اسلام آباد۔4جنوری (اے پی پی):قومی احتساب بیورو (نیب)نے واضح کیا ہے کہ نیب کی موجودہ انتظامیہ کا میسرز براڈشیٹ کے ساتھ معاہدے اور ثالثی عدالت میں مقدمہ کے حوالے سے کوئی کردار نہیں۔نیب نے اپنے وضاحتی بیان میں کہا کہ حکومت پاکستان نے ملزمان کے بیرون ملک اثاثوں کی تلاش کے لئے نیب کے توسط سے میسرز براڈشیٹ ایل سی سی کے ساتھ صدر مملکت کی منظوری سے 2000 میں معاہدہ کیا گیا تھا۔براڈشیٹ کی مایوس کن کارکردگی پر 2003میں معاہدہ منسوخ کردیا گیا۔میسرز براڈشیٹ 2006اور پھر 2012 میں حکومت پاکستان کے خلاف ثالثی عدالت گئی ۔اٹارنی جنرل پاکستان نے برطانوی قانونی فرم کے ذریعے مذکورہ ثالثی مقدمہ میں چارٹرڈ انسٹیٹیوٹ آف آربیٹریٹر لندن میں پاکستان کا موقف بھرپور انداز میں پیش کیا۔اٹارنی جنرل نے وزارت قانون اور وزیر اعظم کی منظوری سے غیر ملکی قانونی ٹیم کی خدمات حاصل کیں۔ واضح رہے کہ میسرز براڈشیٹ سے 2000میں معاہدہ کیا گیا۔چارٹرڈ انسٹیٹیوٹ آف آربیٹریٹر لندن نے یکم اگست 2016 میں پاکستان کے خلاف واجب الادا رقم کی ادائیگی کا فیصلہ کیا۔ 2018 میں 550 ملین ڈالر کے دعوے کی مد میں 2 کروڑ 72لاکھ26ہزار 590ڈالر کی رقم واجب الادا بنی۔بعد میں اسے ہائیکورٹ آ ف جسٹس لندن میں چیلنج کیا گیا تاہم کوئی ریلیف نہیں ملا۔ثالثی عدالت میں اس مقدمے کے دفاع اور بعد ازاں کی پیشرفت سے متعلق وزارت قانون وانصاف اور اٹارنی جنرل آف پاکستان کو مکمل آگاہ رکھا گیا۔واضح رہے کہ نیب کی موجودہ انتظامیہ کا میسرز براڈشیٹ ایل ایل سی کے ساتھ معاہدے اور ثالثی عدالت میں مقدمہ شروع کر نے سے کوئی تعلق نہیں۔