطابق امریکا نے ہتھیار برآمد کرنے والے ملک کے طور پر اپنے عالمی کردار میں مزید اضافہ کر لیا ہے، جو اس کی خارجہ پالیسی کا ایک اہم پہلو ہے۔ 2022 ء میں روس کے یوکرین پر حملے اور اس کے بعد سے جاری جنگ نے یورپ میں نئےہتھیاروں کی خریداری کے رجحان کو ڈرامائی انداز میں آگے بڑھایا ہے، جس کا بنیادی فائدہ امریکی اسلحہ ساز کمپنیوں کو ہوا ہے۔2014تا 2018کے درمیانی عرصے کے مقابلے میں 2019ء سے 2023ء تک کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا میں مجموعی طور پر ہتھیاروں کی تجارت میں 3.3 فیصد کمی آئی، لیکن اس عرصے میں یورپی ممالک کی طرف سے اسلحے کی درآمد دگنی ہو گئی۔
یورپی ممالک کو ہتھیاروں کی فروخت کا بڑا حصہ یعنی 55 فیصد امریکہ سے آتا ہے، جو گزشتہ مدت کے مقابلے میں 20 فیصد زیادہ ہے۔2019ء سے 2023 ء تک، یوکرین بھارت، سعودی عرب اور قطر کے بعد دنیا بھر میں ہتھیاروں کا چوتھا بڑا خریدار ملک بن گیا۔ اس عرصہ کے دوران یوکرین کی طرف سے ہتھیاروں کی درآمدات میں 6,600 فیصد اضافہ ہوا۔ فرانس کی طرف سے اسلحہ کی برآمد میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا ہے ۔اور وہ اس شعبہ میں روس کو پیچھے چھوڑ کر دوسرے نمبر پر آگیا ہے۔
دنیا بھر میں اسلحہ برآمد کرنے والے پانچ بڑے ممالک امریکا ، فرانس،روس ، چین اور جرمنی شامل تھے اور سب سے زیادہ اسلحہ برآمد کرنے والے ممالک کی فہرست میں امریکا بدستور پہلے نمبر پر ہے اور اس نے اپنی پوزیشن کو مزید مضبوط بنایا ہے۔ فرانس روس کو پیچھے چھوڑ کر اب اس فہرست میں دوسرے نمبر پر آگیا ہے۔روس سے اسلحہ کی برآمدات میں 53 فیصد کمی واقع ہوئی ہے جبکہ فرانسیسی اسلحہ کی فروخت میں 47 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ 2019 ء تک 31 ممالک روس سے ہتھیار خرید رہے تھے تاہم 2023ء تک، ان کی تعداد کم ہو کر 12 رہ گئی ہے جن میں بھارت اور چین شامل ہیں۔ ان دونوں ممالک نے روس کے ساتھ تیل اور گیس کی تجارت کو بھی جاری رکھا ہوا ہے اور روسی ساز و سامان کے اب تک کے سب سے اہم خریدار ہیں۔
رپورٹ کے مطابق جرمن آبدوزوں کی برآمدات2014 ء سے 2023ء تک جرمنی کی پوزیشن میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ جرمنی اب بھی اسلحہ برآمد کرنے والا دنیا کا پانچواں ملک ہے۔ جرمن اسلحے کے سب سے بڑے خریدار مشرق وسطیٰ کے ممالک ہیں۔2014 ء سے 2023ء تک کے عرصے کے دوران جرمنی سے اسلحے کی برآمدات میں 14 فیصد کمی واقع ہوئی، تاہم ایس آئی پی آر آئی کی کی اس رپورٹ کے ایک شریک مصنف پیٹر ویزیمن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس کمی کو ایک خاص تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔
پچھلے پانچ سال کے عرصے میں جرمنی کو بہت بڑے بڑے آرڈرز ملے۔ خاص طور پر جرمن آبدوزوں کی وجہ سے جرمن ہتھیاروں کی تجارت غیر معمولی رہی۔ اس کے برعکس، سال 2023 ء اپنے طور پر جرمن ہتھیاروں کی صنعت کے لیے خاصابہتررہا۔ ویزیمن نے کہا کہ اس کا تعلق جزوی طور پر، یقیناً، یوکرین کو جانے والی فوجی امداد سے تھا، لیکن ساتھ ہی اس کا تعلق، سنگاپور کو آبدوزوں اور اسرائیل اور مصر دونوں کو فریگیٹس اور کارویٹس کی ترسیل سے بھی ہے۔